نواز شریف کے میڈیا منیجرز

طارق محمود میاں  ہفتہ 15 دسمبر 2012

اس نے اس دن سلطانہ ڈاکو کی طرح ایک آنکھ چھپائی ہوئی تھی، وہ جہاز کے پہیے سے لٹک کے فضا میں بلند ہوا اور جب اندر داخل ہوا تو اس کے دونوں ہاتھوں میں پستول تھے۔اس نے کاک پٹ کا دروازہ اپنے جوتے کا ٹھڈا مارکے توڑا اور پائلٹ کو گن پوائنٹ پر لے کر جہاز ایک نامعلوم منزل کی طرف لے جانے کو کہا۔ اس وقت جہاز میں فوج کا سالارِ اعظم بھی موجود تھا۔

یہ ہے وہ منظر جو نواز شریف کے مخالفین 12 اکتوبر 1999 والے واقعے کا پیش کرتے ہیں اور ان کا دفاع کرنے والے سامنے بیٹھے بغلیں جھانکتے ہیں۔ جرنیل کی فراغت کے بعد سے اس معاملے کی اتنی اہمیت نہیں رہی لیکن درجنوں ایسے الزامات ہیں کہ مسلم لیگ(ن) جن کی سولی پر لٹکائی جاتی ہے اور اس کے میڈیا منیجرز بے بسی سے تماشا دیکھتے ہیں، آئیے ان میں سے چند الزامات کا میں یہاں باری باری ذکرکرتا ہوں۔

نواز شریف پر بڑی شدومد سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انھیں کارگل والے حملے کا بخوبی علم تھا اور سب کچھ ان کی مرضی سے ہوا۔ اس بات کے گواہ صرف چوہدری شجاعت اور جنرل مشرف ہیں۔ کیوں ہیں؟ اس کا جواب بارہا مل چکا ہے اور ان کی مسلم لیگیوں کے آخری دانے کے مسلم لیگ (ن) میں گل وگلزار ہونے تک ملتا ہی رہے گا۔ اور ظاہر ہے کہ ’’آخری دانے‘‘ یہ دونوں خود ہیں۔ یہ ایک بوگس الزام ہے لیکن نواز شریف کے میڈیا منیجرز کبھی سلیقے سے حقائق کو منظر عام پر نہ لاسکے۔ الزام لگانیوالوں کے شوروغل میں ان کی آواز کہیں سنائی نہیں دیتی۔

اسی طرح ایٹمی دھماکا کرنے کا معاملہ ہے، محسن پاکستان سمیت اب تک درجنوں لوگ فرداً فرداً یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ نواز شریف کو ایٹمی دھماکا کرنے پر انھوں نے مجبور کیا تھا۔ ورنہ وہ تو ڈر کے مارے یہ بم ریڑھی والے کو ردّی میں دینے پر تلے ہوئے تھے۔ سیدھی سی بات ہے کہ نواز شریف نے بطور وزیر اعظم ہر فکر کے لوگوں سے مشورہ کیا تھا اور کسی کی رائے جاننے اور قائل کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہوتا ہے کہ آپ کسی عمل کا منفی پہلو مخاطب کے سامنے لائیں اور اس پر بات کریں۔

اب ایسے تبادلہ خیال کو کوئی انکار سمجھ بیٹھے تو اسے کیا کہیے؟ لیکن مسلم لیگ (ن) کے میڈیا منیجرز عمومی طور پر اس پروپیگنڈے کو بھی کاؤنٹر کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ہر سال 28 مئی کو ان لوگوں کی دھمال قابل دید ہوتی ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نواز شریف کی تو جان نکل رہی تھی، یہ تو بس میں ہی تھا جس کی دھمکی کی وجہ سے ایٹمی دھماکا کرنا پڑا۔

یہ میڈیا منیجرز اس موقف کا دفاع کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں کہ نواز شریف نے پرویز مشرف سے جدّہ جانے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا۔ گویا یہ بات اب قبول کرلی گئی ہے کہ وہ منتیں ترلے کرکے اور معافیاں مانگ کے ملک بدر ہوئے تھے، حالانکہ اس معاملے کے دو پہلو تھے۔

مشرف سے معاہدہ ہونا اور بعض ’’نامعلوم‘‘ غیر ملکی کرداروں کو کچھ یقین دہانیاں کرانا۔ ان غیر ملکی کرداروں کا تعلق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکا اور لبنان سے تھا۔ نواز شریف نے ان لوگوں سے نہیں بلکہ پرویز مشرف سے معاہدے کے وجود سے انکار کیا تھا اور یہ بات آج بھی سچ ہے۔ میڈیا منیجرز ہوشیار ہوتے تو فوراً ہی معاملے کو صاف کردیتے اور اس پہلو کو یوں اجاگر کرتے کہ مخالفین کو جھوٹ کی تہمت لگانے کی جرأت نہ ہوتی۔

کچھ عرصے سے مسلم لیگ (ن) پر ہر طرف سے ان الزامات کی یلغار ہے کہ وہ اپنے اصولی موقف سے ہٹ کے دنیا جہان کے لوٹوں کو خوش آمدید کہہ رہی ہے۔ ہر دوسرے دن ایک موقع پرست لڑھک کے ان کے کیمپ میں نمودار ہوجاتا ہے اور پارٹی لیڈر اس کے ساتھ لڈیاں ڈالنے لگتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر وہ ہیں جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کو رگڑا لگانے میں برسوں صرف کردیے۔

بارہا سر پھٹول ہوتے ہوتے بھی رہ گئی۔ انھوں نے ٹی وی پروگراموں میں ایک دوجے کے بخیئے ادھیڑے اور ماضی کو بھی بے لباس کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ میڈیا منیجرز لوٹوں کی پذیرائی والے سوال سے کنی کتراتے ہیں۔ کوئی پوچھے تو آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں اور من من کرکے اس سے ملتے جلتے الزامات اوروں پر لگا دیتے ہیں۔ انھیں یہ یاد ہی نہیں کہ نواز شریف نے ملک بدری سے لوٹنے کے بعد ایسے لوگوں کو پارٹی میں واپس لینے کے لیے کچھ اصول وضع کیے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب صحافت اور سیاست کے تمام گرو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ نواز شریف کو دل بڑا کرنا چاہیے اور تمام مسلم لیگوں کو یکجا ہوجانا چاہیے۔ یہ مطالبہ اتنا شدید تھا کہ عام معافی کا اعلان نہ کرنے پر بہت سوں نے نواز شریف کو متکبر، مغرور اور راستے کا پتھر قرار دے دیا تھا۔

ایسے تقاضوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے ان دنوں یہ طے کرلیا تھا کہ کٹھن لمحوں میں ساتھ چھوڑ جانے والوں کے معاملات پر انفرادی سطح پر غور کیا جائے گا اور واپس لینے پر فی الحال کوئی حکومتی عہدہ دینے سے اجتناب کیا جائے گا۔ چار برس تک اس بات پر عمل ہوتا رہا لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ اس سیاسی جماعت کے دروازے پوری طرح کھول دیے جائیں اور اس کے پروگرام پر لبیک کہنے والوں کو معافی تلافی اور وعدے وعید کے بعد اپنا نیا کردار ادا کرنے دیا جائے۔

الیکشنوں سے پہلے یہی کیا جاتا ہے اور ان کے مستقبل کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جاتا ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے میڈیا منیجرز اس صورتحال کو ایک مثبت حکمت عملی کا رنگ دینے کے بجائے ایک تہمت کے طور پر قبول کیے جارہے ہیں۔

ایسی باتوں سے بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ ملک کی اس بڑی سیاسی جماعت کے پاس سب سے گئے گزرے میڈیا منیجرز ہیں۔

ایسے لوگ ہوسکتا ہے کہ مال تو خوب بنا رہے ہوں لیکن اپنا کام کرنے میں وہ بری طرح ناکام ہیں۔ نواز شریف سے میری درخواست ہے کہ جب الیکشن میں وہ اپنی خواہش کے مطابق ’’دو تہائی اکثریت‘‘ حاصل کرنے کے بعد وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھالیں تو اس کے فوراً بعد ان تمام ناکام مہروں کو ٹریننگ کے لیے اپنی آیندہ کی حلیف جماعت ایم کیو ایم کے پاس نائن زیرو بھیج دیں۔ میں نے چیک کرلیا ہے، وہ بخوشی یہ کام کردیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔