ہم کو ٹرمپ نے خط لکھا   (دوسرا حصہ)

نادر شاہ عادل  منگل 22 نومبر 2016

میرے خلاف غضب ناک حملہ برطانیہ کے موقر جریدہ ’’اکنامسٹ‘‘ نے 8 نومبر سے بہت پہلے5 ستمبر 2015ء کو کیا، اس نے تجزیہ کرتے ہوئے سرخی جمائی کہ ’’ٹرمپ کیوں خطرناک ہے؟‘‘َ پھر میری دھجیاں اڑائیں، میرا کئی زاویوں سے جائزہ پیش کیا، اکنامسٹ نے چن چن کر میری تقاریر کے وہ اقتباسات چھاپے جن میں، میں نے کہا تھا کہ امریکا ڈوب رہا ہے، کوئی شے ڈھنگ سے پیش نہیں کی جارہی، اوباما ٹیم بربادی کی علامت ہے۔

اس کی ہیلتھ کیئر اسکیم کو حقارت سے ٹھوکر مار کر دور پھینک دوں گا، امریکی خواب مرچکا (جریدے نے میرا مذاق اڑایا اور لکھا کہ ٹرمپ کہتا ہے وہ ضرور جیتے گا اور پھر خوب کمائی کرے گا)۔ اکنامسٹ کے نزدیک میری جیت امریکا سے مذاق کے مترادف تھی، کہا گیا کہ ٹرمپ جیسا بازی گر مسخرہ اور سپر پاور امریکا کا کمانڈر ان چیف۔ اف میرے خدا۔ اسقاط حمل، ماحولیات، یورپی تنازعات، گلوبل وارمنگ اور دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے میرے سارے مجوزہ و ممکنہ صدارتی اقدامات کا پھلکہ اڑایا، مگر رفتہ رفتہ میری انتخابی مہم نے دشمنوں کی نیندیں اڑا دیں۔

ترا ہاتھ ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے

مجھے سہل ہوگئیں منزلیں کہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے

(مجروح)

ادھر میرے اپنے امریکی میڈیا میں شور برپا تھا کہ ایک بے قابو توپ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوگئی ہے، بچاؤ، امریکا کو بچاؤ۔ مخالفین نے فرمایا ٹرمپ کو غلط فہمی ہے کہ وہ امریکی عوام کے غصے کو چینلائز کر سکتے ہیں جسے اشرافیہ نے نظر انداز کرکے فرسٹریشن کے شعلوں کی نذر کردیا ہے، جو سماجی عمل سے دور دھکیلے گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکا ایسے بے سمت و بے منزل لوگوں سے بھرا ہوا ہے جو ’’بدبخت‘‘ ٹرمپ کے دیوانے ہیں۔

میرے بارے میں اکنامسٹ نے لکھا کہ پاپولر ووٹ سے فلرٹ کرنے والے سیاست دانوں کو امریکا میں زیادہ عوامی پذیرائی نہیں ملی، بجز 1908ء کے ولیم جیننگز بائرن کے یا 1996ء میں ہمسشائر سے پیٹ بکانن اس نعرے کے ساتھ منظر عام پر آئے تھے کہ کسان درانتی لے کر آرہے ہیں، مگر ٹرمپ اس درانتی سے بھی زیادہ خطرناک ہے جس کے دو سبب ہیں، ایک، وہ ارب پتی بزنس مین ہے، اس کی انتخابی مہم کنگلی نہیں ہوگی، دوم، ان کے سامنے ڈھیر سارے ری پبلکنز ہار جائیں گے، لیکن دنیا اسے من مانی نہیں کرنے دے گی، ری پبلکن ہوش کے ناخن لیں، ایسے بڑ بولے دوسرے ملکوں میں بھی جیتے ہیں، خدارا! ٹرمپ کی جگہ دوسرا امیدوار لائیں۔ اکنامسٹ نے مجھ پر پھبتی کسی کہ جو میکسیکن کو نکال رہا ہے۔

جن کے بچے امریکی دھرتی پر پیدا ہوئے، پلے بڑھے، کیا ان کو جبراً ڈی پورٹ کرنا غیر قانونی نہیں؟ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی عجیب ہے، وہ داعش کو کرش کرے گا، واہ بھئی واہ۔ فوجیں بھیج کر عرب کے تیل کے کنوؤں پر قبضہ کرے گا، بہت خوب۔ اس کی خارجہ پالیسی پراپرٹیز کی آرٹ آف ڈیل سے ملتی جلتی ہے، ٹرمپ کی نرالی تھیوری یہ ہے کہ ہر وہ ملک جو امریکا سے بزنس کرتا ہے ہمیں لوٹ رہا ہے، کہتا ہے چین نے امریکا سے کمایا ہوا جو پیسہ باہر بھیجا وہ ہماری تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی ہے، امریکی اسی ڈکیت سے چینی مصنوعات خرید رہے ہیں، اب چینی درآمدات بند کرنے والا ٹرمپ بڑھکیں مار رہا ہے، ٹرمپ کا نیا امریکا جنوبی کوریا اور جاپان کی فوجی حفاظت کے نام پر مزید رقم مانگ رہا ہے۔ دیکھا آپ نے اکنامسٹ کیا کہہ رہا ہے، اس نے لکھا کہ ٹرمپ سیلف پروموشن کا جینیئس ہے، اس کی خوراک دو آتشہ مسالوں سے لبریز ہے، پھر اس کا یہ بھی مشغلہ ہے کہ لوگوں کی فنٹاسی سے لذت اٹھاتا ہے۔

مسٹر پاکستانی جرنلسٹ! مجھ سے یہ جھوٹا بیان بھی منسوب کیا گیا کہ میں نے جنوبی کوریا اور جاپان کو ایٹمی طاقت بننے کی شہ دی ہے، جب کہ ایسا میں سوچ بھی نہیں سکتا، میں نے امریکی داخلی و عالمی فوجی طاقت کی بحالی اور پہلے امریکا کا نعرہ دیا ہے، ذرا سا مستانہ ہے، میکسیکو کے ’’بدمعاشوں‘‘ کے لیے دیوار کی تعمیر اور 30 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے کے عزم پر قائم ہوں، اس میں غلطی کیا ہے؟ کیا آپ کا ملک افغان مہاجرین کو فاٹا سے نہیں نکال رہا؟ کیا کچھ افغانی نکالے نہیں گئے، کیا تارکین وطن نے پاکستان کو جرائمستان نہیں بنایا؟ پوری دنیا پناہ گزینوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے پریشان ہے، سمندر انسانی جانوں کو نگل رہا ہے، ہر آنکھ پر نم ہے۔

یورپی ممالک نے لاکھوں پناہ گزیں لے لیے ہیں، ان میں سے کچھ مسلم ملک کیوں نہیں لیتے؟ وہ بھائی چارہ کہاں گیا؟ یورپی ملکوں کی معیشت ڈانواں ڈول ہے، اگر میں چین سے اپنی فیکٹریاں اور آؤٹ سورسنگ کا سارا انفراسٹرکچر واپس لاکر امریکی بیروزگار نوجوانوں کو روزگار اور ہنرمند بنانا چاہتا ہوں تو اس میں میری خطا کیا ہے؟ مجھے جس امریکی نے ووٹ دیا ہے وہ فاقہ مستی کے دن گزار رہا ہے، امریکا پستیوں میں گرتا جارہا ہے، کیا اسے اوپر لانا جرم ہے؟ ایشین ٹائیگروں نے ایسا کرکے دکھایا ہے، مشرق وسطیٰ دلدل ہے، داعش بربریت کا نام ہے، اسے نہیں چھوڑوں گا، دہشتگردوں سے نمٹنے میں میرا ساتھ سب کو دینا ہوگا، مڈل ایسٹ میں نام نہاد روڈ میپ کی خالی خولی باتیں کافی نہیں، میں ہینکی پھینکی والا بندہ نہیں، امریکا کی بالادستی میرا ایجنڈا ہے، کسی کو منظور نہیں تو مجھے منظور کرانا آتا ہے۔ میں جارج بش نہیں ہوں کہ کوئی میرے منہ پر بش لگا کر چپ کرادے۔ اردو کے مشہور شاعر داغ کا شعر قدرے معذرت کے ساتھ سناتا ہوں۔

کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں

جلا کے خاک نہ کردوں تو ٹرمپ نام نہیں

ایک دوست نما دشمن نے کہا کہ ٹرمپ ایک عشرہ پہلے کہتا تھا میں ڈیموکریٹ لگتا ہوں، اب وہ ری پبلکن کے بہروپ میں ہے، اس کی اپنی ڈفلی اور اپنا راگ ہے۔ اکنامسٹ نے مجھے مبالغہ کرنے والا مزاحیہ شاعر کہا ہے۔ چلیے یوں ہی سہی، ہمارے جیسا دوسرا چارلی چپلن کوئی لائے تو سہی۔ میرا مذہب سے واجبی تعلق ظاہر کیا مگر پھلجھڑی چھوڑی کہ ٹرمپ بات ایسے کرتا ہے جیسے بائبل پرست ہے، پھر اچانک گفتگو کو اپنے بزنس کی جانب موڑ لیتا ہے جو اس کا مرغوب موضوع ہے، جس پر وہ سیکڑوں بے سروپا کتابیں لکھ سکتا ہے۔

پاکستان میں بھی میرے چاہنے والے اور مجھ سے ناخوش اہل فکر کی کمی نہیں، میں ٹھہرا جو رند خانہ خراب۔آپ کے ایک آن لائن پاکستانی جریدہ کا تبصرہ تھا کہ ٹرمپ کی کامیابی بولڈ برانڈنگ، انر ورکنگ اور شاطرانہ مارکیٹنگ کا نتیجہ ہے، کوئی لکھتا ہے ٹرمپ ایسا عیار بزنس مین ہے جو ارب پتی ہوکر کئی بار دیوالیہ ہونے کا ڈرامہ رچا چکا ہے، اس کی صدارت امریکی دیوالیے پن کی الم ناک تاریخ ہے جو اب لکھی جارہی ہے، لوگ کہتے ہیں کہ میڈم ہلیری نے ووٹ عوام سے لیے مگر ٹرمپ کے لیے الیکٹورل ووٹ کا جادو چل گیا۔ ملاحظہ کیجیے، میرے تاج صدارت پر کیسے کیسے القابات کی کلغی سجائی گئی، بڈھا ٹرمپ متعصب ہے، خواتین کی توہین کا مجرم ہے، مردانہ رعونت یعنی میل شاؤنزم کا بد رنگ بت ہے۔نامنظور نامنظور ، ٹرمپ ہمیں نامنظور۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔