بدلتی روایات

عبدالقادر حسن  جمعـء 17 جون 2016
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

رمضان المبارک پوری آب و تاب اور اپنی لامحدود برکتوں کے ساتھ شروع ہے کمی صرف ایک ہے کہ اس مہینے میں شیطان گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے رونق میں خاصی کمی آ جاتی ہے لیکن شکریہ ہمارے بعض سیاستدانوں کا جنہوں نے اس کمی کو پورا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان میں سرفہرست ہمارے مقبول عام لیڈر حضرت شیخ طاہر القادری ہیں جو اس وقت لاہور پہنچ چکے ہیں۔ رمضان ابھی شروع ہی ہوا ہے کہ رمضانی جوق در جوق پہنچ رہے ہیں۔ قادری صاحب کی آمد صرف ایک لیڈر کی آمد ہی نہیں بہت بڑے ہجوم اور گروہ درگروہ عوام کی آمد ہے۔

اس مبارک مہینے کے شروع ہوتے ہی میں نے اس مہینے کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے اور فیض یاب ہونے والوں کا انتظار شروع کر دیا۔ ہمارے ہاں مذہبی خدمات میں مصروف حضرات کی باقاعدہ خدمت کا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ یہ خدمت انھیں خود کرنی پڑتی ہے اور ان کے ہاں رمضان کی آمد سال کی خوشیوں کی آمد ہوتی ہے وہ اس مہینے میں اپنی اپنی مسجدوں میں تبلیغ دین شروع کر دیتے ہیں اور ان کی مقتدی اور پیروکار خود بخود ہی اپنی عقیدت کا نقد اظہار شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا کسی بھی مقام پر نہیں ہوتا کہ تبلیغ کی کوئی محفل باقاعدگی سے سج رہی ہو اور پاکستانی عوام خدمت سے محروم رہیں یہ دنیا بھر میں معروف ہے کہ صدقہ و خیرات میں پاکستانیوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

یہ لوگ بڑھ چڑھ کر صدقہ دیتے ہیں اور اس نیکی کو چھپا کر رکھتے ہیں تا کہ اس کی نمائش نہ ہو اور اس کی برکت میں کوئی خلل اندازی نہ ہو۔ شہروں کی بات تو اور ہے ہمارے دیہات میں بھی ان مبلغوں کی طرح عام نادار لوگ بھی ان کی خدمت سے الگ نہیں رہتے۔ میں جب شروع میں ہی اپنی مسجد کے امام صاحب کے درس میں بٹھا دیا گیا تو ایک دن میری والدہ نے مجھ سے فرمایا کہ تم کسی طرح یہ پتہ لگاؤ کہ تمہارے استاد اور مولوی صاحب کے اہل خانہ کی تعداد کتنی ہے مگر کسی کو پتہ نہ چلے۔

میں نے یہ تعداد معلوم کر لی کیونکہ مولوی صاحب کے گھر میں رہنے والا ایک درویش لڑکا میرا دوست تھا جو ایک پڑوسی گاؤں سے مولوی صاحب کے ہمراہ ہمارے گاؤں میں آیا تھا۔ میں نے تعداد بتا دی اور فارغ ہو گیا۔ لیکن چند وز بعد پتہ چلا کہ مولوی صاحب کے گھر فی فرد کے حساب سے کچھ گندم اور بعض دوسری اشیا پہنچا دی گئی ہیں مجھے والدہ نے کچھ بھی نہ بتایا کہ بچے بات آگے کر دیتے ہیں اور یہ کام بتانے کا نہیں کرنے کا ہے۔

میں رمضان المبارک کی برکات کا ذکر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اس مہینے میں کتنے ہی گھر کوئی سال بھر کی ضروریات پوری کر لیتے ہیں اور کسی کو اس کا پتہ بھی نہیں چلتا البتہ بعض قابل اور سادہ مزاج دیہاتی یہ راز نہیں رکھ سکتے اور جب فصل تیار ہونے کے بعد اس کی مستحقین کی تقسیم کا موقع آتا ہے تو وہ گاؤں کے ہنر مندوں کے ساتھ ساتھ مولوی صاحب کا کوٹہ بھی الگ کر دیتے ہیں اور اسے کھلواڑے پر احتراماً الگ سے رکھ دیتے ہیں جب مولوی صاحب اپنی روایتی گھوڑی پر چکر لگاتے ہوئے ان تک پہنچتے ہیں تو کاشتکار انھیں دور سے دیکھ کر ان کا حصہ سامنے رکھ لیتے ہیں گھوڑی کے ان تک پہنچتے ہی بڑے احترام کے ساتھ گندم کا یہ توڑا گھوڑی پر لاد دیتے ہیں۔

ہمارے مرحوم دوست سید عباس اطہر جو ہمارے ضلع شاہ پور کے سید تھے اس سلسلے میں اپنے تجربات بتاتے تھے کہ وہ اپنے بڑوں کے ہمراہ گھوڑی پر کس طرح اپنا حصہ لینے جایا کرتے تھے اور کہاں چھوٹے شاہ صاحب کے بھی گھٹنے چھوتے تھے۔ گاؤں کے مولوی صاحب اور شاہ صاحب کا حصہ گویا کسان کی محنت کا ثمر تھا جو وہ اپنی عقیدت مندی میں دوسروں تک پہنچاتا تھا اور اس میں گاؤں کے مولوی صاحب اور شاہ صاحب سب سے بڑے اور محترم حصہ دار تھے ان کا حصہ پورے ادب و احترام کے ساتھ ادا کیے بغیر فصل گویا بابرکت نہیں رہتی تھی اور کاشتکار کے گھر میں سال بھر روٹی نہیں پکتی تھی۔

یہ اور کچھ دوسری ایسی روایات تھیں جب تک ہمارے ہاں ان کا احترام باقی رہا تب تک کسی گھر میں غربت تو شاید تھی لیکن محتاجی نہیں ہوتی تھی۔ گاؤں میں کسی گھر کا محتاج رہنا پورے گاؤں کی بے عزتی تھی اور خدمت کا یہ کام خاموشی اور رازداری کے ساتھ ہر سال سرانجام پاتا۔ خصوصاً فصل کی برداشت کے موقع پر کیونکہ گاؤں میں آمدنی کا ذریعہ صرف سالانہ فصل ہوتی تھی اور یہی موقع ہوتا تھا جب کاشتکار کا دل بڑا ہوتا تھا اور وہ اپنی غریبی بھول کر سخی ہو جاتا تھا یہی سخاوت گاؤں میں کسی گھر کو بھوکا نہیں رہنے دیتی تھی۔ سب کا پیٹ بھر جاتا تھا۔ یہ خوبصورت روایت مدتوں قائم رہی تاآنکہ زراعت کے زرعی آلات کھیتوں میں داخل نہیں ہو گئے۔ ٹریکٹر لیا یا نہیں کہ اس کا پڑوسی کاشتکار کس حال میں ہے۔

ایک پاکستانی بزرگ نے ایک بار ہماری بدلتی ہوئی روایات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب سے ہم نے فرش پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھانا کھانا بند کیا ہے اور میز کرسی پر کھانا شروع کیا ہے تب سے گھروں سے برکت اٹھ گئی ہے جب کہ کھانے کے وقت دو چار مہمانوں کی آمد کوئی بات ہی نہیں تھی۔ اب کرسیاں گننی پڑتی ہیں اور مہمانوں کی تعداد کے مطابق خورونوش کا دوسرا سامان بھی، ہم نئی دنیا سے روشناس تو ہو گئے مگر پرانی آسائشوں سے محروم ہو گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔