وائٹ ہاؤس کا نیا مہمان کون؟ فیصلہ جلد ہو جائے گا

آصف زیدی  اتوار 4 ستمبر 2016
ہیلری کلنٹن یا ڈونلڈ ٹرمپ ان تنازعات اور پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے کیا پالیسیاں اختیار کرتے ہیں؟ : فوٹو : فائل

ہیلری کلنٹن یا ڈونلڈ ٹرمپ ان تنازعات اور پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے کیا پالیسیاں اختیار کرتے ہیں؟ : فوٹو : فائل

 ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکی عوام بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم یہ تجسس بڑھتا جارہا ہے کہ جلد پتا چلے کہ پوری دنیا میں چوہدراہٹ کے دعوے دار امریکا میں اگلا سربراہ مملکت کون ہوگا اور وائٹ ہاؤس آئندہ 4سال کس شخصیت کی میزبانی کرے گا؟ ڈیموکریٹس کی ہیلری کلنٹن اور ری پبلکن کے ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن لڑنے کے تمام مراحل طے کرلیے ہیں اور اب یہ دونوں ہی امریکی صدارتی انتخاب میں مد مقابل ہیں۔

اس سال 8 نومبر 2016 کو ہونے والے الیکشن کے حوالے سے جو سروے جائزے اور تجزیے پیش کیے جارہے ہیں ان کے مطابق سابق وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کو اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری حاصل ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق رواں سال ہونے والے صدارتی انتخاب امریکا میں مجموعی طور پر 58 ویں صدارتی انتخاب ہیں (اس سال امریکا میں 45واں صدر اور48 واں نائب صدر منتخب کیا جائے گا۔

ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان صدارتی الیکشن کی حتمی نام زدگی حاصل کرنے کی مہم کے دوران بھی تند و تلخ جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا ہے، جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتہائی متنازع اور مخالفین کے لیے نفرت بھرے بیانات نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرلی ہے۔ عالمی سطح پر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس ’’ زبان درازی‘‘ کو اچھے لفظوں سے تعبیر نہیں کیا جارہا۔

ٹرمپ نے مختلف عالمی موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کھل کر کیا بل کہ ساتھ ہی ساتھ اپنے مخالفین خاص طور پر ہیلری کلنٹن کے خلاف الزام تراشیوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے ہیلری کلنٹن کی مقبولیت اور ٹرمپ کی غیرمقبولیت کا گراف بڑھتا جارہا ہے۔ لیکن یہ کوئی حتمی نتیجہ نہیں، ٹرمپ اپنے ان بیانات کے باعث صدارتی الیکشن ہار گئے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخاب میں آخری وقت تک کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ابھی تو اس بات کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے کہ امریکی عوام کیا سوچ رہے ہیں۔

ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے آئندہ مہینے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، دونوں کو اپنی پارٹیوں کی نام زدگی حاصل ہوگئی ہے اور اب انھیں امریکی عوام کے سامنے اپنا کیس اس طرح پیش کرنا ہے کہ امریکی عوام انہی کو ووٹ دیں۔ ستمبر اور اکتوبر میں ہونے والے مباحثے بھی ہیلری اور ٹرمپ کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ ان مباحثوں میں دونوں اپنا منشور، اپنی پالیسیاں، مختلف معاملات پر اپنی آرا کا اظہار کریں گے اور یہ دعوے بھی کریں گے کہ وہ کس طرح امریکا میں رہنے والے ہر شخص کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ ان مباحثوں کے بعد دونوں کی ہار یا جیت کا فیصلہ ووٹوں کے ذریعے کیا جائے گا۔

اگر یہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ ان کا اندازِگفتگو مخالفین کے خلاف اخلاقیات کی سطح سے گر کر بیانات، انتہاپسندانہ خیالات، میڈیا کے لیے تو ’’بریکنگ نیوز‘‘ بن سکتے ہیں لیکن انہی اسباب کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں کمی بھی آرہی ہے۔

کوئی اور ہیں، اب تو ری پبلکن پارٹی کے سنیئر راہ نما بھی ٹرمپ کے حوالے سے شدید تحفظات کا شکار ہیں اور مختلف ذرائع سے ملنے والی خبروں کے مطابق ری پبلکن پارٹی کے متعدد راہ نما صدارتی الیکشن میں اپنی پارٹی کی ہار تسلیم کرچکے ہیں، کیوںکہ انھیں یقین ہوچلا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز جیتنے والا نہیں۔ بہت سے سنیئر راہ نما ٹرمپ کی نام زدگی کے حوالے سے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کرچکے ہیں۔ کچھ ری پبلکنز نے دبے الفاظ میں ٹرمپ کے مستقبل کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے تو بہت سے راہ نما ڈیموکریٹس کی امیدوار ہیلری کلنٹن کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔

ایک طرف تو اپنی پارٹی کے لوگ ٹرمپ کے مخالف نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ٹرمپ کی ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنی کہی ہوئی ہر بات کو صحیح مان رہے ہیں اور انھیں اپنے کسی بیان ، کسی جملے حتیٰ کہ کسی ایک لفظ پر بھی کوئی پشیمانی نہیں ہے، وہ اپنے موقف، اپنے انداز و اطوار پر ڈٹے ہوئے ہیں جب کہ دوسری طرف ہیلری کلنٹن نہایت سمجھ داری اور بردباری کے ساتھ انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ ہیلری کلنٹن کے مدبرانہ انداز اور دوراندیشی پر مبنی رویے کی وجہ سے بہت سے مخالفین بھی ان کو نئے امریکی صدر کی حیثیت سے دیکھنا پسند کررہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ صدارتی منصب پر ہیلری کلنٹن جیسی شخصیت ہی براجمان ہو۔

اس پر شک نہیں کہ ٹرمپ نے ری پبلکن پارٹی کی نام زدگی حاصل کرنے کے لیے کافی محنت کی۔ انھوں نے ٹیکساس سے سینیٹر ٹیڈکروز، ریاست کے اوہائیو کے گورنر جان کیسچ، فلوریڈا سے سینیٹر مارکورو بیو اور دیگر امیدواروں کو ہراکر حتمی نام زدگی حاصل کی، ان کی حریف ہیلری کلنٹن تمام متوقع امیدواروں کو جن میں سینیٹر برنی سینڈرز بھی شامل ہیں، ہراکر اس پوزیشن تک پہنچیں۔

امریکی صدارتی الیکشن کے حوالے سے یہ بات بھی دل چسپ ہے کہ 1944 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ صدارتی الیکشن لڑنے والے مرکزی امیدواروں کا تعلق ایک ہی شہر نیو یارک سے ہے۔

ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ بھی کئی امیدوار امریکی صدر بننے کی دوڑ میں شامل ہیں لیکن وہ فنشنگ لائن سے بہت دور ہیں۔ ہیلری کلنٹن امریکی الیکشن میں صدر کے منصب کے لیے لڑنے والی پہلی خاتون امیدوار ہی۔

اب کچھ امریکی صدارتی امیدوار کی اہلیت کے حوالے سے بتاتے چلیں۔ امریکی آئین کے مطابق 35سال یا اس سے زاید عمر والا امریکی صدارتی الیکشن لڑنے کا اہل ہے۔

ہیلری کلنٹن امریکی صدر بنیں یا ٹرمپ یہ منصب سنبھالیں، دونوں کو عالمی سطح پر بہت سے چیلینجز کا سامنا کرنا ہے۔ بطور سپر پاور دنیا کے ہر معاملے میں مداخلت کرنے کی عادت نے خود امریکیوں کو اپنے حکم رانوں سے ناراض کردیا ہے۔ آج بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگ و جدل، خانہ جنگی، ہجرت، معاشی مسائل، دہشت گردی، انسانی اسمگلنگ، بے روزگاری اور ایسے ہی دیگر مسائل کا انبار ہے۔ افغانستان میں طالبان اور داعش کے خلاف لڑائی ہو یا یمن اور شام میں اپنے اتحادی کا ساتھ دینے کی کوشش، ایشیا میں چین کو نیچا دکھانے کا مشن ہو یا پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دینا، یہ سب معاملات نئے امریکی صدر کو دیکھنا ہیں۔

ہیلری کلنٹن یا ڈونلڈ ٹرمپ ان تنازعات اور پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے کیا پالیسیاں اختیار کرتے ہیں؟ یہ تو ان کے آنے کے بعد ہی پتا چلے گا، لیکن مسلم دنیا کے مختلف حصوں میں جاری خوں ریزی کا سدباب امریکی صدر کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ نئے امریکی صدر کو ووٹ دینے والوں میں بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے، لہٰذا امریکی حکومت کو مسلم ممالک کے معاملات پر خاص توجہ دینی ہوگی۔

جب اوباما نے منصب صدارت سنبھالا تھا تو بہت سے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ باراک حسین اوباما مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھیں گے لیکن کیا ایسا ہوا؟ اس کا جواب تاریخ کے اوراق میں مل جائے گا۔

غیر جانب دارانہ تجزیوں اور تبصروں کے مطابق نئے امریکی صدر کو دنیا بھر میں جاری جنگ و جدل کو روکنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ تصفیۂ کشمیر، مقبوضہ فلسطین پر قابض اسرائیلی فوج کی واپسی، شام اور یمن میں مذاکرات کے ذریعے معاملات کو امن کی راہ پر لانا، شمالی کوریا اور ایران سے جاری کشیدگی کو بات چیت کے ذریعے ختم کرنا، دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام، مغرب میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف تیزی سے بڑھتے تشدد کے واقعات کا سدباب، یہ سب کام اب ہوجانے چاہییں۔ دیکھتے ہیں کہ نیا امریکی صدر صرف اپنی مدت پوری کرتا ہے یا کچھ تاریخی اور جرأت مندانہ اقدامات کرکے تاریخ میں اپنا نام درج کراتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔