جدوجہدآزادی کا ہیرو،احمد خان کھرل

شہلا اعجاز  اتوار 25 ستمبر 2016
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

آج ہماری نسل کے کتنے لوگ احمد خان کھرل کے نام سے واقف ہیں، یہ وہ نام ہے جس نے آزادی کا علم بلند کیا ایک بڑا بہادر، جری انسان، اپنے قبیلے کا سردار جسے صرف حکم چلانا نہیں آتا تھا بلکہ اس نے خود کو ایک طویل صبر آزما جنگ میں ایک عظیم مقصد کے لیے وقف کردیا تھا اور اس میں جام شہادت نوش کیا۔

پنجاب کی سرزمین ایسے عظیم ناموں کے خون سے زرخیز ہے یہ وہ عظیم لوگ ہیں جو اس وقت کے بڑے سردار، امرا اور چوہدریوں میں شمار ہوتے تھے لیکن انگریزوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کردینے کی پاداش میں اپنی زمینوں، جائیدادوں، مویشی و مال واسباب اور رتبوں سے محروم کردیے گئے شاید کوئی کوئی ریڑھی والا،کسی اینٹوں کے بھٹے پرکام کرنے والا غریب مزدور واقف بھی نہ ہو کہ کبھی اس کے آبا و اجداد اس خوبصورت، لہلہاتی زمین پر کسی بڑے قطعے کے سردار یا چوہدری تھے لیکن اسی مٹی کی محبت اور آزادی کے جذبے کی سرشاری نے ان کی نسل کو ’’جانگلی‘‘ بنا ڈالا۔ سلام ہے ان عظیم لوگوں کو۔

1857 کی جنگ آزادی کا طبل بجا تو پنجاب کی سرزمین سے بھی لبیک کہا گیا، دریائے راوی کے آس پاس کے کناروں پر اس وقت کھرل آباد تھے یہ گوگیرہ، جڑانوالہ، تاندلیانوالہ، واربرٹن اور سیدوالہ تک پھیلے تھے گوگیرہ اس وقت سرکاری ہیڈکوارٹر تھا۔ انگریز کمشنر برکلے اپنی بہادری کی وجہ سے بہت مشہور تھا وہ وہیں ہوتا تھا۔

احمد خان کھرل اپنے قبیلے کا سردار تھا اس نے آزادی کا نعرہ بلند کیا اس کے ساتھ ایک اور کھرل سردار رائے ساون خان اور اس کا بیٹا سادو خان بھی شریک ہوگئے، راوی سے ستلج تک تمام سردار اس جنگ میں آملے، گوگیرہ میں بغاوت ہوگئی، یہاں تک کہ جیل کے قیدیوں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ آزادی کے متوالے اور احمد خان کھرل جیل کے پھاٹک توڑنے میں کامیاب ہوگئے اس کارروائی میں ان کے ساتھ رائے ساون خان بھی موجود تھا لیکن بدقسمتی سے انگریزوں کی مدد کے لیے دہلی سے کمک آگئی، نہتے قیدیوں کے پاس صرف پتھر اور سلاخیں تھیں اور ان کے سامنے بندوق بردار فوجی، جیل کی دیواریں ان کے خون سے سرخ ہوگئیں۔

رائے ساون مارا گیا، انگریز بہادر احمد خان کھرل کو زندہ گرفتارکرنا چاہتا تھا لیکن اس نے بہادری بے جگری سے گولیوں کی بوچھاڑ میں دریائے راوی پار کرلیا اور اپنے گاؤں جھمرے پہنچ کر پھر ایک فوج بنائی اور دہلی کے بادشاہ سے وفاداری کا اعلان بلند کیا۔ چناب سے ستلج تک بغاوت پھیل گئی، کمالیہ پر قبضہ کرلیا گیا، صفوں میں گھسے اپنے ہی لوگ بغاوت کرگئے ،گوگیرہ میں زبردست جنگ ہوئی اور احمد خان کھرل کوکامیابی نصیب ہوئی، اگر صفوں میں اتحاد رہتا تو پنجاب آزاد ہوجاتا لیکن ایسا نہ ہوا، جائیدادیں اور رتبے وصول کرنے کے لالچی لوگوں نے جھمرے میں آگ لگوادی افواہوں کا بازار گرم کردیا کہ یہ آگ احمد کھرل نے خود جان بوجھ کر لگوائی ہے علاقہ جل کر راکھ ہوگیا ،کھرل سردار ناراض ہوگئے اور اس سے علیحدگی اختیار کرلی۔

عظیم احمد خان کھرل پھر بھی ہمت نہ ہارا اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک نئے اندازکی جنگ اختیار کی اور کشمور کے جنگل میں اپنا ٹھکانہ بنایا وہ انگریزوں کی فوج پر شیرکی طرح جھپٹا اس طرح کی چھاپہ مارکارروائیوں سے دشمنوں کا ناطقہ بند ہوگیا تھا انھوں نے جنگل کی ناکہ بندی کردی اور آخر کار وہ بہادر سامنے آیا اور بھرپور جنگ کی اس کا ساتھی سردار سارنگ خان بھی اس معرکے میں مارا گیا، احمد خان کھرل زخموں سے چور اپنے ہی خون میں نہایا ہوا گھوڑے سے گرا تو ایک گورے نے بڑھ کر اس کا سر کاٹنا چاہا پر اس بہادر انسان نے تلوار کے ایک ہی وار میں گرتے گرتے اس کا سر قلم کردیا اور خود سجدے میں گر کر کلمہ پڑھنے لگا ۔کمالیہ کا غدار سردار رائے سرفراز خان اور سردار بیدی موقع کی تلاش میں تھے، جھٹ اس عظیم شخص کا سر قلم کیا اور انگریزوں سے اس خوشی میں جائیداد اور نواب کا خطاب حاصل کیا، سردار بیدی کو پاک پتن میں سیکڑوں مربع ملے۔

سردار احمد خان کھرل ایک برق رفتار، وطن کا عظیم سپاہی جو اپنی مٹی کی محبت کے نشے میں چور تھا چلا گیا۔جو قوم اپنا ماضی بھول جاتی ہے وہ قوم ترقی نہیں کرتی ہم آج اپنے بچوں کو کمپیوٹر ایج میں دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں لیکن اخلاقی اعتبار سے ہماری نسل کس نہج پر چل رہی ہے، وزیر اعظم اس سلسلے میں بہت سنجیدہ ہیں کہ بچوں کا نصاب بہتر سے بہتر انداز میں ترتیب دیا جائے۔

ہمیں ایسے عظیم لوگوں کے کارناموں اور ان کی زندگی کے بارے میں اپنی نئی نسل کو ضرور بتانا چاہیے تاکہ ان کے دل میں اپنی مٹی کی قدروقیمت کا احساس پیدا ہو ایسے لوگوں کی زندگیاں یوں ہی فضول میں ضایع نہیں ہوئیں انھوں نے اپنے خون سے سنہری تاریخ رقم کی اور تاریخ کبھی ختم نہیں ہوتی بے شک اسے بھلانے کی کوششیں کی جاسکتی ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خون بولتا ہے۔ آزادی کے مجاہدوں شہیدوں کی داستانیں کبھی بوسیدہ نہیں ہوتیں ہر ملک میں ان کی آزادی کے علم برداروں کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے اور پڑھایا جاتا رہے گا، کورس ضرور بدل سکتے ہیں لیکن ماضی نہیں بدلا جاسکتا۔ برے کو برا ہی لکھا جائے اورعظیم لوگوں کی اچھائیوں کو چھپایا نہ جائے کہ ہمیں بھی ایک دن ماضی کا حصہ بن جانا ہے یہ دستور زمانہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔