سبط حسن کی یاد میں

مقتدا منصور  اتوار 20 نومبر 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

تاریخ عالم کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ نسل انسانی کے فکری، سماجی اور سیاسی ارتقا میں اہل دانش کی علمی اور فکری کاوشوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ انھوں نے عام انسانوں میں خردافروزی، عقلیت پسندی اور روشن خیالی کے دیے روشن کیے، جن کے باعث معاشروں میں تحقیق و تخلیق کی راہ ہموار ہوئی۔ دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کی روایت تشکیل دینے کی کوشش کی۔ جب کہ دوسری طرف مختلف ادوار میں بعض دانشوروں نے اندھی عقیدہ پرستی اور فکری جمود کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ ایسے دانشوروں نے ارتقائی عمل کا راستہ روکنے کی اپنے تئیںکوشش ضرور کی، مگر وہ خرد افروزی کی شمع کو بجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

سید سبط حسن اول الذکر قسم کے مفکر، تاریخ دان اور دانشور تھے، جنھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے پاکستانی معاشرے میں روشن خیالی، ترقی پسندی اور خرد افروزی کی شمع روشن کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ انھوں نے اپنی تحریروں سے قارئین کے ذہنوں کو جھنجھوڑا، انھیں اطاعت گزار کے بجائے سوچنے پر اکسایا۔ ان کی تحریروں کی  طفیل کہ پاکستان میں سوچنے اور سمجھنے کا نیا انداز متعارف ہوا۔ جو حلقے اور افراد ان کے نظریات سے متفق نہیں تھے، انھوں نے بھی ان کی تحاریر سے استفادہ کیا اور دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش ضرور کی۔ انھوں نے تاریخ کا حقیقت پسندانہ انداز میں جائزہ لینے اور سماجی معاملات کو سائنسی زوایہ نگاہ سے دیکھنے کے رجحان کو پروان چڑھایا۔ جسے ڈاکٹر مبارک علی نے بام عروج تک پہنچایا ہے۔

گزشتہ دنوں انجمن ترقی پسند مصنفین نے ان کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر دو روزہ سیمینار کا اہتمام کیا۔ اس کانفرنس میں مقررین نے معاشرے میں خرد افروزی اور روشن خیالی کے فروغ میں ان کے کردار کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا۔ جن اہل دانش نے اس سیمینار میں اپنے مقالہ جات پیش کیے ان میں ڈاکٹر مبارک علی، ڈاکٹرانوار احمد، ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، آئی اے رحمان، ڈاکٹر حمیرا اشفاق، ڈاکٹر شاہ محمد مری، زاہدہ حنا، احمد سلیم، ڈاکٹر سید جعفر احمد، مسلم شمیم، امر سندھو، مظہر جمیل اور ش فرخ شامل تھے۔ تحریک نسواں کی جانب سے شیماکرمانی اور ان کے ساتھیوں نے خوبصورت تمثیلی رقص پیش کیا۔

اس موقع پر 1985ء میں منعقد ہونے والے جشن سبط حسن کے موقع پر بنائی جانے والے ویڈیو فلم بھی دکھائی گئی، جو مشتاق گزدر مرحوم نے فلمبند کی تھی۔ اس تقریب میں برصغیر کی کئی قدآور شخصیات نے شرکت کی تھی۔ مجنوں گورکھپوری، علی سردار جعفری، عصمت چغتائی سمیت کئی بڑے نام اس تقریب میں شریک تھے۔ اس تقریب کی سب سے اہم بات سبط صاحب کی وہ فکر انگیز تقریر تھی، جس میں انھوں نے کئی اہم سوالات اٹھائے تھے۔

ان کی تقریر سننے کے بعد اندازہ ہوا کہ ان تین دہائیوں کے دوران کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ ویسے تو رئیس امرہوی مرحوم کے قطعات کے مطالعہ سے بھی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ قیام ملک سے آج تک ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کے مصداق ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ بلکہ مزید فکری ابتری اور عدم برداشت کا شکار ہوا ہے۔

سبط حسن مرحوم نے اس تقریب پر کئی سوالات اٹھائے تھے، جو آج کے حالات سے اتنی ہی مطابقت رکھتے ہیں، جتنی کہ 30 برس قبل تھی۔ ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ قلمکار کیوں لکھ رہے ہیں؟ اور کس کے لیے لکھ رہے ہیں۔ اس کا جواب انھوں نے خود ہی دے دیا تھا کہ کچھ لوگ محض روزی کمانے کے لیے لکھتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ سوچے سمجھے بغیر محض اپنی شہرت اور خود کو معاشرے میں معتبر بنانے کی خاطر قلم کا سہارا لیتے ہیں۔

لیکن ایسے لکھنے والے کم ہیں، جن کے مدنظر کوئی نظریہ، نقطہ نظر یا مقصد ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی فکر اور شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تحریروں سے قارئین کے ذہنوں کو جھنجھوڑتے ہیں۔ ان پر بحث و مباحثہ اور مکالمہ کی راہ ہموار کرتے ہیں، تا کہ معاشرے میں فکری وسعت  پیدا ہو اور اس میں آگے بڑھنے کی جستجو انگڑائی لے سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جانور تک آگے کی طرف بڑھتے ہیں، مگر انسان کو پیچھے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ابتدائے آفرنیش سے دنیا میں دو طرح کے فکری رجحان ایک دوسرے کے ساتھ متصادم چلے آ رہے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو تقلید پر یقین رکھتے ہیں اور ہر تبدیلی کی مخالفت اور اس کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ انسانی نسل کا سماجی اور حیاتیاتی ارتقا فکری ارتقا کے ساتھ منطبق ہے۔ دنیا میں ایک طرف کوششیں کی جا رہی ہیں کہ مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم، تنگ نظر قوم پرستی، نسلی و لسانی عصبیت اور صنفی امتیازات کے تصورات کو ختم کیا جائے۔

انسانی حقوق، اعلیٰ انسانی اقدار اور آئین و قانون کی بالادستی کو تسلیم کیا جائے، جب کہ دوسری طرف ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو چھوڑیے ترقی یافتہ ممالک میں بھی بعض حلقے مذہبی منافرت، رنگ و نسل کا امتیاز اور لسانی عصبیتوں کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ایک طرف دنیا کے دانا و بینا افراد دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کو فروغ دینے پر زور دے رہے ہیں۔ دوسری طرف بعض طاقتور حلقے بندوق کی نال پر اپنے عقائد و نظریات کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا پھر عقیدے اورنسلی امتیاز کو فروغ دے کر اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں وقتی طور پر ارفع و اعلیٰ تصورات دم توڑ جاتے ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ تاریخ کا سفر آگے کی جانب بڑھتا رہتا ہے اور ارتقائی عمل جاری رہتا ہے، چاہے اس کی راہ میں کوئی کتنے ہی رخنے کیوں نہ ڈالے۔

اس نکتہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے سبط حسن مرحوم نے اپنی تحریروں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ترقی پسندی اور رجعت پرستی کے درمیان شروع ہی سے جدل چلا آ رہا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں ایسی شخصیات جنم لیتی رہی ہیں، جنھوں نے معاشروں کے فکری ارتقا میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کی کتابیں ماضی کے مزار اور موسیٰ سے مارکس تک میں اسی تصور کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہر دور میں باشعور انسانوں نے معاشرتی جمود کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی اور اس سلسلے میں صعوبتیں برداشت کیں۔ یونانی فلاسفر ہوں یا بابل و نینوا سے ابھرنے والی ہیمورابی کی آواز ہو، متوشش اہل دانش نے ہمیشہ معاشروں کو آگے کی طرف لے جانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

اس سلسلے میں معروف فلسفی کارل مارکس کا کہنا ہے کہ “Mode of production determines the social, political and intellectual life processes”۔ یعنی ذرایع پیداوار کسی معاشرے میں سماجی، سیاسی اور فکری رجحانات کا تعین کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نسل انسانی کی ذہنی، فکری اور شعوری ارتقا اور صدیوں کی جدوجہد کا نتیجہ صنعتی انقلاب کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جس نے بقول کارل مارکس یورپ کے پورے معاشرتی ڈھانچے کو تبدیل کر کے رکھ دیا، جب کہ وہ معاشرے جہاں پیداواری ذرایع تبدیل نہیں ہو سکے، آج بھی ماضی کے تصوارات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ سبط حسن مرحوم کی تحریروں نے معاشرے میں پائے جانے والے رجعت پسندانہ، بوسیدہ اور تعفن زدہ تصورات کی جگہ خرد افروزی، عقلیت پسندی اور روشن خیالی پر مبنی سوچ کو اجاگر کرنے کی شعوری کوشش کی۔ انھوں نے کل 12 کتب تحریر کیں، جن میں گیارہ اردو اور ایک انگریزی زبان میں ہے۔

ان کتابوں میں شہر نگاراں، موسیٰ سے مارکس تک، ماضی کے مزار، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، انقلاب ایران، نوید فکر، سخن در سخن، پاکستان کے تہذیبی وسیاسی مسائل، افکار تازہ، ادب اور روشن خیالی اور مارکس اور مشرق کے علاوہ انگریزی کتاب Battle of Ideas in Pakistan شامل ہیں۔ وہ متحدہ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہوئے۔ پاکستان آنے کے بعد انھوں نے لیل ونہار، نیا ادب اور پاکستانی ادب جیسے معتبر جرائد کی ادارت کی۔ آج سبط حسن مرحوم کو یاد کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان کی تحاریر کو نوجوان نسل میں عام کیا جائے، تا کہ خرد افروزی کی وہ شمع جو گل ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے، دوبارہ روشن ہو کر پورے معاشرے کو منور کر سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔