احساس ذمے داری

نجمہ عالم  جمعرات 15 ستمبر 2016
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

اقتدار اور دولت کا نشہ بھی ’’چھٹتا نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگا ہوا‘‘ مگر ملک کی موجودہ صورتحال کے ذمے دار ہمارے مخصوص انداز فکر بظاہر بڑے روشن خیال اندر سے مکمل دقیانوسی خیالات والے سیاستداں اور مصلحت کا شکار ذرایع ابلاغ ہیں، اگر یہ دونوں ملکی ترقی اور بہتری کے لیے مخلص ہوتے تو ہم آج اتنی بدنظمی اور پسماندگی سے ہمکنار نہ ہوتے۔ اس صورتحال کا مظاہرہ پی ٹی آئی کے طویل دھرنے کے دوران کھل کر سامنے آیا کہ ہمارے کتنے قلمکاروں نے اس دھرنے کو اصل جمہوریت، عوامی راج، قومی ترقی، عظیم انقلاب کا ذریعہ قرار دیا۔ تمام چینل 24 گھنٹے براہ راست اس کو دکھاتے رہے مگر حالات کے پلٹتے ہی ان دھرنوں کی شان میں جو قصیدے پڑھ اور لکھ رہے تھے پی ٹی آئی کے رہنما کو عاقبت نااندیش، جذباتی، خودپسند ،متکبر اور سیاست سے نابلد قرار دے رہے تھے۔

ذرایع ابلاغ جس کا کام معاشرے کے لیے درست سمت کا تعین کرنا اور افراد معاشرہ کو آگاہی فراہم کرنا ہے اس کو صرف اپنی نشریات کا پیٹ بھرنے کے لیے کوئی تازہ اور نیا ایشو چاہیے، ہفتہ یا مہینہ بھر جس ایشو پر تمام چینلز ایک دوسرے سے بڑھ کر زور دے رہے ہوتے ہیں۔

ایک دم اس کو پس پشت ڈال کر کسی تازہ موضوع پر راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں، گزشتہ موضوع کا نہ کوئی مناسب حل سامنے آتا ہے نہ کوئی قومی رائے بن پاتی ہے مگر اس پر مٹی ڈال کر اگلے موضوع کو ملک کا سب سے اہم اور قومی توجہ کا مسئلہ قرار دے دیا جاتا ہے یعنی پھر کوئی نیا شوشا ہاتھ لگ جاتا ہے کوئی خلوص سے صاحبان اقتدارکی ناقص کارکردگی پر کھل کر بات کرتا ہے نہ غلطی کو غلطی قرار دیتا ہے، بلکہ ہر معاملے پر ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنا سیاستدانوں اور ذرایع ابلاغ کا محبوب مشغلہ رہ گیا ہے، اگر ایک سیاسی جماعت دوسرے سیاستدان کی یا حکومتی کارندہ اپنے مخالفین کی بدعنوانی اور خامیاں منظر عام پر لاتا ہے پھر جواب آں غزل کے طور پر دوسری جانب سے سیاستداں یا ارکنان اقتدار کے بارے میں انکشاف کرتا ہے اور بڑھ چڑھ کر الزامات عائد کرتا ہے تو کیا اس طرح پہلے والے کی ساری خامیاں درست ہوجاتی ہیں؟ اورکیا اس صورت سے ملکی صورتحال میں کوئی مثبت تبدیلی رونما ہوجاتی ہے؟ کوئی بہتری کی امید پیدا ہوتی ہے؟

موجودہ موضوع یعنی کوٹہ سسٹم نے پورے سندھ کو سوائے نفرت، احساس محرومی اور اعلیٰ طبقے کی مضبوط گرفت یا احساس برتری، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا کمزور کا حق مارنے کے اور کیا دیا؟ اب اگر ایک معزز شخص نے ایک انتہائی مدبرانہ بات کہی ہے کہ اس سسٹم کو جس نے شہری اور دیہی عوام کے درمیان خلیج پیدا کی۔ ایک ملک ایک صوبے کے باسی ہوتے ہوئے برادرانہ تعلقات کی بجائے ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے بلکہ ایک دوسرے کا مخالف سمجھنے لگے ہوں، اب وطن عزیز اس صورتحال کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا، ہم بہت کچھ کھوچکے اب اہلیت کی بنیاد پر تمام ادارے چلائے جائیں۔ تمام لسانی، سیاسی، شہری و دیہی امتیاز سے بالاتر ہوکر جو جس قابل ہے اس سے وہی کام لیا جائے تاکہ ملک بطور خاص صوبہ سندھ مزید بدعنوانی اور اداروں کی تباہی سے محفوظ ہوسکے۔

سندھ کی ترقی یا پسماندگی کا پورے ملک سے گہرا تعلق ہے، سب جانتے اور سمجھتے ہیں مگر آنکھیں بند کرکے احساس برتری کے باعث سندھ بطور خاص کراچی جو سندھ کا ہی نہیں ملک کا سب سے بڑا اور بین الاقوامی حیثیت کا شہر ہے پر قبضے کے رجحان کے باعث تمام ملکی مفادات کو نظراندازکیا جا رہا ہے (ایسا کرنے والوں کو بھی آئین کے آرٹیکل 6 کی زد میں لانا چاہیے)

ڈی جی رینجرز بلال اکبر کی بات نہ صرف معقول ہے بلکہ باآسانی قابل عمل بھی، ملک اور صوبہ سندھ کی بہتری میں بھی، تو اس پر فوری عمل کرنے کے بجائے ہمارے ذرایع ابلاغ پر اس کے حق اور مخالفت میں  ملکی دانشور (بقراط) اپنے اپنے انداز سے بلاوجہ  ایک نیک کام کو متنازع بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ آخرکوٹہ سسٹم کو ختم کرنے میں کس کا نقصان ہے؟

قارئین سوچیں گے کہ ملک کے بنیادی حالات سے لاعلم خاتون ہیں کہ پوچھ رہی ہیں کس کا نقصان ہے، اتنی سی بات تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ جن کا اس نظام سے فائدہ ہے ان ہی کا نقصان اگر اس معقول تجویز  پر عمل کیا جائے تو اونچی اونچی پگڑیوں اور تاؤ کھاتی مونچھوں اور اکڑی ہوئی گردنوں کا کیا ہوگا؟  ہماری درخواست ملکی ذرایع ابلاغ اور سیاستدانوں سے ہے کہ ابن الوقتی چھوڑ کر اپنے مفادات کو فی الحال بلکہ ہمیشہ کے لیے پس پشت ڈال کر ملکی مفادات کو ترجیح دیں، آج اس بدترین صورتحال میں بھی وہی صحافی وہی قلم کار قابل احترام ہیں جن کے  بچوں کو عید پر بھی نئے کپڑے اور زندگی کی اعلیٰ تو کچھ ادنیٰ ضروریات بھی مکمل طور پر میسر نہیں مگر وہ اپنی عزت نفس پر حرف نہیں آنے دیتے، تاریخ میں نام اور احترام باقی  رہ جاتا ہے۔

اگر تمام ذرایع ابلاغ ملکی مسائل پر نہ صرف سنجیدہ ہوجائیں بلکہ ان کو حل کرنے میں اخلاص عمل کا مظاہرہ بھی کریں تو پاکستان کو عالمی سازشوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ ذرایع ابلاغ کے کاندھوں پر بڑی اور اہم ذمے داری ہے اس کو اس کا ادراک کرنا چاہیے۔ آخر میں تمام پاکستانیوں سے بھی بعد خلوص درخواست کروں گی کہ خدارا اپنی اپنی جگہ اپنی صلاحیت کے مطابق ملکی خدمت کو شعار بنائیں۔

قیام پاکستان کے بعد ملکی ترقی وخوشحالی کے علاوہ اس کا بین الاقوامی امیج بنانے کا جو جذبہ تھا آج اس کی بے انتہا ضرورت ہے،اگر حلال کمائی کی تو کسی احتساب کے خوف سے آزاد ہوکر بے فکری کی نیند  سو سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔