مسلم لیگ (ن) کی ہچکچاہٹ

نصرت جاوید  جمعرات 13 دسمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

گزشتہ ہفتے پنجاب میں جو ضمنی انتخابات ہوئے ہیں، اس سے تحریک انصاف نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کے ازلی جیالوں سمیت نواز شریف کے تمام مخالفین اس کے نمائندوں کو ووٹ دیں تو وہ آئندہ انتخاب میں حقیقی سونامی لا سکتی ہے۔ اسی  تو جہانگیر ترین ’’تبدیلی کے نشان‘‘ کو سرائیکی وسیب لے گئے ہیں جہاں جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی جیسے قد آور سیاستدانوں کے ہمراہ عمران خان بڑی سخت زبان اور لہجہ اپناتے ہوئے شہباز شریف کی شخصیت اور حکومتی کارکردگی کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ کا معاملہ دوسرا ہے۔ چیچہ وطنی سے دوہری شخصیت کی وجہ سے مشکل میں آنے والے زاہد اقبال نے تیر کے نشان کو آخری لمحوں میں چھوڑ کر شیر کا نشان حاصل کیا اور دوبارہ قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ اس ایک حلقے سے راتوں رات جماعتی وفاداریاں تبدیل کرنے والے امیدوار کی کامیابی سے نواز شریف کے متوالوں نے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ شاید 1997ء لوٹ آیا ہے۔ آئندہ انتخابات میں کم از کم پنجاب کی حد تک ووٹروں کی بے پناہ اکثریت پولنگ بوتھوں پر پہنچ جانے کے بعد بیلٹ پیپروں پر شیر کا نشان ڈھونڈ کر اس پر ٹھپے لگائے گی اور یوں ’’دیکھو۔ دیکھو کون آیا؟ شیر آیا شیر آیا‘‘ کا شور برپا ہو جائے گا۔ غالباََ اسی تصور کا اثبات کرنے کی خاطر نواز شریف صاحب نے ایک بار پھر دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے دعوے بھی شروع کر دئیے ہیں۔ مجھے ان کے خوابوں کو جھٹلانے کی ہرگز تمنا نہیں۔ جس حال میں رہیں خوش رہیں۔

محض ایک سیاسی رپورٹر ہوتے ہوئے البتہ میں یہ کہنے پر اب بھی مجبور ہوں کہ جنرل مشرف کی مسلط کردہ دس برس کی جلا وطنی اور پھر 2008ء سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت چلاتے ہوئے شریف برادران نے بڑی کامیابیاں حاصل کر لی ہوں گی مگر وہ اپنی پاکستان مسلم لیگ کو ایک انتہائی منظم اور نام نہاد ’’نظریاتی جماعت‘‘ ہرگز نہیں بنا پائے۔ ان کے آئندہ انتخابات میں کامیابی کا انحصار اب بھی اپنے اپنے حلقوں میں براجمان ’’دھڑوں‘‘ کے طاقتور سربراہوں کی حمایت پر ہے۔ اس سارے عمل میں ’’نظریہ‘‘ پارٹی کارکن اور تنظیم ہر گز کہیں نظر نہیں آ رہے۔

دیگ کے صرف ایک دانے کو چکھ کر اپنی کہانی بناتے ہوئے میں جہلم کے ایک صوبائی حلقے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ حلقہ جی ٹی روڈ پر واقع ہے اور لاہور سے صرف تین گھنٹے کی مسافت پر۔ ڈسٹرکٹ جہلم سے راجہ افضل 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے قومی اسمبلی میں آئے تھے۔ اس انتخاب میں انھوں نے چوہدری الطاف حسین کو شکست دی تھی۔ مجھے آج بھی1985ء کی قومی اسمبلی کا وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب اس کے اجلاس اسلام آباد میں اسٹیٹ بینک کی طرف سے فراہم کردہ ہال میں ہوا کرتے تھے۔ ایک صبح میں وہاں پہنچا تو اجلاس شروع ہو کر نہیں دے رہا تھا۔ ایک نوجوان اور متجسس رپورٹر ہوتے ہوئے جب میں نے پوچھ تاچھ کی تو پتہ چلا کہ سپریم کورٹ سے کسی Stay Order کا انتظار ہو رہا ہے۔

ہوا یہ تھا کہ اپنی شکست کے بعد چوہدری الطاف حسین شریف الدین پیرزادہ کو وکیل بنا کر عدالت میں چلے گئے اور مختلف شواہد کے ذریعے اس کے روبرو ثابت کیا کہ جنرل ضیاء الحق کی جانب سے آئین میں گھسائے گئے آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق راجہ افضل ’’صادق اور امین‘‘ نہیں ہیں۔ عدالت نے چوہدری الطاف کے دعوے کو تسلیم کیا اور فیصلہ صادر فرمایا کہ راجہ افضل کی نا اہلی کے بعد وہ قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر حلف اٹھائیں۔ چوہدری صاحب جب حلف اٹھانے اسٹیٹ بینک بلڈنگ پہنچے تو اس وقت کی حکمران جماعت کے اراکین اسمبلی میں کھلبلی مچ گئی۔ ان میں سے چند سرکردہ لوگ ان دنوں محمد خان جونیجو کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے اور ضیاء الحق کے حواریوں کو شک تھا کہ یہ لوگ فوجی آمر کے بنائے وزیر اعظم کو ’’شیر بن شیر‘‘ والے مشورے دے رہے ہیں۔

جونیجو کے وفاداروں کو خدشہ تھا کہ اگر راجہ افضل کی ’’صادق و امین‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے نا اہلی کی روایت چل نکلی تو شریف الدین پیرزادہ اور اس وقت کی عدالتوں کے ذریعے ضیاء الحق اپنے ناپسندیدہ اراکین کو چن چن کر فارغ کرا دیا کریں گے۔ اسی لیے قومی اسمبلی کے اراکین کی بے پناہ اکثریت نے Stay Order آنے تک اجلاس میں نہ جانے کا فیصلہ کر لیا اور یہ ساری مزاحمت رچانے کا مرکزی کردار شکر گڑھ سے ان دنوں جونیجو مرحوم کے بہت قریب سمجھے جانے والے چوہدری انور عزیز نے ادا کیا۔ چوہدری الطاف حسین بازی ہار گئے اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی میں چلے گئے۔ 1990ء سے بالآخر جہلم سے قومی اسمبلی کے رکن بن گئے۔ اپنی اس حیثیت میں انھوں نے نواز شریف کے خلاف محترمہ بے نظیر بھٹو اور غلام اسحاق خان کے درمیان صلح کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اسی باعث پنجاب کے گورنر بنے اور نواز شریف کی پہلی حکومت کو اپنی مدت پوری نہ کرنے دی۔ راجہ افضل اس وقت سے اب تک خود کو ’’نواز شریف کا سپاہی‘‘ کہا کرتے ہیں۔ اس ’’سپاہی‘‘ نے تمام تر مشکلات کے باوجود جنرل مشرف کے دنوں میں اپنے قائد کا ساتھ نہ چھوڑا۔ قائد نے 2008ء کے انتخابات میں ان کے دونوں بیٹوں کو اپنی جماعت کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی میں بھیج کر ’’شکریہ‘‘ ادا کیا۔ گزشتہ چند مہینوں سے راجہ افضل کے بارے میں ’’قائد‘‘ نہ جانے کیا سوچتے ہیں مگر چوہدری نثار علی خان تقریباََ کھلے عام راجہ افضل کو ’’ان کی اوقات‘‘ میں رکھنے پر کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے یہ طے کرا دیا ہے کہ آئندہ جہلم کے ایک دیہی حلقے سے نوابزادہ اقبال مہدی قومی اسمبلی کے امیدوار ہوں گے۔ جہلم شہر سے ان کا چہیتا کون ہے؟ مجھے اس کی خبر نہیں۔

بہرحال چوہدری ندیم خادم کی دہری شہریت کی وجہ سے جب جہلم کی ایک صوبائی نشست خالی ہوئی تو راجہ افضل نے اس کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ چوہدری نثار نے چوہدری ندیم خادم کے والد کی حمایت کر دی۔ اب ہونا تو چاہیے تھا کہ اگر پاکستان مسلم لیگ نون واقعتاََ ایک منظم پارٹی بن گئی ہوتی تو اس کے ’’قائد‘‘ نواز شریف قطعی فیصلہ کرتے کہ شیر کا انتخابی نشان ان دونوں میں سے کسے دیا جائے۔ بجائے فیصلہ کرنے کے ’’قائد‘‘ نے جو دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم بن کر پاکستان کے ایٹمی بم کا کنٹرول حاصل کرنے کو تیار بیٹھے ہیں، اس حلقے کو ’’کھلا‘‘ چھوڑ دیا۔ راجہ افضل اور چوہدری خادم نے اس حلقے میں ’’آزاد امیدواروں‘‘کے طور پر حصہ لیا۔ پنجاب حکومت نے مبینہ طور پر چوہدری خادم کا بھرپور ساتھ دیا۔

راجہ افضل بری طرح ہار گئے اور آج کل بھی خود کو ’’نوازشریف کا سپاہی‘‘ قرار دیتے ہوئے روہانسی آواز میں ٹی وی اسکرینوں پر گلے شکوے کر رہے ہیں۔ سنا تو یہ بھی گیا ہے کہ 1985ء کی قومی اسمبلی سے ان کے ذاتی دوست بنے حاجی نواز کھوکھر صاحب ان کے ساتھ رابطے کر رہے ہیں۔ میں ہرگز حیران نہیں ہوں گا اگر آئندہ کے انتخاب کے وہ مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوار بنے جہلم کی ایک نشست سے نوابزادہ اقبال مہدی کا مقابلہ کرتے پائے جائیں۔کل کیا ہوتا ہے، یہ بعد کی باتیں ہیں۔ فی الوقت تو جہلم سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے لیے ہونے والے انتخاب نے ثابت تو صرف یہ کیا ہے کہ باوجود ایک ’’اصولی اور نظریاتی جماعت‘‘ ہوتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نون پنجاب ہی کے کچھ حلقوں سے ابھی تک ’’اپنوں‘‘ کو شیر کا نشان دینے سے ہچکچاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔