آخری معرکہ ٔ خیر و شر اور عقل و خرد کے پروانے

اوریا مقبول جان  جمعـء 21 اکتوبر 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو عقل و خرد کے پروانے اور دنیا کو ایک مشینی عمل سے تعبیر کر کے ہستی باری تعالیٰ کو ایک خاموش تماشائی ثابت کرنے والوں کے تیور دیکھنے والے تھے۔ ہر کوئی ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ جیسے موضوعات پر بات کرتا۔ کہا جاتا کہ دنیا اب صرف اور صرف ایک سپر پاور یا عالمی طاقت کی چراہ گاہ ہے‘ وہ جس طرح کا ورلڈ آڈر چاہے گی نافذ ہو کر رہے گا۔ اس کے سامنے کھڑی ہونے والی اب کوئی طاقت باقی نہیں رہ سکتی۔ وہ اگر حکم دے کہ اس دنیا کا مذہب ’’سیکولر ازم‘‘ ہے تو سب کو اس مذہب کا کلمہ پڑھنا پڑے گا۔

اگر اس کے نزدیک نافذ العمل شریعت کا نام ’’جمہوریت‘‘ ہے تو جو ملک بھی اس جمہوریت کو نہیں مانے گا اس پر قبضہ کر کے‘ وہاں قتل و غارت کے بعد ’’جمہوری شریعت‘‘ نافذ کر دی جائے گی۔ ملک اب الہامی کتابوں سے نہیں‘ بلکہ انسانوں کی مرتب کردہ کتاب ’’آئین‘‘ سے چلائے جائیں گے۔ تینوں ابراہیمی مذاہب اسلام‘ یہودیت اور عیسائیت قرب قیامت اور آخر الزمان کے جو قصے لوگوں کو سناتے رہے ہیں‘ یہ سب عقل و خرد سے ماورا ہیں۔ اب ان کے بارے سوچنا بھی مضحکہ لگتا ہے۔

کیا افسانہ ہے کہ قیامت سے پہلے ایک بہت بڑی جنگ ہو گی۔ یہ جنگ دراصل حق و باطل کا آخری معرکہ ہو گا۔ عیسائیوں کے نزدیک مسیح دوبارہ آئیں گے۔ یہودی اپنے مسیحا “Moshiach” کا انتظار کر رہے ہیں اور مسلمان حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ کی آمد کے منتظر ہیں۔ ہر مذہب کے ماننے والوں میں سے عقلیت پسند‘ جدیدیت کے علمبردار اور مذہب کو سائنس اور عقل کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھنے والے موجود رہے ہیں۔ اور وہ انھیں قصے کہانیاں بتاتے رہے ہیں۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جب امریکی بالادستی کو عالمی سطح پر قبول کیا جانے لگا تو ان دانشوروں نے ایسے تمام مذہبی تصورات کا مزید زور سے انکار شروع کر دیا اور کہا جانے لگا کہ اب شاید ہی کوئی عالمی جنگ برپا ہو۔ ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ ہو چکا‘ فوکویاما کی یہ کتاب بہت مقبول ہوئی۔

چونکہ اب دنیا کے لیے ایک نیا بیانیہ ترتیب دینا تھا‘ جس کے تحت آئین ایک مقدس کتاب‘ سیکولر ازم سب کا مذہب اور جمہوریت نافذ العمل شریعت تھی۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے ایک بے آئین ملک اسرائیل پر دباؤ ڈالا گیا کہ اب یہ نہیں چلے گا کہ ’’اسرائیل کا آئین تورات ہے‘‘۔ اب تم ایک آئین مرتب کرو۔ یہ 1948ء نہیں ہے کہ جب ڈیوڈ بن گوریان نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ’’ہم آئین کی کتاب اس لیے مرتب نہیں کریں گے کیونکہ پھر آئین کا مرتبہ تورات اور تالمود سے بڑا ہو جائے گا۔ اب نیا ورلڈ آڈر ہے‘ آئین مرتب کرو۔

اسرائیل نے آئین مرتب کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی تاکہ عالمی دباؤ کم ہو سکے‘ لیکن  24 سال گزرنے کے باوجود انھوں نے آج تک آئین مرتب نہیں کیا۔ افغانستان میں ملا عمر کی حکومت تھی‘ نہ وہاں آئین کی مقدس کتاب تھی‘ نہ سیکولر ازم کا اتباع اور نہ ہی جمہوریت کی شریعت۔ پوری دنیا اکٹھی ہو کر اس نہتے ملک پر ٹوٹ پڑی۔ آئین مرتب ہوا اور جمہوری شریعت نافذ کر دی گئی۔ اس کے بعد ایسے ہی حالات عراق میں پیدا کیے گئے۔

لیبیا‘ تیونس‘ یمن‘ مراکش اور شام بدترین خونریزی‘ جن کا مقدر بنا دی گئی۔ لیکن اس ساری جنگ اور غلبے کی خواہش کے ردعمل کے طور پر سوویت یونین کے مردہ وجود سے غصے سے کھولتا ہوا روس برآمد ہوا۔ شام میدان جنگ بنا‘ امریکا اور روس مدمقابل آ گئے اور آج حالت یہ ہے کہ 19 اکتوبر 2016ء کے ٹیلیگراف اخبار کی خبر ہے کہ روس نے شام کے محاذ پر جنگ عظیم دوم کے بعد اپنی سب سے بڑی فوجی صف بندی کی ہے۔ اس کے 8 بحری جہازوں کا شمالی فلیٹ اور بالٹک فلیٹ کا آدھا حصہ حلب کے قریب سمندر میں پہنچ چکا ہے۔

اگلے دس دن میں بشارالاسد کی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے حلب پر بہت بڑا حملہ ہو گا جس سے روس کا مقصد امریکی انتخابات پر اثر انداز ہونا ہے تا کہ وہاں ٹرمپ جیت سکے۔ اس لیے کہ ٹرمپ نے بار بار پیوٹن کی ایک طاقتور حکمران کے طور پر تعریف کی ہے اور اس نے کہا ہے کہ اگر وہ جیت گیا تو حلف اٹھانے سے پہلے پیوٹن سے ضرور ملنے جائے گا۔ میں یہاں رسول اکرم ﷺ کی وہ بے شمار احادیث نہیں لکھنا چاہتا جن کا بار بار ذکر کیا جا چکا ہے۔

ان کا خلاصہ یہ ہے کہ آخری بڑی جنگ شام سے شروع ہو گی‘ جس میں مسلمانوں کا ہیڈکوارٹر دمشق کے ساتھ ’’غوطہ‘‘ ہو گا۔ حلب کے آس پاس ’’دامق‘‘ اور ’’اعماق‘‘ کے میدانوں میں جنگ ہو گی جہاں اہل روم اسی جھنڈوں کے تلے جمع ہو کر آئیں گے‘ جن کے ہر جھنڈے تلے بارہ ہزار فوج ہو گی‘ شام کے بدترین لوگ عراق چلے جائیں گے اور عراق کے بہترین لوگ شام آ جائیں گے۔

یمن سے لشکر شام جا کر لڑے گا‘ خراسان سے جھنڈے نکلیں گے اور بیت المقدس میں گاڑ  دیے جائیں گے۔ تمام کتب احادیث میں ایک طویل باب ہے جسے الفتن اور ملاحم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لیکن اہل عقل و خرد ان سب کو افسانہ جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب دنیا الہامی ہدایت کے بجائے ایسے ہی چلتی چلی جائے گی جیسے یہاں کہ بسنے والے انسان عالمی طاقت یا طاقتوں کے اشارے پر بساتے اور چلاتے جائیں گے۔

لیکن ہم مسلمانوں سے مختلف ایک اور قوم ہے‘ جو ان تمام سائنسی افکار اور عقلی دلیلوں پر لعنت بھیجتی ہے اور جو کچھ ان کی آسمانی کتابوں میں تحریر ہے‘ جو بشارتیں ان کی مقدس کتابوں کے ذریعے ان تک پہنچی ہیں‘ وہ اس پر مکمل ایمان رکھتے ہوئے یورپ‘ امریکا اور دنیا کے ہر خطے سے اپنے خوبصورت گھر‘ بہترین کاروبار اور آباؤ اجداد کی قبریں چھوڑ کر اسرائیل جیسے بے آب و گیاہ علاقے میں 1920ء سے آباد ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ یہودی دن میں تین دفعہ ایک دعائیہ عبادت کرتے ہیں جسے شمعون ایژری  Shemoneh Esrei کہتے ہیں۔

اس دعا میں وہ اپنے مسیحا Moshiach کی آمد کے لیے دعا کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ مسیحا دنیا بھر کے یہودیوں کو اسرائیل میں اکٹھا کرے گا‘ موسوی شریعت کے مطابق عدالتیں قائم کرے گا۔ ’’دنیا سے گناہ‘ بے ایمانی اور شیطانیت کا خاتمہ کرے گا‘ یروشلم کے ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرے گا‘ وہ آل داؤد سے ہو گا اور آلِ داؤد کی حکمرانی کو ایک بار پھر قائم کرے گا‘‘۔ انگریزی یا اردو کے لفظ مسیحا کا مطلب نجات دہندہ ہوتا ہے لیکن عبرانی زبان لفظ’’ موشیاک‘‘ کا مطلب‘ اعلیٰ مرتبہ اور بلند مقام والا ہے۔

تالمود میں اس موشیاک کا ذکر Kohen ha-Moshiach لکھا ہے جس کا مطلب بادشاہ موشیاک ہے۔ ان کے نزدیک یہ بادشاہ مسیحا عبرانی کیلنڈر کے سال 6000 سے پہلے آ جائے گا‘ جب کہ اس وقت عبرانی کیلنڈر کا سال5777  چل رہا ہے۔ تالمود کے مطابق جب وہ اس دنیا میں آئے گا تو دنیا کی حالت بہت ابتر ہو چکی ہو گی۔ حکومتوں پر غاصب حکمران قابض ہوں گے‘ ایک روایت کے مطابق سب سے پہلے علیجاہ Elijah رسول آئے گا اور مسیحا کی آمد کا اعلان کرے گا جب کہ دوسری روایت کے مطابق اللہ اسے مسیحا کی مدد کے لیے بھیجے گا۔ مسیحا کے آنے سے پہلے یا جوج اور ماجوج کے درمیان شدید لڑائی ہو رہی ہو گی Number24:17-20,Deuteronomy 30:1) اور (Geneis 49:10۔

مسیحا ایک بہت بڑا سیاسی رہنما ہو گا (یرمیاہ 23-5)‘ مسیحا کو داؤد کا بیٹا پکارا جائے گا‘ اسے شریعت‘ موسوی پر عبور حاصل ہو گا( (Isaiah 11:2-5) وہ ایک عظیم سپہ سالار ہو گا اور اسرائیل کی طرف سے دنیا سے جنگ کرے گا (یرمیاہ 33:15) اور جیت کے بعد دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا‘ کوئی بیماری‘ قحط‘ وبا اور جنگ نہیں ہو گی۔ وہ خدا نہیں ہو گا مگر ایسی قوتیں رکھے گا جو اسے انسانوں سے برتر ثابت کریں گی۔ (Rambam,s Prinaiples of Faith) حضرت موسیٰ نے کہا ’’یہودی دنیا کے چاروں کونوں میں تتر بتر ہو جائیں گے‘ پھر ایک وقت آئے گا جب وہ نادم ہوں گے اور اسرائیل واپس آئیں گے اور پوری دنیا پر تورات کے تمام قوانین نافذ کریں گے۔(Deuteronomy 30:1)

یہودیوں کے ہاں آخر الزمان یعنی End of Time کے بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں اور ان کے ہاں ان میں ترتیب بھی ہے۔ تمام یہودی خواہ وہ نوبل انعام یافتہ ہوں اور بڑے بڑے صاحبان علم بھی‘ صحافی اور دانشور ہوں یا ادیب اور شاعر‘ سب کے سب اس عقیدے پر یقین رکھتے ہیں اور کسی عقل و خرد کے پرستار کو پاس نہیں پھٹکنے دیتے۔ اپنا گھر بار‘ کاروبار اور آباء و اجداد کی قبریں چھوڑ کر اسرائیل آ کر آباد ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کس لیے؟  اپنے مسیحا کی سربراہی میں مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے۔ لیکن کیا ہم مسلمان تیار ہیں؟ ہمارے ہاں تو روز کوئی نیا عالم پیدا ہو جاتا ہے جو کہتا ہے یہ قرب قیامت‘ مہدی آخر الزماں‘ حضرت عیسیٰ‘ تیسری عالمی جنگ سب افسانے ہیں۔ مسلمانوں کو خواب غفلت اور امن کا درس دینے والے کیا اپنی یہ کہانیاں یہودیوں کو سنا کر انھیں یورپ اور امریکا کے خوبصورت ممالک میں واپس بھیج سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔