کالا باغ ڈیم کی کہانی

نصرت جاوید  جمعـء 30 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

محض ایک رپورٹر ہوتے ہوئے میں ہرگز اس لائق نہیں ہوں کہ قطعیت کے ساتھ کہہ سکوں کہ پاکستان میں بجلی کے بحران پر قابو پانے اور سیلابوں کے ممکنہ نقصانات کو روکنے کے لیے کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ کے پانی کو بند باندھ کر قابو کرنا کتنا ضروری ہے۔

ہمارے ہاں مگر ایسے ماہرین کی کمی نہیں ہے جو ایسے بند کو مندرجہ بالا مسائل کا واحد حل گردانتے ہیں اور اب لاہور ہائیکورٹ نے اس کی تعمیر کا باقاعدہ حکم بھی صادر فرما دیا ہے۔ جمعرات کو سنائے جانے والے فیصلے کے ممکنہ سیاسی مضمرات کو میں زیر بحث لانے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ البتہ کچھ سوالات ہیں جو سراسر ماضی سے متعلق ہیں۔

1985ء سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے بارے میں تسلسل اور باقاعدگی سے لکھتے ہوئے میں نے کالا باغ ڈیم کا ذکر 1986ء کے درمیانی مہینوں میں سننا شروع کیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو طویل جلا وطنی کے بعد اسی سال اپریل میں لاہور پہنچیں تھیں۔ ان کا تاریخی استقبال ہوا تھا۔ ریگل چوک پر ان کے ٹرک پر کھڑے ہو کر میں نے جس طرف بھی نگاہ ڈالی سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ مگر اسلام آباد پہنچا تو وہاں ان دنوں قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھے عبدالحمید جتوئی کا لا باغ ڈیم کے خلاف ایک دھواں دھار تقریر کر رہے تھے۔ اس وقت کے حکومتی بنچوں پر بیٹھے سندھی  اراکین نے ان کی بھرپور حمایت کی اور بعد ازاں یہی ماحول میں نے سینیٹ میں بھی دیکھا جہاں جاوید جبار اپنی شاعرانہ انگریزی کے ساتھ اسی موضوع کو چھیڑ کر اخبار نویسوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لیا کرتے تھے۔

میں ان دنوں آج سے کہیں زیادہ نا سمجھ ہوا کرتا تھا اور ناتجربہ کار بھی۔ اکثر میرے ذہن میں خیال آتا کہ جنرل ضیاء الحق فوجی وردی میں ہمارے صدر ہیں۔ افغانستان میں ہونے والے جہاد کی کھلم کھلا پشت پناہی کرتے ہوئے وہ سوویت یونین جیسی سپر طاقت کو پاش پاش کرنے والے ہیں۔ انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگوایا تھا۔ ان جیسا بے خوف مجاہد جس کی اسلام اور پاکستان سے محبت پر کوئی سوال ہی نہیں کر سکتا تھا، اس ڈیم کی تعمیر کا بیڑا اٹھانے میں اتنی لیت و لعل کیوں برت رہے ہیں۔ اگر وہ کالا باغ ڈیم کو ہمارے پانی اور بجلی سے متعلقہ مسائل کا واحد حل سمجھتے ہیں تو پھر یہ ہچکچاہٹ کیوں۔ میں جب بھی سوال اُٹھاتا تو ’’پاکستان سے محبت کرنے والے‘‘ باخبر سیاستدان اور افسران مجھے بتایا کرتے کہ اس وقت کے فوجی وردی والے گورنر فضل حق نے ولی خان کو اس ڈیم کے بارے میں ’’گمراہ‘‘ کر دیا ہے۔

مجھے بتایا گیا کہ فضل حق کو گویا ’’سزا‘‘ دینے کے لیے  ضیاء الحق اور جونیجو صاحب مل کر انھیں ہٹا رہے ہیں۔ نیا گورنر آ گیا تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ گورنر تبدیل ہو گیا مگر قومی اسمبلی میں کالا باغ کے خلاف تقریریں مزید زور و شور سے جاری رہیں۔ انھی دنوں یہ خبر بھی مشہور ہو گئی کہ کالا باغ ڈیم کے خلاف ’’سازش‘‘ کا اصل محرک غلام اسحاق خان ہے۔ انھوں نے ہی واپڈا اور وزارتِ خزانہ کی سربراہی کے دنوں میں اپنے ہاتھ لگنے والی چند دستاویزات کے ذریعے فضل حق کو ولی خان وغیرہ سے رابطہ کر کے کالا باغ ڈیم کے خلاف ہنگامے کرنے پر مجبور کیا۔ کہنے والے شاید ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ مگر دھیرے دھیرے میں یہ دریافت کیے بغیر بھی نہ رہ سکا کہ کالا باغ ڈیم کے خلاف اصل شور تو سندھ سے اُٹھ رہا ہے۔ میرے لیے سوال یہ پیدا ہو گیا کہ اس صوبے کا ’’غلام اسحاق خان‘‘ کون ہے۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے نکلا تو ’’پاکستان سے محبت کرنے والے‘‘ با خبر سیاستدانوں اور افسروں نے انگلیاں ایک نامور شخصیت اور ان کے خاندان  کی طرف اٹھا دیں۔ پھر ضیاء الحق بھی نہ رہے اور نہ ہی فضل حق۔ بات آگے بڑھ گئی۔

کالا باغ ڈیم کا ایک بار پھر بہت زور سے ذکر میں نے محترمہ کے دوسرے دورِ حکومت 1993ء تا 1996ء میں سننا شروع کیا۔ میری نوجوانی کے ’’شیر پنجاب‘‘ غلام مصطفیٰ کھر ان دنوں وزیر پانی و بجلی ہوا کرتے تھے۔ ایک دن انھوں نے مجھے بتایا کہ صدر فاروق لغاری، ڈاکٹر شیر افگن کے ساتھ ملکر اس ڈیم کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں اور وہ ان دونوں کا پورا ساتھ دے رہے ہیں۔ میں نے اپنی ازلی بے وقوفی کی وجہ سے سوال کر دیا کہ لغاری صاحب اتنا بڑا فیصلہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے بالا بالا کیسے کر سکتے ہیں۔ کھر صاحب نے بجائے واضح جواب دینے کے بڑے معنی خیز انداز میں اپنی دانست میں مجھے ’’ راز‘‘ کی بات یہ بتائی کہ فاروق خان لغاری کو بے نظیر نے نہیں ’’انھوں‘‘ نے صدر بنوایا تھا۔

’’ان‘‘ کا خیال تھا کہ لغاری صاحب کالا باغ ڈیم کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے لیے تاریخی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ فاروق خان خود بلوچ النسل پنجابی تھے مگر والدہ ان کی پشتون تھیں اور سندھ میں لغاری بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ گویا فاروق خان لغاری اپنی ذات میں چاروں صوبوں کی زنجیر تھے۔ وہ کالا باغ ڈیم کی حمایت کریں تو لوگ غور سے سنیں گے۔  لغاری صاحب نے آہستہ آہستہ مگر کالا باغ ڈیم بنانے کی راہ ہموار کرنے کے بجائے محترمہ کی دوسری حکومت کو فا رغ کر دیا اور بعدازاں خود بھی صدارت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

نواز شریف صاحب وزیر اعظم کے عہدے پر دوبارہ فائز ہوئے تو 1998ء کے شروع میں اسلام آباد کے پنجاب ہائوس میں ہونے والی ایک ملاقات میں شہباز شریف نے ’’معصوم‘‘ بن کر ہم صحافیوں کے ایک گروپ سے جاننا چاہا کہ اگر ان کی جماعت سرحد کا نام ’’پختون خواہ‘‘ رکھ دے تو کیا اے این پی جواباََ کالا باغ ڈیم کی حمایت کا اعلان کر دے گی۔ اس ملاقات میں موجود میرے باقی صحافی دوست اس سوال پر واہ واہ کرتے اُچھل پڑے۔ میں چپ رہا۔ اور پھر مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکا کرنے کے بعد تقریر کرتے ہوئے پاکستان زندہ باد کہنے سے پہلے میاں نواز شریف صاحب نے اپنی واسکٹ کی جیب سے ایک پرچی نکالی اور اعلان کر دیا کہ جیسے انھوں نے ایٹم بم بنایا ہے اسی طرح انشاء اللہ کالا باغ ڈیم بھی بنا دیں گے۔ اس تقریر کے بعد سے نواز شریف اور اے این پی آج تک کبھی شیر و شکر نہ ہو سکے۔ مسلسل ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتے رہتے ہیں۔

پھر 12 اکتوبر 1999ء کی رات فوجی وردی میں ہی ایک اور صدر دس سال تک اقتدار میں رہ کر پاکستان کو سیدھی راہ پر چلانے کے لیے نمودار ہوئے۔ جنرل مشرف نے جنرل ذوالفقار کو سندھ بھیجا کہ وہاں جا کر لوگوں کو کالا باغ ڈیم کی افادیت سمجھائیں۔ موصوف ایک دو شہروں میں صورت دکھا کر ہی واپس تشریف لے آئے اور جنرل مشرف بھی کالا باغ ڈیم بھول کر اس ملک کو ’’روشن خیال مگر معتدل‘‘ معاشرہ بنانے میں مصروف ہو گئے۔

مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی کہ جو کام ضیاء الحق جیسے فاتح اور جنرل مشرف جیسے ثقہ بند کمانڈر نہ کر پائے وہ گوجر خان سے اتفاقاََ وزیر اعظم بن جانے والے راجہ پرویز اشرف کس طرح کر پائیں گے۔ ویسے بھی ان کے اقتدار میں تو چند ہی ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ کالا باغ ڈیم نہ بنانے پر توہین عدالت کی سزا اگر ہوئی تو آیندہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو ہو گی۔ پتہ نہیں یہ سزا نواز شریف کا مقدر بنے گی یا عمران خان کا۔ آصف زرداری تو ویسے بھی آنے والے دنوں میں کچھ اور مہینوں تک ایوان صدر کے ایک کونے میں بیٹھے دہی کھا رہے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔