فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک کیا ہوئی؟

آصف زیدی  اتوار 18 دسمبر 2016
محمود عباس فلسطینی حلقوں میں وہ مقبولیت حاصل نہیں کرسکے جس کی شاید انھیں توقع تھی۔ فوٹو : فائل

محمود عباس فلسطینی حلقوں میں وہ مقبولیت حاصل نہیں کرسکے جس کی شاید انھیں توقع تھی۔ فوٹو : فائل

فلسطین کی تحریک مزاحمت گذشتہ کچھ عرصے سے جمود کا شکار نظر آتی ہے، اگرچہ عام فلسطینی پوری ہمت اور استقامت کے ساتھ اسرائیل کے مظالم کا مقابلہ کررہے ہیں، مگر ان کی قیادت اس حوالے سے غیرفعال ہے، اس صورت حال کی کیا وجوہات ہیں؟ کالم نویس اور میڈیاکنسلٹنٹ ڈاکٹررمزے بارعود کا یہ مضمون ان وجوہات کا احاطہ کرتا ہے۔ ڈاکٹر رمزے بارعود بیس سال سے مشرق وسطیٰ پر لکھ رہے ہیں، ان کی بیس کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ ان کے مضمون کا ترجمہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔

جولائی 2003 میں فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین یاسر عرفات نے محمود عباس کو یہ کہہ کر غدار قرار دیا کہ اُس نے فلسطینیوں کے مفادات کو بھلادیا ہے۔ یاسر عرفات آخری وقت تک محمود عباس سے خوش نہیں تھے اور وہ موجودہ فلسطینی صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ 2003 میں یاسر عرفات نے محمود عباس پر شدید تنقید کی اور انھیں غدار قرار دیا، یہ سب امریکی سفیر ٹیرج لارسن Terje Larsenکے ساتھ ایک میٹنگ کے دوران ہوا۔ یاد رہے کہ یہ میٹنگ امریکا، اسرائیل اور دیگر مغربی قوتوں کی یاسر عرفات پر شدید نکتہ چینی کے چند ماہ بعد ہوئی تھی۔ امریکا اور مغرب نے محمود عباس کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیراعظم بنانے کے فیصلے کو انتہائی غلط قرار دیا تھا اور یاسر عرفات کو برا بھلا کہا تھا۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو محمود عباس ’’فتح ‘‘ تنظیم کے سربراہوں یاسر عرفات، ابوجہاد، ابولیاد و دیگر میں سب سے کم مقبولیت اور شہرت والے لیڈر شمار ہوتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مذکورہ تمام راہ نما قتل کیے گئے، سیاسی معاملات سے الگ تھلگ کردیے گئے یا اُن کی موت پراسرار انداز میں غیرفطری ہوئی۔ یاسر عرفات کے حوالے سے تو یہ تاثر عام ہے کہ انھیں اسرائیل نے کچھ فلسطینیوں کی مدد سے زہر دیا اور اب محمود عباس پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ یاسر عرفات کو کس نے قتل کیا یا کرایا۔

محمود عباس اور یاسر عرفات کے درمیان اختیارات کی جنگ گوکہ ظاہری طور پر یاسرعرفات کی نومبر 2004 میں وفات کے بعد ختم ہوگئی، لیکن محمود عباس فلسطینی حلقوں میں وہ مقبولیت حاصل نہیں کرسکے جس کی شاید انھیں توقع تھی۔

مسلسل تنقید کے باوجود یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اپنی غیرمقبولیت کے باوجود محمود عباس فلسطین میں متواتر اہم پوزیشنوں پر براجمان رہے ہیں، کئی بار ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے جیسے مقبولیت کم ہورہی ہے، ویسے ویسے ہی محمود عباس اختیارات کی طاقت حاصل کررہے ہیں۔ حال ہی میں 29 نومبر کو راملہ میں منعقدہ پارٹی اجلاس میں محمود عباس اپنی سیاسی جماعت ’’الفتح‘‘ کے دوبارہ سربراہ منتخب کیے گئے ہیں۔

81 سال کی عمر میں محمود عباس کے پاس الفتح کے سربراہ، فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) اور فلسطینی اتھارٹی کے قائد کے مناصب ہیں لیکن گذشتہ ماہ اُن کا پارٹی سربراہ کے طور پر دوبارہ انتخاب کے موقع پر طویل خطاب کسی کے لیے نیا نہیں تھا، کئی گھنٹے طویل جوش بھری تقریر میں انھوں نے امریکا اور اسرائیل کو اپنی تحریک کے حوالے سے بہت کچھ کہا لیکن کوئی ایسی بات نہیں کی جو اُن کے حامیوں اور مخالفین کے لیے نئی ہوتی۔ مبصرین کے مطابق فلسطین کی سیاسی تاریخ کی شاید سب سے پیچیدہ صورت حال میں محمود عباس عملیت پسندی اور حقیقت سے دور تقاریر سے موجودہ بحران کی شدت اور سنگینی کا بخوبی ادراک کیا جاسکتا ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی سیاسی بساط پر سرگرم اہم لوگوں میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا۔ کہا جارہا ہے کہ پارٹی سربراہ منتخب ہونے کی تقریب میں محمود عباس کے خطاب کے وقت تقریباً 1400  افراد موجود تھے اور جس طرح انھوں نے محمود عباس کی تقریر پر خیرمقدمی تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ الفتح پارٹی پر مختلف قبائل کا گہرا اثرورسوخ ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق آج الفتح پارٹی وہ نہیں جو قیام کے وقت تھی۔ ’’فتح ‘‘ کے بانی نوجوان، تعلیم یافتہ اور متحرک باغی تھے، جنھوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز بھی اٹھائی اور عملی میدان میں بھی سرگرم رہے۔ انھوں نے بہت سے انقلابی دستاویزی مواد سے استفادہ کیا، خاص طور پر وہ الجزائر میں فرانسیسی نوآبادیاتی نظام کے خلاف چلنے والی مزاحمتی تحریک سے بہت متاثر تھے۔

الفتح کے ایک سابق راہ نما ابولیاد نے اپنی یادداشتوں میں خود لکھا ہے کہ ’’الجزائر کی گوریلا جنگ نے ہمیں بہت متاثر کیا۔ ہم ان جنگ جوؤں کی ہمت و جرأت کے معترف تھے جو اپنے سے سوگنا زیادہ مضبوط فوج کے سامنے کھڑے ہوگئے تھے اور اپنے موقف پر قائم رہے، اُن کی خوبی یہ تھی انھوں نے مختلف عرب حکومتوں سے مختلف نوعیت کی مدد ضرور حاصل کی لیکن انھوں نے کبھی بھی خود کو کسی کا بالکل محتاج نہیں کیا۔‘‘

فلسطین میں بہت سے مسائل جاری ہیں۔ بحران سنگین ہورہا ہے اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلیوں کی آبادکاری کے اقدامات نے جلتی پر تیل چھڑک دیا ہے، لیکن فلسطینیوں کے لیے انتہائی مشکل حالات میں بھی الفتح کی زیادہ توجہ اسرائیل سے لڑنے کے بجائے، اُس کے مظالم کا سامنا کرنے کے بجائے محمود عباس اور اس کے اتحادیوں کی طاقت بڑھانے پر ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ الفتح جس مقصد کے لیے بنائی گئی تھی، موجودہ قائدین اُس مقصد کو پس پشت ڈال چکے ہیں یا ڈال رہے ہیں۔ اہم پارٹی عہدوں پر براجمان افراد ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے ، مختلف ذرائع سے بڑے مالیاتی فوائد و مراعات حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ الفتح کے سنیئر راہ نماؤں کی سبک دوشی کے بعد بھی محمود عباس کا کیا گیا اوسلو معاہدہ جوں کا توں ہے۔ الفتح سے محمد دہلان (Mohammed Dahlan)  کے گروپ کو نکال باہر کیا گیا ہے اور اب بھی یہ کوششیں جاری ہیں کہ کسی بھی طرح دہلان گروپ کی پارٹی میں واپسی کو روکا جائے۔

الفتح کی قیادت کس کو ملتی ہے، کون اس کا سربراہ منتخب ہوتا ہے ، کون اختیارات کی موجودہ جنگ میں ’’فتح‘‘ پاتا ہے؟ اس ساری صورت حال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ الفتح تنظیم کا زوال اب رک نہیں سکتا۔ محمود عباس اور محمد دہلان دونوں کو ہی اسرائیل کے خلاف نرم گوشہ رکھنے والا، امریکا کا حمایت یافتہ جبکہ فلسطینیوں میں انتہائی غیرمقبول سمجھا جاتا ہے۔

ستمبر 2015 میں کرائے گئے ایک سروے کے مطابق فلسطینیوں کی اکثریت (تقریباً 65 فی صد) چاہتے ہیں کہ محمود عباس مستعفی ہوجائیں۔ اسی سروے میں محمد دہلان نے صرف 6 فی صد، محمود عباس کے اتحادیوں صارب اراکات (Sarb Erakat) نے 4 فی صد جب کہ سابق وزیراعظم سلام فاید نے صرف 3 فی صد مقبولیت کے ووٹ حاصل کیے۔ اس سروے سے بھی الفتح کی موجودہ قیادت کی فلسطینیوں میں مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ بات اب حقیقت بن چکی ہے کہ اس وقت فلسطینیوں اور فلسطینیوں کی نمائندگی کرنے والوں کے درمیان بہت بڑی خلیج حائل ہے۔

29 نومبر کو الفتح کا سیاسی ڈراما حقیقت سے بہت دور تھا، تمام لوگوں نے محمود عباس کی حمایت میں ووٹ دیا جنھیں 2005 میں صرف ایک بار پارٹی سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن اس بات کو محمود عباس سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور نہ ہی ان کے اتحادی کہ جب الفتح کے تمام ارکان نے محمود عباس کو ووٹ دیا تو فلسطینیوں نے اُن کو یکسر مسترد کردیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ الفتح میں فلسطینیوں کی حقیقی نمائندگی نہیں اور اختیارات کی جنگ میں مصروف پارٹی قیادت فلسطینیوں کے جذبات و احساسات سے بالکل لاعلم ہے۔

فلسطینی روزانہ کی بنیاد پر صہیونی مظالم کا شکار ہورہے ہیں، یہودی بستیوں کی آڑ میں فلسطینی آبادیوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ اسرائیلی فوجی روزانہ فلسطینیوں کے گھر بار اجاڑ رہے ہیں، اُن پر یلغار کررہے ہیں اور خود محمود عباس کو بھی اسرائیلی عسکری حکام سے رابطہ کیے بغیر کسی بھی علاقے میں جانے کی اجازت نہیں، پھر بھی وہ حالات کی سنگینی سے خود کو لاتعلق کیے ہوئے ہیں۔

ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی خود بھی مختلف گروپوں، قبائل اور برادیوں میں بٹے ہوئے ہیں، کہیں سیاسی پسند و ناپسند ہے تو کہیں کرپشن کے معاملات جیسے مسائل کا کینسر صورت حال کو بری طرح خراب کررہا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی بنیاد پر فلسطینی کم زور ہوتے جارہے ہیں۔ مصالحت، اتحاد کی باتیں صرف لفظی نعرے بازیاں ہیں، سچائی یہ ہے کہ فلسطینی اسرائیلی جبر وستم کا مسلسل شکار ہیں اور اُن کی اپنی صفوں میں کوئی اُن کے لیے موثر طریقے سے آواز اٹھانے والا نہیں ہے۔

29 نومبر کی تقریر میں محمود عباس کو کم ازکم 300 بار خیرمقدمی نعروں کا تحفہ ملا لیکن اہم سوال یہ ہے کہ حاصل کیا ہوا؟ کیا محمود عباس نے اسرائیلی قبضہ ختم کرانے کا کوئی پلان سامنے رکھا؟ کیا فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی تدبیر سامنے آئی؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، حقیقت تو یہ ہے کہ حقیقی فلسطینی باشندوں نے محمود عباس کی تقریر کو کوئی اہمیت نہیں دی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔