سب سے پہلے پاکستان

نجمہ عالم  جمعـء 30 ستمبر 2016
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

ہم تو یوں بھی کئی برس سے حالت جنگ میں ہیں، دہشت گردی، بدعنوانی اور ناقص ادارہ جاتی و حکومتی کارکردگی کے خلاف مسلسل جنگ جاری ہے۔

اب صورتحال مزید تشویشناک ہوچکی ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف مسلسل جارحانہ اقدام وبیانات،کشمیرکی جدوجہد آزادی میں شدت، بھارتی مظالم کی دلخراش داستانوں کے منظرعام پر آنے اور پاکستان کی مظلوم کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کے باعث مسئلہ کشمیرکو پس منظر میں دھکیلنے کے لیے بھارت نے جنگی ماحول پیدا کرنا اور جنون کا اظہارکرنا ضروری خیال کیا۔

بھارتی وزیراعظم سے لے کر دیگر اہم ذمے داران کے علاوہ بھارتی ذرایع ابلاغ بھی جنگی ماحول کو ہوا دینے میں پیش پیش ہیں۔ ہماری افواج کی جانب سے بھی ببانگ دہل اعلان کردیا گیا ہے کہ ہم اپنی سرزمین کے چپے چپے کی حفاظت کریں گے۔ عسکری ذرایع نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ ہم ہر صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے کے مصداق کہا گیا ہے کہ ہماری مصلحانہ کوششوں کوکمزوری نہ سمجھا جائے۔ غرض موجودہ صورتحال کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی تشویشناک اور پریشان کن ہے۔

اس کے باوجود پاکستان کسی بھی طرح خوفزدہ نہیں کیونکہ ان کو اپنی دنیا بھرکی بہترین، باصلاحیت اوردلیر افواج پر مکمل بھروسہ ہے۔ اس میں واقعی کوئی شک نہیں کہ ہماری افواج ہر جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح چوکس ہیں، مگر کیا دشمن کا مقابلہ محض سرحدوں اور میدان جنگ میں ہی کیا جاتا ہے؟ یہ 21 ویں صدی ہے میدان جنگ میں آمنے سامنے لڑنے کا طریقہ فرسودہ ہوچکا ہے۔

آج دنیا کے کئی ممالک کے علاوہ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقت کے حامل ممالک ہیں۔ ایسے میں اسلحے سے لڑی جانے والی جنگ کے بجائے پروپیگنڈا اور سازشوں سے ایک دوسرے کو زیرکرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ایسی جنگ کا آغاز بھارت کافی پہلے کرچکا ہے۔ بھارت پاکستان کے اندرونی معاملات میں روز اول سے مداخلت کرتا آرہا ہے۔

بھارت نے اپنے ریڈیو آکاش وانی اور ذرایع ابلاغ کے ذریعے مشرقی پاکستان میں اپنی سازشوں  کے جال بنے اور عوامی لیگ کے جوانوں کو عسکری تربیت دی۔ بھارتی افواج کے زیر نگرانی مکتی باہنی جیسی ملک دشمن اور شدت پسند تنظیم تشکیل دی گئی،71 میں اس نے سقوط ڈھاکہ کی صورت میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ یہ سب کچھ ہوا مگر بھارتی سازشوں کی کامیابی میں کچھ ہمارے سیاستدانوں کے بروقت حالات کا ادراک نہ کرنے کے علاوہ سیاسی غلطیوں اور رویوں کا بھی ہاتھ تھا۔

آج جب ایک بار پھر بھارت جنگی جنون کا مظاہرہ کررہا ہے تو ہمارے دانشور اور سیاستدان پھر اسی سرد مہری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جنگ میں افواج کی بہادری و صلاحیت کے علاوہ قومی اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے فتح حاصل کی جاتی ہے، مگر صورتحال یہ ہے کہ ہمارے متعصب مذہبیرہنماؤں اور اپنی ذاتی سوچ رکھنے والے سیاستدانوں نے ملکی اتحادواتفاق کو جتنا نقصان پہنچایا اتنا تو دشمن نے بھی نہیں پہنچایا ہوگا۔

سرحدی اور دفاعی صورتحال پر نظر ڈالیے اور ہمارے سیاستدانوں کے رویے پر نگاہ رکھیے۔ خدانخواستہ اگر واقعی بھارت جارحیت پر اترآیا تو کیا ہم بحیثیت قوم اس صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں؟ ہمارے کپتان تو بھارتی سازشوں کو ناکام بنانے کے بجائے رائیونڈ فتح کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ حالانکہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر ملکی دفاع کے لیے متحد ہوجائیں۔

بے شک بدعنوانی لوٹ کھسوٹ کے خلاف طبل جنگ بجانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے جس کے باعث معاشرہ تنزلی کا شکار ہے۔  لٹیروں کا احتساب بھی پاکستان میں ہی ہونا چاہیے، پہلے پاکستان بعد میں اور کچھ۔ پاکستان ہے تو چوروں لٹیروں کو گردن سے پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکتا ہے مگر خاکم بدہن اللہ نہ کرے ملکی وجود ہی خطرے میں پڑ جائے تو آپ کی سیاست دھری کی دھری رہ جائے گی۔

لہٰذا ذرایع ابلاغ، سیاستدانوں اور ملاؤں سے دست بستہ گزارش ہے کہ وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے ذرایع ابلاغ جنگی ماحول کو سرد کرنے اور بھارتی سازشوں کے خلاف مثبت اور ٹھوس حقائق پیش کریں، سیاستدان اپنی سیاست چمکانے کے بجائے ملکی مفادوتحفظ کے لیے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں اور کھرے مسلمان و پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں۔ اگر یہ تینوں عناصر اپنے رویے درست کرلیں تو قومی اتحاد و اتفاق رائے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوسکتا ہے۔ بلکہ انشا اللہ ایسا ہی ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔