انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا؟

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 24 جولائی 2016
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

مدر ٹریسا کا اصل نام ایگنس گون کابوہیک تھا، وہ 1910 میں میسیڈونیا کے شہر اسکوپیے میں پیدا ہوئیں، کولکتہ میں غریب اور بیمار لوگوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنی زندگی وقف کرتے ہوئے ٹریسا نے 12 راہباؤں کے ساتھ فلاحی کام کا آغاز مشنریز آف چیریٹی سے کیا۔ کیتھولک چرچ کی جانب سے ان کے معجزے کو تسلیم کیا گیا اور پاپائے روم نے ’بابرکت‘ شخصیت قرار دیا۔

پوپ نے فیصلہ دیا تھا کہ پیٹ کی رسولی میں مبتلا ایک ہندوستانی عورت کی شفا خدا کے ساتھ مدر ٹریسا کی ملکوتی مداخلت کا نتیجہ تھی (اس پر بھارت کے استدلال حلقوں کی جانب سے اعتراض کیا گیا)۔ کتھولک مسیحی پیشوا پوپ فرانسس نے رومن کیتھولک راہبہ مدر ٹریسا کے دوسرے معجزے کو بھی تسلیم کرلیا، معجزے کے مطابق مدر ٹریسا کے ہاتھ سے ایک برازیلی شخص جو اپنے دماغ میں کئی رسولیاں رکھتا تھا، صحت یاب ہوگیا۔ مدر ٹریسا کے ناقدین ان پر آمروں کے ساتھ روابط ہونے اور سخت گیر کیتھولک ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ مدر ٹریسا کو نوبل انعام بھی دیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ مدر ٹریسا کو سماجی خدمت پر ان کی مذہبی شناخت سے الگ نہیں کیا گیا۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ عبدالستار ایدھی کے انتقال پر ان کی خدمات کو بھی سراہا گیا، میڈیا نے ان کی خدمات کی بھی طویل ترین فہرست گنوادی، نوبل پرائز کی بھی بات کر ڈالی مگر ایک حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ذرائع ابلاغ بشمول سوشل میڈیا پر ایک تاثر یہ دیا گیا بلکہ بعض نے تو کھل کر کہا کہ ’’انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘۔ دانستہ طور پر کچھ نے تو یہ تاثر بھی دیا کہ جیسے ایدھی مسلمان مذہب وگھرانے سے تعلق بھی نہ رکھتے ہوں۔

ایدھی کے بارے میں اس قسم کے تاثر اور سوچ سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں، مثلاً یہ کہ دنیا میں اور بھی دیگر مذاہب کے ماننے والے سماجی خدمت اور اچھے کام کرتے ہیں مگر کوئی ان کے بارے میں تو یہ تاثر نہیں دیتا کہ مدر ٹریسا یا کسی اور کا تعلق صرف انسانیت سے تھا، کسی مذہب سے نہیں۔ اگر کوئی مسلمان جیسے عبدالستار ایدھی انسانوں کی بلا امتیاز خدمت کرتا ہے تو بھلا یہ تاثر دینا کیوں ضروری سمجھا جائے کہ اس کا تعلق مذہب سے نہیں؟

کیا اس تاثر سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ مسلمان کسی دوسرے کی مدد نہیں کرتا یا مسلمان اس قدر متعصب ہے کہ وہ صرف اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے، یا یہ کہ مسلمانوں میں صرف دہشت گرد ہی ہوتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی کے حوالے سے میڈیا پر اس قسم کے جملے کہ ’انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘ درحقیقت عالمی سطح پر مسلمانوں کا تشخص خراب کرنے کی بات ہے۔

بہتر تو یہ ہوتا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا سے بھی اس بات کو اجاگر کیا جاتا۔ انسانوں کی بلاامتیاز خدمت کرنے والا عظیم شخص مسلمان اور سنت کے مطابق داڑ ھی رکھنے والا تھا۔ عالمی سطح پر اس وقت مسلمانوں کے خلاف جو غلط تصویر پیش کی جارہی ہے اس کو بہتر بنانے کا یہ ایک اچھا موقع تھا، مگر افسوس معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ شاید ہم سب بھی مغرب کے اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوچکے ہیں جو مغرب میڈیا کے ذریعے کررہا ہے۔

کیا یہ قابل غور بات نہیں ہے کہ مدرٹریسا کو تو بطور راہبہ ایک سماجی خدمت گزار کے پیش کیا جائے ( جو حقائق کے قریب تر بھی ہے) مگر ایک ایسا شخص جس کے بارے میں عالمی سطح پر اچھے جذبات پائے جاتے ہوں، اس کے مذہب اسلام کے تعلق کو چھپانے یا دھندلانے کے لیے یہ کہا جائے کہ انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ کیا اس عمل سے مسلمانوں کے بارے میں رائے عامہ ہموار کرنے میں دشواری پیش نہ آئے گی؟

بات صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتی، قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جب بھی کوئی ایسا شخص جو مسلمان گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور وہ کوئی غلط کام یا قتل و فساد کرے تو میڈیا پر سب سے پہلے اس کی مذہبی شناخت پیش کردی جاتی ہے، یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں واقعے میں ملوث شخص یا دہشت گرد کا تعلق اسلام سے ہے، وہ مسلمان ہے۔

گویا چلن یہ ہے کہ کسی واقعے میں غلط کام ہو تو مسلمانوں کے معاملے میں فوراً مذہب کا تعلق یاد آجاتا ہے خواہ وہ نام کا ہی مسلمان ہو اور اگر نائن الیون کے محض چھ دن بعد کوئی گورا سوئٹرزلینڈ کی اسمبلی میں دہشت گردی کرکے پارلمینٹ کے اراکین سمیت درجن بھر سے زائد افراد ہلاک کردے تو سی این این اور بی بی سی سمیت کسی میڈیا سے اس دہشت گرد کے مذہب کے بارے میں سوال نہ اٹھایا جائے کہ وہ مسلمان نہیں تھا؟

اعدادوشمار کے مطابق عہد رسالت ﷺ میں تیس لاکھ مربع کلومیٹر علاقہ فتح ہوا لیکن شہدا کی کل تعداد ڈیڑھ سو تھی،حضرت عمر سے لے کر خلافت عثمانیہ تک اسلامی سلطنت کی حدود پوری دنیا تک پھیل گئی مگر سات صدیوں کے دوران صرف پانچ ہزار افراد شہید ہوئے۔ مغرب کے نیچرل ازم، نیشنل ازم، سوشلزم، کمیونزم، لبرل ازم، ہیومن ازم، مارکس ازم، ماڈرن ازم اور پوسٹ ماڈرن ازم کے نام پر تاریخ کی خوفناک ترین خوں ریزی ہوئی۔

انگلستان اور فرانس کی طویل جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ جرمنی، فرانس، آسٹریلیا، سوئیڈن کی تیس برس کی جنگ میں صرف جرمنی کے ایک کروڑ بیس لاکھ آدمی مارے گئے، یورپ کی دو تہائی آبادی ہلاک ہوگئی، امریکا کی خانہ جنگی (1860-1865)  میں سات لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ روس نے کمیونزم کے ابتدائی ایام میں انیس لاکھ افراد کو سزائے موت دی، انتیس لاکھ افراد کو مختلف سزائیں دیں، مشرقی یورپ میں کمیونسٹوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد جن میں لیبر کیمپوں میں مقید یورپی قیدی بھی شامل ہیں چھبیس لاکھ سے زیادہ ہے۔

روس کے سرخ انقلاب سے لے کر 1980 تک کل 68 لاکھ افراد قتل کیے گئے۔ کوریا کی معمولی سی جنگی کشمکش میں دو سال کے اندر پچاس لاکھ مرد، عورتیں اور بچے ہلاک ہوئے۔ چین میں کمیونزم کے نفاذ کے لیے ڈیڑھ کروڑ زمینداروں کو پھانسی دی گئی اور لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔ ویت نام کی جنگ میں ستر لاکھ افراد ہلاک ہوئے، جنگ عظیم اول میں تہتر لاکھ اڑتیس ہزار اور جنگ عظیم دوئم میں چار کروڑ چونتیس لاکھ تینتالیس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

اس قسم کے اعدادو شما ر کی ایک طویل فہرست ہے، یہاں صرف مختصر طور پر پیش کی گئی ہے، جس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے مذہب کو نظر انداز کرنے اور انسان کو خدا کے مقام پر فائز کرنے کے بعد اس کرۂ ارض پر کس قدر خون ریزی کی گئی، جب کہ ہم آج بھی مذہب کو ایک بری شے سمجھ کر یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ کوئی انسان اس وقت ہی عظیم اور پرامن ہوسکتا ہے کہ جب وہ مذہب سے الگ ہوجائے۔ اس کے برعکس تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ انسان جب تک مذہب سے جڑا رہا قتل و غارت گری سب سے کم رہی۔ افسوس ہم آج ہر اچھے انسان کا رشتہ مذہب سے توڑنے پر تلے ہوئے ہیں، ہمیں کم از کم بحثیت مسلمان یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کیا کرنے جارہے ہیں۔ آئیے تھوڑا سا غور کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔