جمہوریت کے ٹوئن ٹاور

زاہدہ حنا  اتوار 11 ستمبر 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

بیسویں صدی کو ختم ہوئے ابھی چند دن ہی گزرے تھے، لوگ اکیسویں صدی کا استقبال کر رہے تھے، خوشی سے سرشار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ دنیا اب ایک بہتر اور پُرامن جگہ ہونے والی ہے جہاں وہ اور ان کی نسلیں بہتر مستقبل کا خواب دیکھ سکیں گی۔

یہ خواب ابھی آنکھوں میں تھے کہ نیویارک کے شہریوں نے اور دنیا بھر کے لوگوں نے اپنے اپنے ٹیلی وژن اسکرینوں پر دہشتناک مناظر دیکھے۔ دنیا کی سب سے بلند عمارت دھوئیں اور آگ میں گھری ہوئی تھی، اس کے شیشے تڑخ رہے تھے اور شعلوں میں گھرے ہوئے لوگ تپش سے نڈھال ہو کر بلندی سے کود رہے تھے اور جان سے جا رہے تھے۔

وقت نرم روی سے گزر گیا، ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ نائین الیون کے سانحے پر 15 برس گزر گئے ہیں۔ اس سانحے کا شکار صرف وہی لوگ نہیں ہوئے جو اس روز ٹوئن ٹاور میں موجود تھے اور جن کے بدن موم کی طرح پگھل گئے۔ ان کے چاہنے والے آج بھی ان کی المناک موت کے صدمے سے باہر نہیں آ سکے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ اس روز ہلاک ہونے والوں میں ہر مذہب کے ماننے والے اور دنیا کے ہر خطے کے رہنے والے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا غم ساری دنیا میں منایا گیا۔

میں ستمبر 2001ء میں لکھے جانے والے کالموں کی ورق گردانی کرتی ہوں اور میرے سامنے اپنی ایک تحریر آ جاتی ہے جس کا عنوان ’’ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا ملبہ‘‘ تھا۔ یہ ملبہ جہاں اوروں پر گرا وہیں یہ پاکستانی عوام پر گرا اور اس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

11 ستمبر 2001ء کو آگ اور خون کا جو کھیل کھیلا گیا اسے مغرب میں یا عالم اسلام میں کچھ لوگوں نے صلیبی جنگوں کا رنگ دیا تو ان کی فہم و دانش پر آنسو بہانے کو جی چاہا۔ مغرب میں رہنے والے تنگ نظر لوگوں نے اس اندوہ ناک واقعے کو عالم اسلام کی سازش قرار دیا۔ اسی طرح عالم اسلام میں سانس لینے والے وہ کم فہم بھی تھے جو اس واقعے کو بوسنیا، فلسطین، عراق اور کشمیر کا انتقام سمجھ کر خوشیاں منا رہے تھے۔

عالمی سطح پر اثرات مرتب کرنے والے اس خونیں واقعے کا ایک پہلو یہ تھا کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی جڑواں عمارتوں سے گرنے والا ملبہ صرف اس میں رہنے والوں پر ہی نہیں گرا، وہ ملبہ پاکستانی عوام اور پاکستانی حکومت پر بھی گرا۔ پاکستان اس وقت داخلی اور خارجی اعتبار سے جس شدید دباؤ کا شکار تھا، اس کا اندازہ لمحہ بہ لمحہ آنے والی خبروں سے ہو رہا تھا۔

ایک طرف امریکی حکومت کا مطالبہ تھا کہ دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں ہمارا ساتھ دیا جائے، دوسری طرف طالبان کا انتباہ ساری دنیا میں نشر ہو چکا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ امریکا کو حملے کی سہولت دینے والے کسی بھی پڑوسی ملک کو وہ دشمن تصور کریں گے اور ان کے مجاہدین اس ملک کو فتح کرنے کے لیے اس کی سرحدوں کے اندر گھس جائیں گے۔ طالبان کے اس ’’انتباہ‘‘ کو اس پس منظر میں دیکھنا چاہیے کہ اس وقت کی پاکستانی حکومت طالبان کو کھلے بندوں مادّی، سیاسی اور اخلاقی امداد دے رہی تھی۔ اس وقت بھی لاکھوں افغان باشندوں کی پاکستان میزبانی کر رہا تھا۔

اس وقت افغانستان پر امکانی طور سے امریکی حملے کی تیاریوں کے سلسلے میں امریکی مطالبات تھے جنھیں حکومت پاکستان تسلیم کرتی تو طالبان اس کے شمال مغربی علاقے پر حملہ آور ہونے کی دھمکی دے رہے تھے ان کی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ طالبان کی اتحادی تنظیمیں اور جماعتیں تھیں جو پاکستان بھر میں پھیلی ہوئی تھیں اور جن کا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی حکومت نے امریکا کو افغانستان پر حملے کے لیے اپنی زمین استعمال کرنے دی تو وہ اس حملے کی شدید مزاحمت کریں گی۔

یہ سب حقائق اپنی جگہ لیکن صورت حال کا ایک پہلو اور بھی تھا جسے آج بھی نظر انداز نہیں کیا سکتا۔ ہم چند لمحوں کے لیے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اس وقت کوئی منتخب حکومت برسر اقتدار ہوتی اور وہ امریکا کو ہر قسم کی مدد دینے کا اعلان کرتی تو اس کے بارے میں کیا کچھ کہا جاتا؟ کیا ہمارے بہت سے فاضل دانشور یہ الزام نہ عائد کرتے کہ حکومت نے امریکا کے مطالبات کو تسلیم کر کے قومی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔

اگر منتخب جمہوری حکومت یہ دلیل دیتی کہ امریکا کا ساتھ دے کر ہم کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہو گا تو کیا اس حکومت پر ڈالروں کے عوض اصولوں کا سودا کرنے کا الزام نہ لگایا جاتا؟ اگر وہ حکومت یہ دلیل دیتی کہ چونکہ ہندوستان نے امریکا کو تمام سہولتیں دینے کی پیشکش کر دی تھی اس لیے ہم نے امریکا کے تمام مطالبات مان کر ہندوستان کی چال کو ناکام بنا دیا ہے تو کیا اس کے جواب میں یہ نہ کہا جاتا کہ ہندوستان کے حکمران اگر اپنے ملک کو امریکا کے حوالے کرنے کی پیشکش کر دیں تو کیا ہم بھی اپنا ملک امریکا کو دے کر ہندوستان کی چال ناکام بنا دیں گے؟

اس وقت بھی پاکستان کے عوام دہشتگردی کے خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مشرف حکومت نے پہلے دن سے اپنے اور طالبان کے درمیان ایک فاصلہ رکھا ہوتا۔ ان کی پالیسیوں سے اختلاف کیا ہوتا۔ انھیں سیاسی اور مادّی مدد فراہم نہ کی ہوتی تو اسے طالبان کے خلاف امریکا کی حمایت کرنے کا اخلاقی اور سیاسی جواز حاصل ہوتا۔

غرض پاکستان 2001ء میں ایک ایسی جگہ کھڑا کر دیا گیا جہاں ایک طرف کھائی تھی اور دوسری طرف خندق۔ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کہ جنرل ضیاء الحق نے سوویت یونین کی دشمنی میں جس افغان پالیسی کو مرتب کیا، اس میں پاکستان کے وسیع تر اور طویل مدت کے مفادات کو سامنے نہیں رکھا۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے ہم نے جس غیر دانش مندانہ خارجی اور داخلی پالیسیوں پر عمل کیا اس کی قیمت ہمیں کسی نہ کسی دن تو ادا کرنی ہی تھی۔

ہمارے بعض مقتدر عناصر کی مہم جوئی، تزویراتی گہرائی کے شوق اور بلند عزائم نے پاکستان کو جس مشکل سے دوچار کیا اور بے گناہ اور بے قصور پاکستانی عوام کو جس آزمائش میں ڈال دیا، اس کی یقیناً کوئی ضرورت نہیں تھی۔ دراصل حقیقت اتنی سی تھی کہ ایک طالع آزما جمہوری حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کر چکا تھا اور اس آمر کے ساتھ عالمی برادری میں ایک ’اچھوت‘ کا سا برتاؤ ہو رہا تھا۔ اس کی طرف جب امریکی اہلکاروں نے قہر آلود نگاہوں سے دیکھا اور پوچھا کہ دہشتگردی کی اس عالمی جنگ میں تم ہمارے ساتھ ہو یا نہیں؟ تو یہ جملہ ہمارے طالع آزما اور سورما کے لیے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ثابت ہوا اور اس نے فوراً ہی اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔

امریکی حکومت کو تمام مراعات فراہم کیں اور ہمیں یہ بتایا کہ ان کا حکم ماننے کے سوا چارہ نہیں تھا، ورنہ امریکا ہماری اینٹ سے اینٹ بجا دیتا۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی نوید سنائی گئی کہ فوجی اور معاشی شعبوں میں اربوں ڈالر کی جو خطیر رقم ملے گی وہ ہمیں ایک توانا اور ناقابل تسخیر مملکت میں بدل دے گی۔

جمہوریت ہوتی، پارلیمنٹ اور سینیٹ ہوتی، عدلیہ ہوتی تو فیصلے شخصی نہیں اجتماعی دانش سے ہوتے اور پاکستان کو دہشتگردی کے جہنم میں نہ جلنا پڑتا لیکن 2001ء کے دنوں میں ہم ان تمام نعمتوں سے محروم تھے۔

اس فیصلے نے ملک کی بنیادوں میں بارود بچھا دی۔ وہ جنگ جو افغان طالبان اور امریکی افواج کے درمیان لڑی جا رہی تھی وہ پاکستان کی سرحدوں کے اندر کھینچ کر لے آئی گئی۔ ہمارے شہر اور قصبے، ہماری روایات اور اقدار تباہ ہوئیں۔ نیویارک شہر میں گرنے والا ٹوئین ٹاور کا ملبہ پاکستان پر آ گرا۔ 2008ء سے جمہوری حکومتوں کا تسلسل ہے جسے ختم کرنے کے لیے کچھ لوگ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

وہ یہ نہیں دیکھتے کہ 2001ء میں ان کے سرپرست نے جو گرہ ہاتھوں سے لگائی تھی، وہ دانتوں سے کھولنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ دہشتگردی اور دہشتگردوں سے نجات کے لیے اکٹھے بیٹھتے، انھوں نے ہر قیمت پر جمہوریت کا بستر لپیٹنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ ہزارہا شہری اور فوجی جان سے جا چکے۔ کھربوں کا نقصان ہو چکا اور عام شہری سکون اور امن کو ترستا ہے لیکن بلٹ پروف گاڑیوں اور ذاتی طیاروں میں سفر کرنے والوں کو اس کا کیا اندازہ کہ عام شہری پر کیا گزر رہی ہے۔

افواہوں کا سیلاب امڈا ہوا ہے جو ہماری بنیادوں کو نقصان پہنچا رہا ہے، کیا اب بھی قوم کی رہنمائی کے دعویدار نہیں سمجھیں گے کہ عوام ان کے ہر جملے اور ہر جنبش پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ آج بھی کچھ لوگ جمہوری دانش کے بجائے شخصی دانش کی حکمرانی کے لیے جمہوریت کے ٹوئن ٹاور یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ کو گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔