پانی کا قضیہ

مقتدا منصور  اتوار 2 اکتوبر 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

حالیہ چند ہفتوں کے دوران پے در پے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے پاک بھارت کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ کشمیر میں تسلسل کے ساتھ جاری بے چینی اور بھارت مخالفت مظاہروں نے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ وہ ایسے فیصلے اور اقدمات کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں، جو خطے میں امن و امان کی صورتحال کو مزید دگرگوں کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

ایک بھارت نے اسلام آباد میں نومبر میں متوقع سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت سے انکار کر کے باہمی مذاکرات کا رہا سہا راستہ بھی بند کر دیا۔ دوسری طرف بھارتی وزیراعظم نے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دے کر ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ پانی کی بندش کی دھمکی ایک سنگین معاملہ ہے، جو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے کر اس خطے کو بدترین تباہی سے دوچار کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ پانی کی بندش یا اس میں کمی پاکستان کے لیے موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔

بھارت کے علاوہ بنگلہ دیش، افغانستان اور بھوٹان نے بھی سارک کانفرنس میں شرکت سے معذوری ظاہر کی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان ممالک کی عدم شرکت کے پیچھے بھارت کی خوشنودی کا حصول ہے۔ چنانچہ کورم کو مدنظر رکھتے ہوئے سارک کے موجودہ سربراہ نیپال نے کانفرنس کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا ہے۔ سارک سربراہ کانفرنس کا ملتوی کیا جانا اور اس میں آنے والی دراڑ خطے کے تعلقات کے لیے ایک تازیانہ ضرور ہے۔ لیکن یہ تنظیم گزشتہ 31 برس سے جس سست روی کا شکار ہے اور اب تک کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دے سکی ہے۔

اس لیے اس کے ملتوی ہونے سے دو طرفہ خطے کی مجموعی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال میں کسی قسم کے فرق پڑنے کا کوئی خاص فرق کا امکان نہیں ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے سندھ طاس معاہدے پر کسی قسم کا ایڈونچر خطے کو ان گنت نئے اور سنگین مسائل سے دوچار کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے اس مسئلے کے تمام پہلوؤں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا ضروری ہے۔

اس خطے کے تمام چھوٹے بڑے دریا تبت میں ہمالیہ کے دامن سے نکل کر کشمیر اور ہماچل پردیش کے راستے پنجاب کے میدانی علاقوں میں داخل ہوتے ہیں۔ کچھ کشمیر کی سرحد پر بڑے دریاؤں میں شامل ہو جاتے ہیں، جیسا کہ دریائے نیلم کشمیر اور پنجاب کی سرحد پر دریائے جہلم میں شامل ہو جاتا ہے۔ کچھ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی سرحد پر مدغم ہو جاتے ہیں، جب کہ باقی تمام دریا ملتان کے قریب پنج ند کے مقام پر سندھو کا حصہ بن جاتے ہیں، جو ایک وسیع پاٹ کے ساتھ سندھ میں داخل ہوتا ہے اور اس کے سینے کو چیرتا ہوا، ٹھٹھہ کے قریب بحیرہ عرب میں گر جاتا ہے۔

اب اگر پنجاب کے پانچ دریاؤں کے راستے کو دیکھا جائے تو بیاس ہماچل پردیش کے راستے مشرقی پنجاب سے گزرتے ہوئے فیروزپور کے مقام پر دریائے ستلج میں گر جاتا ہے، جو قصور کے قریب سے مغربی پنجاب (پاکستان) میں داخل ہوتا ہے، جہاں راوی کے ساتھ مدغم ہو کر چناب میں گر جاتا ہے۔ جس میں آگے جاکر جہلم بھی مل جاتا ہے۔ پھر یہ دریا پنج ند کے مقام پر دریائے سندھ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ دریائے سندھ تبت سے لداخ اور پھر گلگت سے گزرتا ہوا خیبر پختونخوا میں داخل ہوتا ہے اور پنجاب کی سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے میانوالی کے مقام پر پنجاب میں داخل ہوتا ہے۔

1947 ء میں جب تقسیم ہند ہوئی، تو بنگال کے ساتھ پنجاب بھی تقسیم ہوا۔ پنجاب میں دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا مسئلہ اسی وقت کھڑا ہو گیا تھا۔ تقسیم کے ایک ماہ بعد بھارتی حکومت نے تین مشرقی دریاؤں میں سے دو دریاؤں ستلج اور راوی کا پانی بند کر دیا، کیونکہ بیاس مکمل طور پر مشرقی پنجاب ہی میں بہہ رہا تھا۔

اس اقدام کے لاہور اور پاک پتن سمیت جنوب مشرقی پنجاب کے بعض اضلاع پر انتہائی منفی اثرات پڑے۔ یہ علاقہ پانی کے بدترین بحران کا شکار ہو گیا۔ حکومت برطانیہ کی مداخلت پر وقتی طور پر پانی کھول دیا گیا، لیکن دونوں ممالک کے درمیان ایک برس بعد 4 مئی 1948ء کو جو معاہد ہوا، اس کے مطابق راوی کا 40 فیصد اور ستلج کا 30 فیصد پانی پاکستان کو دیے جانے کا فیصلہ ہوا۔ یہ ایک عارضی بندوبست تھا، جس نے وقتی طور پر مسئلے کو حل کر دیا۔

اس دوران امریکی ایٹمی انرجی کمیشن کے ایک اہم عہدیدار David Lilienthal  نے اس علاقے کا دورہ کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ دریاؤں کے پانی کی تقسیم دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی وقت انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر سکتی ہے۔ اس نے تجویز دی کہ مشرقی دریاؤں کا پانی بھارت کے تصرف میں دے دیا جائے، جب کہ مغربی دریاؤں پر پاکستان کا اختیار تسلیم کیا جائے۔ اس تجزیے اور تجویز کو امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں کے علاوہ عالمی بینک نے بھی مسئلے کا قابل عمل حل قرار دیا۔ عالمی بینک نے اس تجویز پر عمل کرانے کے لیے خود کو تیسرے فریق کے طور پر پیش کیا، ساتھ ہی اس نے پاکستان میں تربیلا اور منگلا ڈیم کی تعمیر کے لیے قرضہ کو اس تجویز پر عمل درآمد سے مشروط کر دیا۔

اس سلسلے میں کچھ ابتدائی کام 1954ء میں ہوا، لیکن معاہدے پر دستخط نہ ہو سکے، کیونکہ پاکستان کو اس منصوبے کی بعض شقوں پر تحفظات تھے، جس کی وجہ سے یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ لیکن 1958ء میں ایوب خان کے اقتدار میں آنے کے بعد عالمی بینک نے ایک بار پھر اس مسئلے کو اٹھایا۔ ایوب خان کی حکومت ڈیموں کی تعمیر کی خاطر اس منصوبے کو قبول کرنے پر رضامند ہو گئی۔ یوں 19 ستمبر 1960ء کو اس معاہدے پر ایوب خان اور پنڈت جواہر لعل نہرو نے دستخط کردیے، جس کی گارنٹیئر عالمی بینک تھی، جب کہ امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں کی حمایت حاصل تھی۔ یہ معاہدہ سندھ طاس معاہدہ کہلایا۔

اس معاہدے کی رو سے تین مشرقی دریا جن میں بیاس، ستلج اور راوی کے پانیوں پر بھارت کا مکمل اختیار ہو گا، جب کہ تین مغربی دریا جن میں سندھو، چناب اور جہلم شامل ہیں، پاکستان کے تصرف میں رہیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ 10 مارچ 1970ء تک بھارت مشرقی دریاؤں کا پانی نہیں روکے گا، تا کہ اس عرصہ میں پاکستان نہری نظام اور آبی ذخائر تعمیر کر سکے۔ بھارت کو پابند کیا گیا کہ وہ پاکستان کو معاوضہ بھی دے۔ ساتھ ہی یہ شق بھی شامل کی گئی کہ جو مغربی دریا جس قدر بھارتی علاقے سے گزرے گا، اس کا اتنی ہی شرح میں پانی بھارت صرف زراعت کے لیے استعمال کر سکے گا۔

بھارت نے معاہدے کی رو سے 1972 میں ان دریاؤں کے پانی پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔ اس دوران پاکستان اپنے ملک میں آبی ذخائر اور نہری نظام تعمیر کرنے میں ناکام رہا، جب کہ بھارت مغربی دریاؤں کا پانی بھی معینہ مقدار سے زیادہ استعمال کرتا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان پانی کے بہاؤ کی پیمائش کا جدید نظام لگانے میں ناکام رہا۔

اسی دوران (1999ء)  میں بھارت نے دریائے جہلم پر بگلیہار ڈیم کی تعمیر شروع کر دی، جو سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے اس مسئلے پر کسی سنجیدہ ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ صرف اقوام متحدہ میں شکایت جمع کرا دی۔ بین الاقومی عدالت میں اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف جو مقدمہ دائرہ کیا، اس کی بھی صحیح طور پر پیروی نہیں کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان یہ مقدمہ ہار گیا۔ یہ ڈیم 2007ء سے آپریٹو ہو چکا ہے۔ جیسے ہی بگلیہار ڈیم مکمل ہوا، اسی برس بھارت نے دریائے نیلم (جو بھارت میں کشن گنگا کہلاتا ہے) پر ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ کی تعمیر شروع کر دی۔

بھارت کو اس منصوبے سے 330 میگا واٹ بجلی پیدا ہونے کی توقع ہے۔ منصوبہ آیندہ برس مکمل ہو گا۔ یہ منصوبہ بھی باالوسطہ طور پر پاکستان کے حصے کے پانی پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی ماہرین کا خیال ہے کہ اس منصوبے کے نتیجے میں دریائے نیلم کے پانی کے بہاؤ کی شرح خاصی حد تک کم ہو جائے گی۔

چونکہ دریائے نیلم آزاد کشمیر میں دریائے جہلم میں گرتا ہے، اس لیے دریائے جہلم کا پاکستان کے لیے پانی مزید کم ہو جانے کا قوی امکان ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بگلیہارڈیم اور کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ یہاں ہمیں بین الاقوامی قانون کی اس شق کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ Riparian (نچلی سطح) ممالک (یا صوبوں) کا پانی کے قدرتی وسائل پر زیادہ حق ہوتا ہے۔ اس قانون کی رو سے اوپر سے آنے والے پانیوں پر بھارت سے زیادہ پاکستان کا حق ہے۔

یہاں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت اپنے طور پر سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، کیونکہ یہ دو طرفہ (Bilateral) نہیں بلکہ سہ فریقی (Trilateral) معاہدہ ہے، جس میں عالمی بینک صرف فریق ہی نہیں بلکہ گارنٹیئر بھی ہے، جو کسی بھی صورت اس معاہدے کو ختم نہیں ہونے دے گا۔ اس کے علاوہ امریکا اور برطانیہ کی رضامندی بھی شامل رہی ہے۔ اس لیے وہ بھی اس معاہدے کے خاتمے کی مخالفت کریں گے۔ دوئم  پانی روکنے یا سندھ طاس معاہدے میں کسی قسم کی ردوبدل کی کوشش اس خطے کو بدترین صورتحال سے دوچار کر سکتی ہے۔ اس لیے عالمی برادری کو اس قسم کی جنونیت کا راستہ روکنے کے لیے فوری طور پر فعال ہونا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔