بے بے جی کی کنگھی  (آخری حصہ)

شیریں حیدر  اتوار 5 جون 2016
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ اب تمہیں عمر سے کیا شکایت ہے، تم کیوں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہو؟ ‘‘

’’ آنٹی اسے مجھ سے پیار ہی نہیں رہا… جس محبت کے دعوے وہ شادی سے پہلے کرتا تھا، وہ محبت جانے کہاں جا سوئی ہے!! ‘‘

’’ تم نے جس محبت کے بوتے پر اپنے ماں باپ کی پچیس سال کی محبت کو ٹھوکر ماری تھی، کیاوہ اتنی ہی بودی محبت تھی پیاری… جو شخص اپنے پیدا کرنے والی کی محبت کو جوتے کی نوک پر نہیں رکھ سکا اسے تمہارے ساتھ ایک دفتر میں ایک سال اکٹھے کام کرتے ہوئے اتنی محبت کیسے ہو سکتی تھی؟ جو شخص اچھا بیٹا نہیں بن سکتا وہ اچھا شوہر بھی نہیں بن سکتا!! جو اپنے پیدا کرنے اور پالنے والوں کی محبت کی قدر نہیں کر سکتا، وہ عمر بھر دنیا اور آخرت میں انسانوں میں محبت تلاش کرتا رہتا ہے… ماں باپ کی اطاعت نہ کرنے والا جب اللہ تعالی کو ناراض کرنے کا مستحق ہو سکتا ہے تو اس کے لیے انسانوں کی کیا اہمیت ہے؟

ماں کی زندگی میں اس کی خوشی کی خاطر اس کی بات نہ مان سکا، اب اس کے جانے کے بعد اس کی کنگھی کو فریم میں سجا کر اور اس کے جوتوں کو سامنے رکھ کر کس کو دکھانا چاہتا ہے کہ اسے ماں سے اتنی محبت تھی… جو محبت تھی وہ تو اس نے اس کی حکم عدولی کر کے دکھا دی… تم نے بھی اپنے ماں باپ کے فیصلے سے انحراف کیا، تنزیلہ تو تمہیں اس شادی سے پہلے سمجھاتی تھی کہ عمر جتنا جذباتی انسان ہے اس کے جذبات کا بخار اترے گا تو تم پچھتاؤ گی…اور وہی ہو رہا ہے!! ماں باپ کی زندگیوں میں تکلیفوں کے کانٹوں کی فصل بو کر اپنی زندگیوں میں خوشیوں کے پھول کھلنے کی خواہش رکھنے والے پھول نہیں کانٹے ہی پاتے ہیں، ماں باپ کے ہونٹ دعائیں بھی دیں تو دل… ‘‘ میری آواز بھرا گئی۔’’ اور ہم نے انسان کو تاکید کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کیا کرے اگر تیرے ماں باپ تیرے ساتھ یہ جھگڑا کریںکہ تو میرے ساتھ اس کو شریک کر ے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کر، تمہیں میری طرف لوٹ کر آنا ہو گا تو میں تمہیں بتاؤں گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔‘‘ (سورۃ العنکبوت، آیت نمبر۔ 8 ) ’’ مگر ہمارا مذہب ہمیں اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے اور ہمارے ماں باپ قطعی ہمیں کہیں شادی کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے…‘‘ ا س نے وہی فقرہ کہا جو سب نوجوان کہتے ہیں، انھیں مذہب صرف اپنی شادی کے وقت یاد آتا ہے، اللہ کی یاد اس وقت آتی ہے جب کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے یا سالانہ امتحان سر پر ہوتے ہیں … ’’ ٹھیک ہے کہ والدین اولاد کی شادی زبردستی نہیں کروا سکتے مگر ان کی خواہش کا احترام تو اولاد پر لازم ہے نا!! ‘‘ میں نے دلیل دی ۔

’’ لیکن جہاں دل نہ مانے وہاں کوئی کیونکر ہاں کر سکتا ہے… عمر کیسے اپنی ماں کی بات کو مان سکتے تھے جب ان کا دل میرے ساتھ شادی کرنے کو تھا، ماں کی مرضی سے شادی کرتے تو ناپسندیدہ بیوی کو طلاق دے کر بھی تو ماں کو نا خوش کرتے نا!! ‘‘ اس نے دلیل دی۔’’ تو اب کیا مختلف ہو رہا ہے… ساری طلاقیں اس لیے نہیں ہوتیں کہ بچے ماں باپ کی خواہش پر شادی کرتے ہیں، اس وقت دنیا بھر میں طلاقوںکا تناسب ان شادیوں میں زیادہ ہے جہاں بچے اپنی مرضی سے اور وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر بے سوچے سمجھے شادیاں کر لیتے ہیں۔ چلو اگر وہ اب مری ہوئی ماں کی کنگھی اور جوتی سے اپنے دل کو بہلا سکتا ہے تو!!‘‘ میں نے تاسف سے کہا… ’’ رباب مجھے نماز پڑھ کر روانہ ہونا ہے بیٹا، عمر تو جانے کب آئے گا، میں تو چاہتی تھی کہ تم دونوں کو اکٹھا بٹھاتی تو اصل مسئلے کا علم ہو پاتا!!! ‘‘

’’ کوئی فائدہ نہیں آنٹی!! ‘‘ اس نے کافی دیر لگا کر مجھے جاء نماز لا کر دی، اس سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ ان کا مذہب سے کس حدتک تعلق ہے… یہ ان اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے، نماز اور قرآن سے دوری، انھیں علم ہی نہیں کہ صبر، برداشت اور اطاعت کن چڑیوں کے نام ہیں۔ والدین کے لیے قرآن میں انتہائی واضع کہا گیا ہے کہ انھیں ’’ اف‘‘ تک نہ کہواور ان کی نافرمانی کر کے کون انسان ہے جو اس دنیا میں اور اس کے بعد کی دنیا میں سکون پا سکتا ہے؟  قرآن پاک میں گیارہ مقامات پر والدین کے احترام اور اطاعت کا ذکر کیا گیا ہے۔ ’’ اللہ تعالی کی بندگی کیا کرواور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا کرواور ماں باپ سے اچھا سلوک کیا کرورشتے داروں سے بھی اور یتیموں سے مسکینوں سے پاس والے ہمسائے سے اور دور والے پڑوسی سے ساتھ بیٹھ کر کام کرنے والے سے اور راہ نشین سے اور ان سے بھی جو تمہارے تصرف میں ہیں، بے شک اللہ تعالی ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوں اور شیخیاں بگھارتے ہوں ۔‘‘ )سورۃ النساء، آیت ۔ 36 (

اس کے مقابلے میں کم از میری تحقیق میں کوئی ایسی آیت نہیں آئی جس میں کہا گیا ہو کہ والدین کو اپنے بچوں کا کہنا ماننا چاہیے، ان کی اطاعت کرنا چاہیے یا انھیں ہر طرح کی من مانی کرنے کی اجازت دینا چاہیے… بچوں کے لیے جو حقوق قرآن بتاتا ہے اس کے مطابق انھیں غربت کے خوف سے ختم نہ کرنا، ان کی بہترین اور اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت کرنا ہے۔ سو والدین اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دینے کی خواہش میں اپنی ہر خواہش کا گلا گھونٹ دیتے ہیں پھر بھی ان کے بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں آتی نہ ہی ان کے اندر احساس ممنونیت… نہ اپنی غلطیوں پر ندامت نہ پچھتاوا۔

ہم اپنے بچوں کو تعلیمی میدان میں جھنڈے گاڑنے کے لیے تو سب کچھ دے رہے ہیں مگر ا ن کی تربیت میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور رہ گئی ہے کہ ہم انھیں یہ نہیں سکھا سکے کہ ان والدین کا درجہ، حقوق اور مقام کیا ہے جو اپنی اولاد کے لیے سب کچھ بہترین کرنے میں ہی اپنی عمر گزار دیتے ہیں … ماں باپ کو جنت میں داخلے کی کنجیاں کہا گیا ہے، ان کی خدمت اور تابعداری میں آخرت کی سب اچھائیاں مضمر ہیں، اب یہ اولاد پر منحصر ہے کہ اسے اس ابدی زندگی کی خوشیاں اور اللہ کی خوشنودی چاہیے یا وہ سب کچھ اسی دنیا کو سمجھ بیٹھے!!

آج کل بچوں کے منہ سے یہ فقرہ بہت سننے کو ملتا ہے، ’’ہمارے والدین ہماری شادی زبردستی نہیں کروا سکتے!!!‘‘ کوئی بچہ اس حوالے سے مجھے قرآن میں سے کوئی آیت ڈھونڈ کر دے سکے تو میں بہت ممنون ہوں گی۔

بہت کچھ غلط اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ اسلام کے احکام کے مطابق بچوں کے جوان ہونے کے بعد ان کی شادیوں میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے، یہی ایک نکتہ اس خرابی کی جڑ ہے کہ ہم بچوں کو زیادہ سے زیادہ پڑھانے اور کمانے کے چکروں میں ڈال کر اس اہم فریضے سے دور کر دیتے ہیں، ا س کے نتیجے میں ان کی عمر جوں جوں بڑھتی ہے اور جتنا زیادہ ان کا میل جول، مخلوط تعلیمی اداروں میں جنس مخالف سے ہوتا ہے، اس سے معاشرے میں کئی طرح کی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین ہمارے ہاں ’’دوستی‘‘ کا تصور اس قدر عام ہو چکا ہے کہ ہم نے اسے ہضم بھی کر لیا ہے اور اپنے بچوں کے منہ سے یہ لفظ سن کر ہمیں برا بھی نہیں لگتا۔

اول تو ان کا آزادانہ میل جول ہی ہماری مذہبی تعلیمات سے میل نہیں کھاتا، جن بچوں کی آپسیں شادی کا فیصلہ بھی ماں باپ کر لیں، ا ن کی بھی شادی سے قبل کے میل ملاقات کی ہمارا مذہب اجازت نہیں دیتا۔ آج کل چونکہ اسے ’’وقت کی ضرورت‘‘ کا نام دے کر عام کر دیا گیا ہے تو ’’دوستی یا منگنی‘‘ کے عرصے میں ہی ان کے آزادانہ میل ملاقات کے باعث بہت سی شادیاں وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتی ہیں اور جو رونما ہو جاتی ہیں ان میں بھی شادی کے سال بھر کے اندر اندر ہی ’’خطرے کے مقام‘‘ تک پہنچنے کا تناسب خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔

ہم نے حدیث کے حوالے سے بھی یہی سنا ہے کہ اولاد پر ماں باپ کی اطاعت فرض ہے سوائے اس کہ وہ اس کو شرک کرنے کو کہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق، صرف ضلع راولپنڈی میںسال 2015 ء میں طلاقوں اور خلع کے 6739 مقدمات درج کروائے گئے…یہ ایک انتہائی خطر ناک اور معاشرتی بے اعتدالی والا رجحان ہے۔ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں طلاق کو اس قدر معیوب سمجھا جاتا تھا کہ کسی نے طلاق دینا ہوتی تھی تو کہتے تھے کہ طلاق کے الفاظ ادا کرنا ہیں تو گاؤں کی حد سے باہر جا کر ادا کریں۔

صرف ہمارے معاشرے میں ہی نہیں بلکہ اللہ کی نظروں میں بھی طلاق حلال اعمال میں سب سے نا پسندیدہ عمل ہے، ضرورت اس امر کو سمجھنے کی ہے کہ کیوں آج کل اس کے تناسب میں اضافہ ہو گیا ہے؟ ایک اہم سبب یہی ہے کہ بچے بہت منہ زور ہو گئے ہیں اور اپنی زندگیوں کے اہم فیصلوں میں والدین کی رائے کی اہمیت کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے اپنی نادانی میں وہ فیصلے کر جاتے ہیں جن کا خمیازہ وہ خود بھی بھگتتے ہیں، دو خاندان بھی اور بسا اوقات ان کے بچے بھی جو بد قسمتی سے اپنے ماں باپ کے غلط فیصلوں کے نتائج بھگتنے کے لیے دنیا میں آ جاتے ہیں!! اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے، آمین!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔