ابھی دوستوں کی خبر نہیں، وہ کہاں کہاں سے گزر گئے

زاہدہ حنا  بدھ 31 اگست 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یہ 24 جون کی بات ہے جب ہمارے نامدار شاعر صابر ظفر نے مجھے اپنا نیا مجموعہ کلام ’لہو سے دستخط‘ عنایت کیا۔ سرورق پر یہ جملہ تحریر تھا کہ ’بلوچستان اور اس کے شہدا کے نام‘۔ صابر اس سے پہلے بھی بلوچستان کی خون سے رنگین زمین کے بارے میں لکھتے رہے ہیں۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ:

ہم اپنی راکھ اٹھا کر کہاں چلے جائیں
ہمارے کھیت، ہمارے نگر جلائے گئے
کبھی ان کا قلم خون روتا ہے:
قفس میں، کوہ میں، آنگن میں، بن میں لاشیں ہیں
فقط یہیں نہیں، سارے وطن میں لاشیں ہیں

ان کا مجموعہ میرے سرہانے رکھا تھا جب 8 اگست کو صدر بلوچستان بار ایسوسی ایشن بلال انور کاسی کی شہادت کی خبر آئی۔ ابھی اس خبر کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ ان کے غم میں دیوانہ وار کوئٹہ سنڈیمن سول اسپتال کی ایمرجنسی میں اکٹھا ہوجانے والے ان کے ماتم داروں کا ہجوم بم سے اڑا دیا گیا۔ دہشت گردوں کی پرانی حکمت عملی کہ پہلے ایک کو ختم کرو اور پھر جب اس کے رونے والے اکٹھے ہوں تو ان سب کو یکجا اڑا دو۔

اس روز کوئٹہ میں جو سانحہ رونما ہوا، وہ اس لیے بے پناہ تھا کہ کوئٹہ کی قانون دان اور دانشور برادری کا اکٹھے ستھراؤ ہوا۔ ان میں بزرگ بھی تھے، جوان اور نوجوان بھی۔ وہ لوگ جو پاکستان میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی لڑائی کا ہر اول دستہ تھے، انھیں ایک ہی وار میں ختم کردیا گیا۔ کوئٹہ کے بہت سے وکیلوں کا کہنا ہے کہ یہ قتل عام 8 جون کو امان اللہ اچکزئی کی شہادت کے موقع پر ہونا تھا لیکن اس وقت بڑے پیمانے پر قانون دان برادری اکٹھی نہیں ہوئی اسی لیے یہ شب خون موخر کردیا گیا اور پھر دو مہینے بعد بلال انور کاسی کے قتل کو نہایت مہارت سے 70 دوسرے قانون دان دانشوروں کے خاتمے کے لیے استعمال کیا گیا۔

وہ لوگ جو بلوچستان کا مان تھے، وہ ایک ساتھ چلے گئے اور بلوچستان کو، پاکستان کو تہی مایہ کرگئے۔ اس بارے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور پاکستان میں ججوں کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی فقیدالمثال تحریک کے سرخیلوں میں سے ایک ایڈووکیٹ علی احمد کرد نے اس سانحے کے بعد کہا کہ میں کم عمری سے لفظ ’خلا‘ سنتا آیا ہوں لیکن اس ذبح عظیم کے بعد پہلی مرتبہ میری سمجھ میں یہ آیا کہ ’خلا‘ کسے کہتے ہیں۔ ہمارے جو ساتھی چلے گئے، ان کی جگہ کیسے پُر ہوگی؟ دہشت گردوں نے بلوچستان کے وکیلوں، انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں کو ایک ہی ہلے میں ختم کردیا۔ انھوں نے ہمیں ایک گہرا گھاؤ لگایا ہے، ایسا زخم جو آسانی سے پُر نہیں ہوسکتا۔

دوستوں کے درمیان یہ بات ہورہی ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے والے اور ناانصافیوں کا شکار ہونے والوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والوں میں وہی لوگ پیش پیش تھے جو 8 اگست کو ایک خودکش بمبار کی سفاکی کا نوالہ بنے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجیے کہ اس خونی حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے بلوچستان کے لوگوں کو دادرسی کے ایک بہت بڑے ذریعے سے محروم کردیا۔

صرف بلوچستان میں ہی نہیں، پورے پاکستان میں ان جانے والوں کا سوگ ہے۔ دل اداس ہے اور ذہن خالی ہوگیا ہے۔ ان لوگوں کا پُرسہ کسے دیا جائے اور کیسے دیا جائے کہ بات ایک دو کی نہیں 70 سے زیادہ لوگوں کی ہے۔ شاید ایسے ہی کسی عالم کے بارے میں صابر ظفر نے لکھا ہے:

کسی موڑ پر کبھی مل گئے تو بیاں کریں گے حکایتیں
ابھی دوستوں کی خبر نہیں، وہ کہاں کہاں سے گزر گئے
کیے پیرہن کو لہو لہو، ترے باصفا، ترے باوضو
جنھیں خوفِ مرگ ذرا نہ تھا، وہ سبھی یہاں سے گزر گئے
وہ کمند اپنے وجود کی، وہی جَست غیب و شہود کی
کبھی خاکداں سے گزر گئے، کبھی آسماں سے گزر گئے

اس نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پہلے دہشت گردوں کا ہدف بازار اور کوچے ہوتے تھے لیکن پھر ان کی سمجھ میں آیا کہ سبزی اور گوشت لے کر پلٹنے والا باپ یا بیٹی کے لیے مینا بازار سے گوٹہ ٹنکے جوڑے کو خریدنے والی عورت، پنکچر لگانے والا مزدور یا بس کا انتظار کرنے والا کوئی کلرک، ان لوگوں کا کسی بم دھماکے میں اڑ جانا ان کے گھروں اور خاندانوں کے لیے باعث غم ہوتا ہے، اردگرد دہشت پھیل جاتی ہے لیکن ایسے حملوں سے سماج کو گہرا زخم نہیں پہنچتا۔

یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے۔ آرمی پبلک اسکول پر حملے کی دہشت کے ساتھ ساتھ وہ بچے اور نوجوان یک بارگی چلے گئے جو اپنی تعلیم اور اپنی سوچ سے سماج کو آگے لے جانے والے تھے۔ اسی طرح کوئٹہ میں 70 سے زیادہ وکیلوں کی یوں رخصت ہم سب کا شدید نقصان ہے۔ کسی بھی سماج میں قانون داں، انسانی حقوق کے کارکن، تحریروں اور تقریروں سے جمہوریت اور انصاف کی لڑائی لڑنے والے دہشت گردوں اور ان کی تاریک سوچ کے سامنے صف آرا ہوتے ہیں، انھیں قدم قدم پر روکتے ہیں، ان سے اگر صرف ایک خودکش بمبار نجات دلا دے تو ہماری شہ رگ پر حملہ کرنے والوں کے نزدیک یہ کیسا سستا سودا ہے۔ ہمارا تو وہ عالم ہے کہ بقول ناصر کاظمی:

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سورہی ہے

یہ وہ اداسی ہے جس کے بال گھنے ہیں اور گہرے سیاہ ہیں۔ ہم اس اداسی کو اوڑھ کر بیٹھ جائیں تو یہ ظلمت پسندوں کی فتح ہوگی۔ ہمیں اپنے شہیدوں کا ماتم کرنے کے ساتھ ہی ان سے وہ طاقت کشید کرنی ہوگی جو ان کے قاتلوں کو شکست دے۔ ہمیں بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج قاضی فیض عینی کے اس خط پر نظر ڈالنی چاہیے جو انھوں نے شہیدوں کے ماتم داروں کو پُرسہ دیتے ہوئے لکھا تھا۔

اس وقت بہت سے ابھی زخمی تھے۔ انھوں نے لکھا کہ’’ اگر میری آنکھیں چشمہ یا جھرنا ہوتیں تب بھی میرے پاس اتنے آنسو نہ ہوتے جنھیں میں بہاتا۔ میرے بہت سے دوست شہید ہوچکے اور بہت سے شدید زخمی حالت میں ہیں۔ اداسی اور صدمے نے مجھے شل کردیا ہے اور پھر شدید طیش مجھے اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ یہ قتل عام کسی ندامت کے بغیر کیا گیا۔ قاتلوں کی اپنے مقتولوں سے کوئی دشمنی نہ تھی۔ اپنے منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے انھوں نے ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا جہاں زخموں پر مرہم رکھا جاتا ہے۔ انھوں نے بوڑھوں اور نوجوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا، انھوں نے مسلک، مذہب، عورت اور مرد کے درمیان تفریق نہیں کی۔

آئین اور قانون کی پاسداری کرنے والے نشانہ بنائے گئے، انسانیت ہدف بنی۔ جسٹس صاحب نے لکھا کہ ان قاتلوں کو جانوروں سے تشبیہ دینا جانوروں کی توہین ہے اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے دل پتھر جیسے تھے، اس لیے کہ پتھروں سے چشمے پھوٹتے ہیں۔ ان لوگوں کے دل نفرت سے بھرے ہیں۔ انسانوں سے، انسانیت سے نفرت، زخموں پر مرہم رکھنے والی جگہوں سے نفرت، قانون کا تحفظ کرنے والے افسروں سے نفرت، عام شہریوں سے اور ملک سے نفرت… یہ قاتل ناامید ہیں! یہ جہنم میں رہیں گے، یہ مایوسی سے اپنے چہرے چھپائیں گے، یہ دل شکستہ رہیں گے کہ تشدد، بندوقوں اور بموں کے بغیر ان کا نفرت پر مبنی پیغام سنا نہیں جاتا۔ یہ مایوس رہیں گے کہ ان کی ماؤں کے لب بس یہی دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنے جرائم کا اعتراف کرلیں اور معافی کے طلب گار ہوں ۔‘‘

جذبات سے لبریز اپنے اس خط میں جسٹس قاضی فیض نے ماتم داروں کو پُرسہ دینے کے ساتھ ہی یہ سوال اٹھایا ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں ہم کیا کریں؟ کیا ہم اپنی اداسی اور شکایت کو طیش اور نفرت میں بدل دیں؟

یہ ایک ایسا مشکل سوال ہے جو ایسے صبر آزما لمحوں میں ہم سب کے سامنے سر اٹھاتا ہے لیکن نفرت اور غصہ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ وہ لوگ جو جانوروں سے بھی نچلی سطح پر اتر گئے، ہم ان کی پیروی نہیں کرسکتے۔ ہم انسان ہیں اور انسان انصاف کے لیے، دوسروں کے حقوق کے لیے اور دوسروں کی زندگی اور خوش حالی کے لیے لڑتے ہیں۔ یہی اپنے شہیدوں کا سب سے بڑا انتقام ہے جو ہم نیم وحشیوں اور غیر انسانوں سے لے سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔