کچھ ہوتے ہوتے رہ بھی گیا

جبار جعفر  منگل 26 جولائی 2016

مذکورہ بالا عنوان دراصل ماضی میں عمران خان کے ڈی چوک پر دیے گئے دھرنے کا خلاصہ ہے، یعنی عمران خان کے رویے سے عوام نے اندازہ لگایا تھا کہ کچھ ہوا ضرور ہے۔ (ن) لیگ کو یقین تھا کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ گڑبڑ اس وقت ہوئی جب عمران خان نے بیچ چوراہے پر امپائر کی انگلی کا ذکر کردیا۔ ظاہر ہے امپائر (اگر تھا تو)نے انگلی کھڑی کرنے کے بجائے انگوٹھا دکھا دیا۔ یوں کچھ ہوتے ہوتے رہ بھی گیا۔ اس کو یاد دلانے کا مقصد یہ ہے کہ آیندہ احتیاط کا دامن تھامے رکھیں اور زبان قابو میں۔ ورنہ پھر کچھ ہوتے ہوتے رہ گیا تو کوئی ذمے دار نہیں ہوگا۔ عنقریب تاریخ اپنے آپ کو دہرانے والی ہے۔ سیاست کی شطرنج پر شاطرانہ چالوں کو سمجھنے کے لیے بساط پر موجود مہروں کی پوزیشن کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے، چنانچہ پس منظر پر ایک نظر۔

A: پاکستان کی لارا لپا جمہوریت کی مادرزاد اشرافیہ، جس کی جائیداد منقولہ و غیر منقولہ، اثاثہ جات جائز و ناجائز، معاملات شفاف غیر شفاف مغربی ممالک میں محفوظ ہیں۔ جو اپنی باری پر پاکستان پر حکومت فرمانے کے لیے بہ نفس نفیس تشریف لاتے ہیں (امریکا سے ہوتے ہوئے) اور مال بناکر دبئی روانہ ہوجاتے ہیں۔ ان کی نیک تمنائیں امریکا کے ساتھ ہیں۔

B: دوسری طرف عسکری ادارے ہیں جن کی شناخت پاکستان ہے، جن کے وجود کا جواز پاکستان ہے، جس کی سلامتی میں ان کی بقا ہے۔ ان کی نظر میں چین عصر حاضر کا گیم چینجر ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت۔ یہ ملک کی سلامتی پر سمجھوتہ کر ہی نہیں سکتے، چاہے نظریہ ضرورت، بلا ضرورت ہی کیوں نہ ہوجائے۔

C: اس خطے میں امریکا بھارت کو بحیثیت بحرہند کا چوکیدار پورے جنوبی ایشیا کا تھانیدار، خطے میں امریکی مفادات کا ٹھیکیدار لانچ کرنا چاہتا ہے، جس کو پاکستان کی عسکری قیادت دشمن نمبر ایک اور سیاسی قیادت دل دا جانی تصور کرتی ہے۔

D: بھارت جنوبی ایشیا میں امریکی موجودگی کے لیے آخری سہارا چین کے خلاف سازش کا مرکز، سپرپاور بننے کے جنون میں غلطاں اور اس خطے کا ’’خودکش بمبار‘‘ ملک ہے۔

E: سی پیک کے پہلے مرحلے کی تکمیل میں تقریباً دو سال اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ میں تقریباً چار ماہ باقی ہیں۔ پاکستان کے سیاسی پنڈت اس بات پر متفق ہیں کہ جنرل راحیل شریف کو سی پیک کے پہلے مرحلے کی کامیاب تکمیل تک اپنے عہدے پر برقرار رہنا چاہیے۔ کیونکہ فوج سی پیک منصوبے کی سیکیورٹی کی ذمے دار بھی ہے، اس لیے اس مرحلے پر آرمی چیف کی تبدیلی دوران جنگ گھوڑے تبدیل کرنے کے مترادف ہوگی۔

F: ان حالات میں اچانک حکمران قیادت پر پانامہ لیکس کے انکشافات کی صورت میں مصیبت ٹوٹ پڑی۔ اور عمران خان کی لاٹری نکل آئی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس مرتبہ صرف عمران خان ہی نہیں پوری حزب اختلاف مجسم سوال نظر آرہی ہے کہ آخر اتنی دولت کہاں سے آرہی ہے جس کی لانڈرنگ آف شور کمپنیاں کر رہی ہیں۔

G: اب تک (ن) لیگ کی طرف سے کوئی معقول جواب نہیں آیا۔ مانا کہ ان کے بیٹوں کو کاروبار کا بچپن سے شوق تھا اور نواز شریف کا اپنے بیٹوں کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آف شور کمپنیوں کے لیے دولت کہاں سے آرہی ہے۔

آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ پوری حزب اختلاف سڑکوں پر آنے کے لیے بے چین ہے عمران خان کا نعرہ ہوگا ’’ آج ہی استعفیٰ دے دو ورنہ۔۔۔۔ اس کے بعد ڈی جے بٹ آکسٹرا پر دما دم مست قلندر کی دھن بجائے گا اور عمران کے چاہنے والے دھمال کریں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری بھی پاکستان تشریف لاچکے ہیں جن کا نعرہ ہوگا ’’ظالمو! جواب دو، ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کا حساب دو!‘‘ مرتے کو مارے شاہ مدار کے مصداق پیپلز پارٹی بھی سڑکوں پر آنے کے لیے بے چین لگتی ہے کیونکہ 2013 کی مفاہمت کی سیاست نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی لُٹیا ڈبو دی تھی، خوش فہمی تھی کہ تحریک انصاف (ن) لیگ کے ووٹ کاٹے گی، لیکن کٹ گئے پیپلز پارٹی کے ووٹ۔

یہاں بحیثیت وزیراعظم میاں نواز شریف کے تدبر اور فراست کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح ملک اور قوم کے مفاد میں، اپنی پسند اور ناپسند کو الگ رکھ کر ملک کو تصادم سے بچانے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ آج سے چند مہینے پہلے جنرل راحیل شریف دو ٹوک انداز میں اپنی مدت ملازمت میں توسیع سے انکار کرچکے ہیں ، اس وقت بین الاقوامی سیاسی سیناریو کو مدنظر رکھتے ہوئے مثلاً (بحیرہ جنوبی چین پر امریکا چین کے تعلقات میں تلخی اور چاہ بہار بندرگاہ کے تعلق سے ایران بھارت دوستی) ہر حال میں سی پیک منصوبے کی کامیاب تکمیل تک کسی بھی سیاسی پارٹی کی طرف تصادم کی کوشش کو عوام سی پیک کے خلاف سازش تصور کریں گے۔ ان حالات میں بات اگر سڑکوں تک پہنچی تو پھر بات سے بات نکلے گی، جب بات سے بات نکلے گی تو بات دور تک جائے گی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ واپسی پر پتہ لگے کہ یہاں تو ’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ ہوا پڑا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا عدلیہ نظریہ ضرورت کے تحت بلا ضرورت ہی سہی آمریت کو آئینی تحفظ فراہم کرے گی؟

جواب یہ ہے کہ جب تک اشرافیائی جمہوریت کے ڈسے عوام آمریت کی آمد پر بھنگڑا ڈالنے سڑکوں پر آتے رہیں گے، مٹھائیاں تقسیم کریں گے، آمریت کا راستہ کوئی مائی کا لعل نہیں روک سکتا۔ عدلیہ اسی معاشرے کا حصہ ہوتی ہے۔ جاری کامیاب جمہوریت کے دوران قانون کی حکمرانی کی درگت بنتے دیکھ کر وقتاً فوقتاً عدلیہ بھی اس کی نشاندہی کرتی رہتی ہے ۔

(1) حکومت نے متبادل عدالتیں لگائی ہوئی ہیں۔ اغوا برائے تاوان کے مجرموں کو چھ مہینے بعد بھی اچھے چال و چلن کا حامل قرار دے کر پے رول پر رہا کردیا جاتا ہے۔ (2) سندھ میں 80 فیصد ترقیاتی فنڈز کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ڈائریکٹر سے لے کر کلرک تک بانٹ لیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کیا پاکستان میں عوامی جمہوریت کبھی تھی؟ یا آج ہے؟ اگر ہے تو…!

(1) اسمبلیوں میں جاگیرداروں، وڈیروں، صنعتکاروں کی اکثریت کیوں ہے؟ (2) کیا پاکستان کے 18 کروڑ عوام کی اکثریت جاگیرداروں، وڈیروں اور صنعتکاروں پر مشتمل ہے؟ (3) اگر نہیں ہے تو کیا پاکستان کی قانون ساز اسمبلیاں غیر نمایندہ نہیں ہیں؟ (4) اگر ہیں تو 68 سال سے جو قانون سازی ہو رہی ہے اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

اب بھی وقت ہے کہ مقامی حکومتوں کے بلدیاتی نظام کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ اس کی روح کے مطابق جیساکہ ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے نافذ کردیں۔ اور سارے اختیارات آئین کے مطابق گراس روٹ لیول تک (یعنی ناظم کی سطح تک) منتقل کردیں۔ نتیجتاً جب پریشر ککر میں کھولَن اپنی انتہا کو پہنچے گی اور بھاپ کا دباؤ خطرے کے نشان کو چھونے لگے گا تو سیٹی بجے گی پریشر ککر ہی نہیں پھٹ جائے گا۔ ورنہ بہترین جمہوریت اور اور بدترین آمریت کے تعلق سے مستقبل میں ایک نیا بیانیہ 2016 جنم لے گا۔ جو کچھ یوں ہوگا۔

’’بدترین آمریت بھی جس میں مقامی حکومتوں کا بلدیاتی نظام اس کی روح کے مطابق آزادانہ اور خودمختارانہ پورے طمطراق کے ساتھ کام کردیا ہو، کامیاب لارا لپا جمہوریت سے ہزار گنا بہتر ہوتی ہے جو مقامی حکومتوں کے بلدیاتی نظام کو اس کے ترقیاتی فنڈز ہڑپ کرنے کی خاطر چلنے ہی نہیں دیتی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔