ہم عام مسلمانوں کا رمضان المبارک

عبدالقادر حسن  منگل 7 جون 2016
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

یوں تو میں بھی ایک پاکستانی ہی ہوں لیکن میری اتنی ہمت نہیں جتنا کچھ مجھ اکیلے پر لاد دیا گیا ہے۔ موسم کے گرم ترین دن رات‘ سالانہ بجٹ‘ بجلی کے طویل وقفے اور بازار کی گرانی۔ یہ سب بیک وقت ایک پاکستانی کی جان کو لاگو ہو گئے ہیں جب کہ ہمارے حکمران برائے علاج معالجہ وغیرہ ملک سے باہر ٹھنڈے ملکوں میں جان بنانے میں مصروف ہیں۔

اللہ تعالیٰ انھیں صحت مند رکھے تا کہ وہ بیرون ملک علاج کے محتاج نہ ہوں اور ہمارا خزانہ اگر کچھ باقی رہ گیا ہے تو جتنا کچھ ہے وہ بچا رہے۔ علاوہ تمام مذکورہ آزمائشوں کے قدرت نے وقت کے چکر میں ہمیں رمضان المبارک کے استقبال کا فریضہ بھی دے دیا ہے جو ان سطروں کی اشاعت پر شروع ہو چکا ہو گا اور میرے جیسے قدرے معذور مسلمانوں کی آزمائش بھی شروع ہو چکی ہو گی۔ میں اس گاؤں اور گھر کا باشندہ ہوں جہاں رمضان المبارک کی آمد پر یہ طے ہوتا ہے کہ روزے رکھنے ہیں اور بچوں کو تیار کیا جاتا ہے کہ جو کچھ پکا پکایا سرپوش میں رکھا ہوا ہے دن بھر انھیں اس پر گزارہ کرنا ہو گا۔ تازہ کھانا نہیں ملے گا سوائے بہت چھوٹے بچوں کے جن کی مائیں انھیں بھوکا نہیں دیکھ سکتیں۔

رمضان کے مہینے میں دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ جب صبح ناشتے سے لے کر شام کے کھانے تک سب کچھ بند ہو تو پھر کیا ہوتا ہے روزہ رکھ کر آپ دیکھ لیں اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی مطلوب ہے ورنہ بھوک پیاس کا برداشت کرنا عام آدمی کے لیے بہت ہی مشکل ہے لیکن ایک مسلمان کا یہ عہد کہ رمضان کے مہینے میں روزے رکھنے ہیں کسی مسلمان کو ہمت دلاتا ہے اور وہ نہ صرف یہ کہ روزے سے رہتا ہے نماز اور عام زندگی کی نیکیوں کو حاصل کرنے میں بھی باقاعدہ انسان بن جاتا ہے جو اپنے پرانے معمولات چھوڑ کر ایک نیا انسان بننے کی کوشش کرتا ہے اس مہینے کا مقصد بھی یہی بتایا گیا ہے کہ یہ مہینہ انسان کو بدل دیتا ہے اور اس کی عبادت قبول ہو تو اگلے جہاں میں بھی روزہ دار کی زندگی بدلی ہوئی ہوتی ہے۔

بہرکیف رمضان المبارک شروع اور اس کے ساتھ میرے محترم ڈاکٹر فتح خان اختر کی یہ وارننگ بھی شروع کہ تمہارے گردے بیمار ہیں اور یہ جب خشک ہو جائیں تو پھر انسان اپنی آخرت کو پہنچ جاتا ہے خشک گردے کو بحال کرنا اتفاق کی بات ہے مطلب یہ ہے کہ روزہ سے گردے کو وہ کیفیت نہیں ملتی جو اس کی زندگی کے لیے ضروری ہے چنانچہ محترم ڈاکٹر نے کہا کہ میں پورے اطمینان سے تمہیں روزے قضا کرنے کی اجازت دیتا ہوں اس علم کے ذریعہ جو قدرت نے مجھے عطا کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم کس گاؤں اور کس ماحول سے آئے ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے جو رعایت دی ہے وہ بھی ضروری ہے تا کہ تمہاری غیر حاضری قبول کر لی جائے۔

میرے ڈاکٹر نے جس گاؤں کا حوالہ دیا وہاں رمضان المبارک میں روزہ قضا کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ہمارے گاؤں کے کسی گھر سے دھواں اٹھتا ہوا کس نے دیکھا تو وہ تڑپ اٹھا کہ روزوں میں کون کچھ پکا رہا ہے۔ باقاعدہ تفتیش ہوئی تو پتہ چلا کہ ایک بیمار کے لیے کچھ بنایا جا رہا تھا۔ یہاں لاہور میں روزوں کے مہینے میں کوئی آتا جاتا نہیں ہے اور اگر کوئی آ جائے تو یہ طے ہوتا ہے کہ وہ روزے سے ہے۔

روزہ قضا کرنے میں ایک رعایت سفر کی وجہ سے بھی دی جاتی ہے اس کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ امام ابن تیمیہ کہیں سے لوٹے تو دمشق میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر کھانا شروع کر دیا۔ لوگوں نے تعجب کے ساتھ امام پر اعتراض کیا تو انھوں نے وجہ بتا دی کہ سفر میں یہ رعایت ہے لیکن کھلے عام کھانے پر اس سخت مزاج عالم کو کسی نے کچھ نہ کہا۔ سفر کی طرح بیماری بھی رعایت کا سبب ہے لیکن کسی مسلمان سے توقع یہی کی جاتی ہے کہ اسے اگر کوئی شرعی مجبوری ہو تب بھی وہ چھپ کر کھا پی لے۔ روزے کے احترام کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ہر لحاظ سے احترام کیا جائے۔

ہم مسلمانوں میں بعض حالات میں غیر مناسب سختی بھی کی جاتی ہے۔ مثلاً ایک مسافر کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہی نہیں ہے لیکن کسی ریلوے اسٹیشن پر بھی کسی مسافر کو اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ کچھ کھا پی لے۔ شہر میں کھانے پینے کی دکانیں بند کر دی جاتی ہیں جب کہ روزہ نہ رکھنے والوں کے کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہیں ہو گا روزہ دار نہ ہونے کے باوجود وہ بھوکے پیاسے وقت گزارتے ہیں۔

اس طرح ایک روزہ دار کو جو مراعات حاصل ہیں ان سے اس کو روکنا غیر شرعی ہے۔ ایک موقع پر حضرت صلاح الدین ایوبی مہینہ بھر جنگ میں مصروف رہے اور جہاد کے ان دنوں میں انھوں نے روزہ نہ رکھا چنانچہ جنگ ختم ہوئی اور وہ دمشق لوٹ آئے تو روزوں کی قضا شروع کر دی لیکن اس میں کچھ ایسی بے احتیاطی ہو گئی کہ وہ بیمار پڑ گئے اور اس بیماری میں یہ مجاہد اللہ کے حضور حاضر ہو گیا لیکن ان روزوں کی قضا وہ برسرعام کر رہے تھے ساری دنیا جانتی تھی کہ اس مجاہد نے جہاد کے عرصہ میں روزے نہیں رکھے۔ یہاں لاہور میں رمضان المبارک کے مہینے میں کئی مسافر جو روزے سے نہیں ہوتے وہ کھانے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اب چند برسوں سے ریستوران والوں نے یہ طریقہ ایجاد کیا ہے کہ دروازے پر پردہ لٹکا دیا جاتا ہے اور لکھ دیا جاتا ہے کہ ہوٹل کھلا ہے۔ روزہ نہ رکھنے والوں کے لیے یہ ایک بڑی رعایت ہے جو کسی اجنبی کو شہر میں مل جاتی ہے۔

رمضان کا مہینہ ایک بڑا ہی مبارک مہینہ ہے جس میں عبادت کا اجر ہی اور ہوتا ہے۔ اس کی تفصیلات آپ اخباروں میں علماء کے مضامین پر پڑھ سکتے ہیں میرے جیسے عام سے کالم نویس کی مجال نہیں کہ تفصیلات بیان کر سکوں سوائے اس امید ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ ہمارے جیسے بے عمل لوگوں کو بھی معاف فرمائے گا جو اپنی تحریروں میں شاید کوئی نیکی کا کام کر جاتے ہوں۔ آج کے زمانے میں اخبارات بھی تبلیغ کا ایک بہت موثر ذریعہ ہیں جو مستند کتابوں سے مضامین نقل کرتے ہیں کیونکہ ایک عام آدمی کے لیے کتاب خریدنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کی یہ مشکل اخبار حل کر دیتے ہیں اور اخبار والوں کو بھی اس کا اجر یقیناً مل جاتا ہو گا۔ اسی امید پر یہ مبارک مہینہ گزر جاتا ہے اور معافی مانگنے والوں کو اللہ کے حضور سے کچھ مل جاتا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔