مسئلہ افغان مہاجرین

شہلا اعجاز  پير 10 اکتوبر 2016
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

ہم کمزور دل کے لوگ ہیں، کوئی روتا ہے تو ہماری بھی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں، کوئی اپنا دکھڑا سناتا ہے تو دل غم سے اداس ہوجاتا ہے۔ ہم فطرتاً ایسے ہی ہیں۔ افغانستان میں 80 کے عشرے میں روسی افواج نے چڑھائی کی، معصوم افغانیوں کا خون کیا تو ہم رو پڑے، ہمیں اپنے مسلمان افغانی بھائیوں کی فکر ستانے لگی، لاکھوں مہاجرین اپنا مال، بوریا بستر سمیٹ کر پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے گئے، ہم کرتے گئے۔

پشاور اور کوئٹہ کے بازار بھر گئے، سنسان میدان خیموں سے سج گئے، ایک شور ہنگامہ زندگی بپا ہوگیا۔ نسلیں جوان ہوتی گئیں۔ بالآخر روسی حکومت کا غرور ٹوٹا اور افغانستان پر سے ان کا اثر اترنے لگا۔ 80 سے نوے اور نوے سے نئی صدی میں داخل ہوئے۔ افغانستان میں جنگ کے طبل بجتے رہے۔ ایسا نہیں ہے کہ افغانی قوم جنگ پسند ہے، وہ بھی آرام سے جینا چاہتی ہے، سانس لینا چاہتی ہے، کاروبار کرنا چاہتی ہے، لیکن اس جدید دور میں بھی وہ زمانے سے پچاس برس پیچھے کا سفر کر رہے ہیں۔

ان کی فصلوں میں وہ اگ رہا ہے جو ان کی مجبوری بن گیا ہے۔ پوست کی فصل دنیا کے لیے تباہی ہے اور ان کے لیے روٹی۔ بہت فصلوں کو آگ لگائی گئی، لیکن پھر بھی پوست اور اس جیسی نشہ آور اشیاء کی تخلیق جاری ہے۔ دنیا اب بھی چل رہی ہے، کسی کو ایڑی کے نیچے رکھ کر کچلا نہیں جاسکتا کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے اصول ہے۔

پاکستان میں رہنے والے افغان مہاجرین کی تیسری نسل بھی اب بڑی ہو رہی ہے، وہ پاکستان میں پیدا ہونے کے باوجود دلی طور پر افغانستان سے جڑی ہے، یہ ایک قدرتی رشتہ ہے، بہرحال ایسے رشتے کے درپیش پاکستان گزشتہ تیس برسوں سے بہت سے مسائل کا شکار رہا ہے، جن میں پاکستان بھر میں ابھرنے والے ایسے ممنوعہ علاقے جہاں جا کر ایک عام شہری اپنے آپ کو مکمل طور پر اجنبی محسوس کرتا ہے۔

لاقانونیت، ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کے علاوہ کراچی کے بعد لاہور میں کمرشل سیکٹر میں خرید و فروخت کا تیز رجحان دیکھا گیا ہے۔ اس تمام عمل میں قانونی طور پر پاکستانی شہری بھی اس غیرقانونی کاروبار میں برابر کے ملوث رہے ہیں، جس میں لاکھوں کی تعداد میں ان شناختی کارڈ کا اجرا بھی ہے، جو ایسے اشخاص کو پاکستانی قومیت کے خانے میں رکھ کر اپنے ضمیر کو تھپک تھپک کر نوٹوں کی لوری سے سلاتے رہے ہیں۔ بڑی بڑی دکانوں کے مالک جن کے ماضی کے بارے میں کچھ علم نہیں، عام طور پر اپنے آپ کو کوئٹہ کا کہہ کر دوسروں کے ابھرتے شک کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

افغان مہاجرین کے اپنے ملک روانگی کے عمل پر افغان حکومت میں ناراضی کی لہر ابھرتی ہے۔ حالانکہ وہ ان کے اپنے ملک کے شہری ہیں اور ملک میں سنگین حالات کے باعث پاکستان قیام کیا تھا، صدر حامد کرزئی خود اپنے خاندان کے ساتھ کوئٹہ کے خیموں میں ایک عرصہ آباد رہے ہیں۔ بہرحال اب اقوام متحدہ کے ادارے کے بینر تلے پاکستانی حکومت ایک بار پھر افغان مہاجرین کے لیے پروف آف رجسٹریشن کارڈز کے سلسلے میں نوٹس جاری کر رہی ہے، جس کے تحت یہ مہاجرین فارنر ایکٹ 1946 کے تحت مارچ 2017 تک رہ سکتے ہیں۔

ان کارڈز کو 31 مارچ تک نہ تو ضبط کیا جائے اور نہ ہی واپس جمع کرایا جائے اور نہ ہی ضایع کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ان کو اگر کسی جانب سے ہراساں یا پریشان کیا جائے گا تو حکومت پاکستان کی جانب سے ہیلپ لائن نمبرز بھی دیے گئے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے یہ اقدام قابل احسن ہے لیکن کیا افغانستان کی حالت اب بھی اس قابل ہے کہ وہاں مہاجرین اپنی زندگی گزار سکیں؟ یہ ایک بڑا سوال ہے، اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

افغانستان میں القاعدہ کے بعد اب داعش کی موجودگی نے حالت میں مزید بگاڑ پیدا کردیا ہے۔ امریکی ڈرون حملے ہیں کہ بند ہونے میں نہیں آتے، حالیہ ڈرون حملوں اور راکٹ کے حملے سے کہا یہی گیا ہے کہ انیس شدت پسند ہلاک ہوگئے۔ اب اس میں گارنٹی ہی کیا ہے کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد ہی ہوں۔ ظاہر ہے کہ مرنے والے تو اب گواہی دینے سے رہے کہ وہ دہشت گرد ہیں۔ افغانستان میں سیکیورٹی فورسز کا مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرنے کا دعویٰ موجود ہے، جب کہ اس کے نتیجے میں اڑسٹھ افراد اور پانچ فوجی اپنی جان سے گئے۔

افغانستان اب بھی میدان جنگ بنا ہوا ہے، اندرون ملک سیکیورٹی فورس اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپیں، کبھی کسی حصے میں شدت پسندوں کا زور تو کبھی کسی حصے میں سیکیورٹی فورسز کے بلند بانگ دعوے۔ اوپر سے امریکی ڈرون حملے۔ داعش کی خودکش کارروائیاں الگ۔ یہ تمام جنگی حربے سنگلاخ پہاڑوں اور وسیع خشک میدانوں سے پر افغانستان میں جاری ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جلد ازجلد مہاجرین اپنے ملک کو لوٹیں۔ کیا کوئی اس بات کی بھی ضمانت دے سکتا ہے کہ مارچ 2017 تک افغانستان ایک پرسکون پرامن ملک ہوگا؟ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ آمین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔