منہ پھٹ، متنازع اور متعصب ڈونلڈ ٹرمپ، کیسے بنا دنیا کا طاقت وَر ترین شخص؟

اقبال خورشید  جمعرات 10 نومبر 2016
دنیا کو سنجیدگی سے اِس پر غور کرنے ہوگا کہ آخر ٹرمپ اب سوچ کیا رہے ہیں؟۔ فوٹو: فائل

دنیا کو سنجیدگی سے اِس پر غور کرنے ہوگا کہ آخر ٹرمپ اب سوچ کیا رہے ہیں؟۔ فوٹو: فائل

انتخابی معرکے سے عین پہلے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کا ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو امکانی ٹھہرانا زیادہ سنسنی نہیں پھیلا سکا کہ ری پبلیکن امیدوار سے دنیا کو کسی اَن ہونی کی امید نہیں تھی۔

ڈیموکریٹس ایک سیاہ فام امریکی صدر کے بعد اِس ریاست کو پہلی خاتون صدر کا تحفہ دینا چاہتے تھے۔ اور یہ موہ لینے والا تصور تھا۔ ایک سمت تجربہ اور مقبولیت تھی، دوسرے طرف ڈونلڈ ٹرمپ، جن کا کوئی خاص سیاسی پس منظر نہیں تھا۔ اور پھر اُن کے بیانات نے اتنی بے چپنی پیدا کردی تھی کہ انھیں منہ زور، پُرخطر اور غیرمتوازن قرار دے دیا گیا۔

بے شک، عالمی دنیا کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار زیادہ موزوں تھیں، جن کے شوہر نے آٹھ برس ’’دنیا کے طاقت وَر ترین آدمی‘‘ کے خطاب کو سنبھالے رکھا، جو ایک پسندیدہ خاتون اول رہیں، اور جنھوں نے بہ طور وزیرخارجہ پوری دنیا میں اپنی اہمیت اور ذہانت منوایا۔ ان کی قابلیت ہی نے یہ امید پیدا کی کہ ڈیموکریٹک پارٹی لگاتار تیسری بار صدارتی معرکہ اپنے نام کر لے۔

ایک ایسے منہ پھٹ کاروباری شخص سے معاملات طے کرتے ہوئے عالمی دنیا یقیناً دشواری محسوس کرتی، جس نے جاپان اور جنوبی کوریا کو ایٹمی ہتھیار بنانے کا پُرخطر کا مشورہ دے ڈالا ہو، یہ کہہ کر میکسیکو اور امریکا کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہو کہ وہاں سے آنے والے منشیات فروش اور جنسی بھیڑیے ہیں، جس نے امریکی عوام کو یقین دلایا ہو کہ ان کا ہتھیار رکھنے کا حق محفوظ رہے گا، مسلمانوں کی امیگریشن پر پابندی لگا دی جائے گی، اور امریکا کے بین الاقوامی تجارتی معاہدوں پر از سر نو مذاکرات کیے جائیں گے۔

یقینی طور پر وہ ایسے شخص سے معاملات طے کرنے میں دشواری محسوس کرتے، جسے نوجوانی میں فلم پڑھنے کا جنون رہا ہو، جو نیویارک آنے کے بعد امراء سے گھلنے ملنے میں دشوار محسوس کیا کرتا ہو، جس کے کام یاب ریئل اسٹیٹ پراجیکٹس کے پیچھے کئی تنازعات ہوں، خواتین کی جانب سے اس پر سنگین الزامات عاید کیے گئے ہوں، جس نے ’’ٹرمپ یونیورسٹی‘‘ جیسا متنازع ادارہ بنایا ہو، جو برطانیہ میں ایک گولف کورس کے تعمیراتی منصوبے کے باعث ناپسندہ ٹھہرا ہو، اور سب سے اہم۔۔۔ خارجہ پالیسی میں انقلابی تبدیلیاں کرتے ہوئے اپنی طاقت سمیٹنے کا اشارہ دے چکا ہو۔ جب دنیا امریکی بالادستی اور سربراہی کی عادی ہوگئی تھی، ٹرمپ کی اس سوچ نے کہ دنیا اپنے مسئلے خود نمٹائے، اسے بس امریکا کی پروا ہے، خاصی کھلبلی مچائی۔

اسی وجہ سے عالمی دنیا خواہش مند تھی ہیلری ہی اس معرکے کی فاتح ٹھہریں۔ عالمی میڈیا میں بھی ہیلری کا پلڑا بھاری تھا۔ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ امریکا ایک قوم پرست، متعصب اور جارحانہ شخص کے ہاتھ میں اپنی قسمت نہیں سونپے گا۔۔۔ مگر 9 نومبر کی رات جس نو منتخب نائب صدر نے مائیک پر آکر امریکی صدر کو خطاب کی دعوت دی، وہ ڈیموکریٹک نہیں، ریپبلیکن تھا۔ مائیک پینس نے ٹرمپ کی فتح کا اعلان کرتے ہوئے کہا: ’’یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ امریکی عوام نے فیصلہ دے دیا، انھوں نے اپنا نیا فاتح منتخب کرلیا ہے، امریکا کو نیا صدر مل گیا!‘‘

یہاں اس شخص کی بات ہورہی ہے، جس کے خیالات ہی نہیں، انداز بیان، لباس، بالوں کی تراش خراش اور لائف اسٹائل؛ ہر شے کا مذاق اڑا گیا۔ بی بی سی کی نمایندہ، کیٹی کے کو یہ کہنا پڑا: ’’جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، یہ سیاست میں سب سے بڑا اپ سیٹ ہے۔‘‘ ادھر روس میں جشن منایا گیا کہ اب اُن کے دشمن نمبر ایک، یعنی امریکا کی تباہی یقینی ہے۔

یہ سچ ہے کہ ڈیموکریٹس کا گڑھ سمجھی جانے والی ریاستوں میں ٹرمپ نے اپنے مدمقابل کو زیادہ پریشان نہیں کیا، نیویارک اور کیلی فورنیا جیسی ریاستوں میں ہیلری کام یاب رہیں، لیکن ’’سوئنگ اسٹیٹس‘‘ میں ان کی کارکردگی حیران کن حد تک بہتر رہی۔ ٹرمپ کے سنیئر پالیسی مشیر، کرٹس ایلس نے پرجوش انداز میں کہا: ’’یہ زبردست رات ہے۔ یہ امریکا کے لیے عظیم رات ہے۔ یہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے عظیم رات ہے۔‘‘

اپنی وکٹری اسپیچ میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک مختلف شخص دکھائی دیے۔ انھوں نے اپنی فتح کو ’’ہماری فتح‘‘ قرار دیا۔ اپنی حریف کی ٹیلی فونک کال کا ذکر کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا، اور ایک بڑی الیکشن مہم چلانے کے لیے مبارک باد دی۔ پھر ان لوگوں کی بات کی، جنھیں امریکا میں اب تک نظرانداز کیا گیا، معاشی منصوبوں کا تذکرہ کیا۔ اسپتال اور اسکول تعمیر کرنے کا وعدہ کیا، اور کہا: ’’کوئی بھی خواب ایسا نہیں، جس کی تعبیر ممکن نہ ہو۔‘‘

ٹرمپ کی کام یابی اُن کے آخری بیان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ان کا خواب ہی تھا، جو سچ ہوا۔ ورنہ الیکشن سے چند ماہ قبل تک معروف فلم ساز، مائیکل مور اُن کی بیٹی، ایوانکا کو مشورہ دے رہے تھے: ’’تمھارے والد کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ دن بہ دن حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ انھیں مدد کی ضرورت ہے۔ کچھ کرو۔ انھیں اس بھیڑ سے دور لے جاؤ۔‘‘ سنیئر تجزیہ کاروں کا بھی خیال تھا کہ ٹرمپ نے امریکی سیاست کو مسالے دار ریالٹی شو میں بدل دیا ہے، کبھی روتے ہوئے بچے کو اپنی ریلی سے باہر کردیتے ہیں، روس پر بھونڈے الزامات لگاتے ہیں، ترقی پذیر ممالک کے شہریوں پر امریکیوں کی ملازمتیں چرانے کا الزام دھرتے ہیں، اور ہلیری کو ہول ناک دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔

جن تجزیہ کاروں نے ڈونلڈ ٹرمپ کا نام پہلی بار تب سنا، جب وہ ریپبلیکن امیدوار بنے تھے، ان کے لیے اُن اسباب تک رسائی ذرا مشکل، جنھوں نے ٹرمپ کو یہ فتح دلائی۔ ان اسباب میں ریئل اسٹیٹ کے میدان اُن کے وہ بولڈ فیصلے شامل، جو اُنھوں نے 70 کی دہائی میںکیے۔ آسمان کو چھوتے ’’ٹرمپ ٹاورز‘‘ کی تعمیر اور ان کی بیسٹ سیلر کتاب Trump: The Art of the Deal بھی اس جیت پر کچھ روشنی ڈال سکتی ہے۔

90 کی دہائی میں طلاق کے صدمے اور قرضوں کے بوجھ کو شکست دینے کی کہانی اور مس یونیورس فرنچائز کی خریداری کی تفصیلات بھی اس ضمن میں معاون ہوسکتی ہیں، مگر سب سے اہم ہے 2004 میں شروع ہونے والا ریالٹی شو: The Apprentice۔ جی ہاں، اس شو نے راتوں رات ڈونلڈ ٹرمپ کو انٹرٹینمنٹ ورلڈ کا ستارہ بنا دیا۔ اس میں وہ ایک پرقوت، پراعتماد اور دولت مند ایگزیکٹیو کے طور پر سامنے آئے۔ اِس شو کے ذریعے جہاں انھوں نے اپنے اندر کے دلیر، منہ زور اور لڑاکا شخص کو دریافت کیا، وہیں یہ نسخہ بھی پا لیا کہ کیسے کسی خیال اور نظریے کو تفریح سے جوڑ کر ٹیلی ویژن کے ذریعہ کروڑوں افراد تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ یہی نسخہ انھوں نے 2016 کے الیکشن میں استعمال کیا۔

جب ٹرمپ نے وکٹری اسپیچ میں کہا: ’’بڑے خواب دیکھیں، جرأت کریں!‘‘ تب وہی جملے دہرا رہے تھے، جو وہ اپنے مقبول پروگرام میں کئی بار بول چکے تھے۔ بے شک وہ ان لاکھوں افراد کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے گھروں سے باہر لانے میں کام یاب رہے، جو سسٹم سے اکتائے ہوئے تھے۔ انھوں نے جمود توڑ ڈالا۔۔۔ ٹرمپ کی جیت کی کہانی تو مکمل ہوئی، مگر اس کے آگے بے انت سوالات ہیں۔

کیا اب بھی ٹرمپ You Are Fired کہتے سنائی دیں گے؟

اپنے عالمی شہرت یافتہ پروگرام ’’دی اپرینٹس‘‘ کی ہر قسط میں ٹرمپ اپنے مخصوص انداز میں شرکاء کو You Are Fired کہتے سنائی دیتے ہیں۔ ایک ایک کرکے کم زور کڑیاں پروگرام سے خارج ہوجاتی ہیں۔ سیزن کے آخر میں ایک خوش بخت کو ٹرمپ کی جانب سے You Are Hired سننا نصیب ہوتا ہے۔ تو کیا صدر بننے کے بعد بھی ٹرمپ کا رویہ یہی رہے گا؟ کیا وہ کم زور ساتھیوں کو بہ جنبش قلم خود سے دور کر دیں گے، اور بہترین شخص کی کھوج تک یہ کڑا امتحان جاری رکھیں گے؟

ایسا ہونا حیران کن نہیں۔ ہم نے ان کی الیکشن مہم میں بھی یہ شدید رویہ دیکھا۔ وہ کسی کے مشورے کو خاطر میں نہیں لائے۔ وہی کیا، جو انھیں ٹھیک لگا۔ پھر ان کی کاروباری زندگی میں اس کی جھلکیاں ملتی ہیں، جب انھوں نے برسوں پرانے ساتھیوں کو لمحوں میں باہر کا راستہ دکھا دیا، جو خود الگ ہوا، اسے روکا نہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکا کو چلانے کے ڈھب میں، کچھ چونکا دینے والی تبدیلی آنے والی ہے۔

کیا دنیا سمٹتی امریکی خارجہ پالیسی کے لیے تیار ہے؟

’’سب سے پہلے امریکا‘‘ اور ’’امریکا کو عظیم تر بنائیں گے‘‘ کے نعرے لگانے والے ٹرمپ نے الیکشن مہم میں اپنے حامیوں سے جن اقدامات کا وعدہ کیا، وہ چونکا دینے والے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ چین اور شمالی کوریا کے خلاف جاپان اور جنوبی کوریا کا امریکا پر انحصار ختم نہیں، تو کم ضرور ہوجائے، سعودی عرب سے اشتراک پر بھی دوبارہ غور کرنے اور تیل کی خریداری کم کرنے کا عندیہ دیا، اسرائیل سے تعلقات کی نوعیت بدلنے کا اشارہ کیا، ایران۔ شمالی کوریا تجارتی معاہدوں پر پابندی کی تجویز دی، نیٹو سے امریکا کے تعلق کو معاشی طور پر unfair کہا، امریکا کے حلیف ممالک کے سربراہوں کی جاسوسی پر کاندھے اچکائے، اور مڈل ایسٹ سے متعلق اوباما کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔  ان کی کام یابی میں صنعتی طور پر پس ماندہ علاقوں کے رائے دہندگان کا کردار نمایاں ہے، جنھوں نے ٹرمپ کے وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں روزگار کے لیے ووٹ دیا۔

بے شک ان کے خیالات جارحانہ ہیں، جن کے باعث کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اُن کے اقتدار میں آنے کے بعد خارجہ پالیسی یک سر تبدیل ہوجائے گی۔ مسلمانوں سے متعلق ان کے لہجے کی کرختگی کے باعث مسلم دنیا میں بے چینی پائی جاتی ہے، مگر حقیقت کے عدسے سے دیکھا جائے، تو امریکا کی خارجہ پالیسی میں فوری تبدیلی امکانی نہیں۔ یہ دھیرے دھیرے وقوع پذیر ہوگی۔ کھلبلی مچانے کے بجائے طویل المدت منصوبے پر کام کیا جائے گا۔ البتہ یہ طے ہے کہ امریکیوں کے حریف اور اتحادی، دونوں کو ایک مشکل آدمی سے معاملہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، جو Status quo کے خلاف ہے، اور امریکی مفادات کو ترجیح دینے پر زور دے رہا ہے۔ اپنی تقریر میں بھی ٹرمپ نے کہا تھا: ’’ہم ہر کسی کے ساتھ منصفانہ ڈیل کرنے کے خواہش مند ہیں، لیکن امریکی مفاد اولین ترجیح ہوں گے۔‘‘

اب پاکستان کیا کرے؟

پاکستان کے پڑوس میں قوم پرستی کی لہر نے سیاسی جمود توڑا، اور ایک ’’چائے والا‘‘ ملک کا طاقت وَر ترین شخص بن گیا، جو مسلمانوں سے تعصب کی طویل اور بھیانک تاریخ رکھتا ہے۔ گو ڈونلڈ ٹرمپ کی نسل پرستانہ سوچ کی وجہ سے ہمارے ہاں ان کا موازنہ مودی جی سے کیا گیا، مگر اس طنز کے پیچھے دراصل یہ خطرہ چھپا ہے کہ نئے ری پبلیکن صدر کا جھکاؤ پاکستان سے زیادہ بھارت کی جانب ہوگا۔

اگر ایسا ہوا، تو اس میں حیرت کیسی؟ پاکستان سے متعلق اوباما انتظامیہ کی پالیسی میں بھی گذشتہ برسوں میں تبدیلیاں آئی تھیں، اور دہشت گردی کے خلاف اقدامات کا مطالبہ مسلسل بڑھا تھا۔ اگر ہیلری صدر بنتیں، تب بھی یہ مطالبہ قائم رہتا۔ ٹرمپ کے قوت میں آنے کے بعد یہ مطالبہ ہنوز موجود ہے۔ دیکھنا بس یہ ہے کہ ٹرمپ اسے کس طرح پاکستان کے سامنے رکھیں گے۔

ٹرمپ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’میں نہیں چاہوں گا کہ انھیں یہ اندازہ ہو کہ میں کیا سوچ رہا ہوں!‘‘

اس وقت امریکا میں تو جشن بپا ہے، دنیا کے سربراہان اُنھیں مبارک باد دے رہے ہیں، تجزیے تبصرے ہورہے ہیں۔۔۔ جب یہ شور تھمے، دھول بیٹھ جائے، تب دنیا کو سنجیدگی سے اِس پر غور کرنے ہوگا کہ آخر ٹرمپ اب سوچ کیا رہے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔