جمہوریت کے ثمرات

شکیل فاروقی  منگل 20 دسمبر 2016
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

یوں تو ہمارے وطن عزیزکے سیاست داں آئے دن ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہوئے اور ایک دوسرے پرکیچڑاچھالتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر سچ پوچھیے تو یہ محض ایک ناٹک ہے جو بھولے بھالے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہے۔

دراصل یہ وہ نورا کشتی ہے جو جمہوریت کی آڑ میں کھیلی جا رہی ہے۔ ہمارے جمہوریت نوازوں کو عوام کی فلاح و بہبود سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک کی غالب اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اوربے روزگاری نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے انھیں اس سے بھی کوئی سروکار نہیں ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں بے آسرا اسٹریٹ چلڈرن کو سر چھپانے کے لیے سائبان اورپیٹ بھرنے کے لیے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔

ہمارے سیاسی رہنماؤں کو جمہوریت کی گاڑی کے پٹڑی سے اترنے کی فکر ہر آن اس لیے ستاتی رہتی ہے کہ کہیں ان کے ٹھاٹ باٹ نہ چھن جائیں اور وہ جمہوریت کی بہتی ہوئی گنگا میں ہاتھ دھونے سے محروم ہوجائیں۔ ہمارے قائدین جمہوریت کے ثمرات کا اکثر تذکرہ کرتے رہتے ہیں اور جمہوریت کی تعریفیں بیان کرتے ہوئے ان کی زبانیں نہیں تھکتیں۔ بہ ظاہر ہمارے سیاستدانوں میں ہزاروں اختلافات ہیں لیکن اپنے انفرادی اور اجتماعی مفادات کی حد تک یہ سب کے سب قطعی متفق ہیں۔ اس کا تازہ ترین ثبوت وفاقی کابینہ کا وہ حالیہ فیصلہ ہے جس کے تحت قانون سازوں (Law Makers) کی تنخواہوں میں بہ یک جنبش قلم 146 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے اور جس سے اختلاف کی کسی کو بھی توفیق نہیں ہوئی۔

حد تو یہ ہے کہ کسی نے اس بات پر اف تک نہیں کی اور یہ اعتراض بھی نہیں کیا گیا کہ ملک وقوم کو اس وقت کفایت شعاری کی شدید ضرورت ہے تاکہ قومی خزانے کو بوجھ پڑنے سے بچایا جاسکے۔ قومی خزانہ نہ ہوا مال غنیمت ہوگیا۔ یہ ان عوامی نمایندوں کا حال ہے جو عام انتخابات کے موقع پر ووٹ کو قوم کی امانت کہتے ہوئے نہیں تھکتے اور جو اسمبلیوں میں جاکر قوم کی خدمت کرنے کے فلک شگاف دعوے کرتے ہیں۔

افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا نے جو رائی کا پہاڑ بنانے کی شہرت رکھتا ہے، قومی خزانے کے ساتھ اس کھلواڑکو کوئی خاص اہمیت ہی نہیں دی اور محض واجبی سے تذکرے پر ہی اکتفا کرلیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کسی دینی جماعت سے تعلق رکھنے والے ممبران قومی اسمبلی نے بھی اس پرکوئی اعتراض نہیں کیا۔ گستاخی معاف، وطن عزیز کے میدان سیاست کے سب ہی شہ سوار ماشا اللہ کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جس کی تفصیلات بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ گویا جیسی شکل ع کی ویسی ہی غ کی، صرف ایک نقطے کا فرق ہے۔ کوئی صنعت کار ہے تو کوئی زمیندار اور جاگیردار۔ رہی بات سیاست کی تو ان لوگوں کے نزدیک یہ ایک کاروبار ہے۔ جو الیکشن میں جیت گیا سمجھیں اس کی لاٹری نکل آئی۔

چلے بھی آؤکہ گلشن کا کاروبار چلے

سب سے بڑی ستم ظریفی ہمارا موجودہ سیاسی نظام ہے جس کی ساخت ہی ایسی ہے کہ بے چارہ عام آدمی خدمت خلق کے سچے جذبے سے سرشار ہوکر اس میدان میں قدم ہی نہیں رکھ سکتا۔ اگرچہ بہ ظاہر اس کے لیے بھی راستہ کھلا ہوا ہے لیکن وہ اس کے تقاضے پورے کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ بالفرض محال اگرکوئی بھلامانس کسی طرح اس میدان میں داخل ہونے میں کامیاب بھی ہو جائے تو اس کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز کے مترادف ہوگی یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بھی نمک کی کان میں جاکر نمک بن جائے۔

قانون سازوں کی تنخواہوں میں بے تحاشا اضافہ کرکے ہماری وفاقی کابینہ نے عملاً یہ ثابت کردیا ہے کہ:

بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے

یعنی یہ کہ قومی خزانہ سب کی اجتماعی ملکیت ہے جسے سب مل بانٹ کر اپنی مرضی کے مطابق اپنے تصرف میں لاسکتے ہیں اورکسی کی مجال نہیں کہ اس پر انگلی اٹھا سکے۔ مال مفت دل بے رحم۔ واہ! یہی ہیں جمہوریت کے ثمرات۔

ہر سال جب غریب سرکاری ملازمین اورپنشنرزکے معاوضوں میں اضافے کا سوال آتا ہے تو ہماری وزارت خزانہ کے کرتا دھرتا خزانہ خالی ہونے اورخزانے پر بوجھ پڑنے کا بہانہ تراشنے لگتے ہیں اور ’’موت کی دھمکی دو تاکہ بخار پر راضی ہوجائے‘‘ والا حربہ استعمال کرتے ہوئے کبھی 7 فیصد یا 10 فیصد اضافے پر ٹرخا دیتے ہیں اور وہ بھی اس انداز میں جیسے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی ہو۔

سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم

بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے

اس ظالمانہ دہرے معیارکا نہ کوئی قانونی جواز ہے اور نہ اخلاقی۔ سچ پوچھیے تو یہ سراسر زیادتی اور کھلم کھلا بے انصافی ہے۔

ممبران اسمبلی کی تنخواہوں میں بلاروک ٹوک 146 فیصد اضافہ ہمارے جمہوری نظام کا سب سے بڑا چمتکار ہے۔ اس شان دار فیصلے پر اپنے اور بے گانے سب ہی برابر کے خوش ہیں۔ عوام کی خون پسینے کی اس کمائی میں سب نے بخوشی اپنا اپنا حصہ قبول کرلیا ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ آخر ہمارے تمام سیاستدانوں کو جمہوریت کی دیوی سے اس قدر عقیدت اور محبت کیوں ہے اور وہ اس پر دل و جاں سے کیوں اتنے فریفتہ ہیں۔

ایک طرف ہمارے پارلیمان کے ارکان جمہوریت کے مزے لوٹنے میں محو ہیں تو دوسری جانب ملک کے غریب اور مفلس عوام روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی چکی میں دن رات بری طرح پسے چلے جا رہے ہیں۔ سب سے برا حال محدود آمدنی والے طبقات کا ہے جنھیں اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے۔ اس صورتحال سے نت نئے معاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں اور بے بس اور لاچار درمیانے طبقے کے افراد مختلف امراض بالخصوص نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں جن کی کیفیت یہ ہے کہ:

نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے

گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے

گھریلو تنازعات اور خودکشی کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ اس انتہائی گمبھیر صورتحال کی عکاسی کر رہا ہے۔ سب سے زیادہ برا حال کم تنخواہ پانے والے ملازمین اور پنشنرز کا ہے جن کی ماہانہ آمدنی روز بروز بڑھتی ہوئی گرانی کے مقابلے میں مسلسل گھٹ رہی ہے۔ نجی بینکوں سے ریٹائر ہونے والے ملازمین کی حالت فوری توجہ کی مستحق ہے کیونکہ ان بے چاروں کی پنشن میں گزشتہ دو عشروں سے کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ان میں وہ ہزاروں پنشنرز بھی شامل ہیں جن کی پنشن اتنی قلیل ہے کہ چند روز کا گزارہ بھی ممکن نہیں ہے۔

پانچ بڑے نجی بینکوں میں سے چار ایسے ہیں جن میں ریٹائرڈ ملازمین کے لیے پنشن اسکیم کی سہولت میسر ہے۔ دیگر بینکوں کے مقابلے میں سرکاری شعبے کے سب سے بڑے بینک کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن پر اگرچہ وقتاً فوقتاً نظرثانی ہوتی رہی ہے تاہم ان کی پنشن میں بھی باقاعدگی سے اضافے کی ضرورت ہے۔ بینک پنشنرز کی غالب اکثریت 80 فیصد کا تعلق اسی بینک سے ہے۔ دیگر نجی بینکوں سے تعلق رکھنے والے بقیہ 20فیصد پنشنرز بینک انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تمام بینکوں کے اعلیٰ عہدیداروں کو نہ صرف بڑے بڑے بھاری مشاہرے ملتے ہیں بلکہ بے تحاشا مراعات بھی حاصل ہیں۔ نچلے درجے کے بینک ملازمین اور اعلیٰ ملازمین کی تنخواہوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے جو سراسر زیادتی اور بے انصافی کے مترادف ہے۔

لیکن بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے اس کٹھن دور میں کچھ بھی نہ ہونے سے تھوڑا سہارا بھی غنیمت ہے تاکہ انسان کو کسی غیر کے آگے دست سوال دراز نہ کرنا پڑے اور عزت سادات کسی بھی طور محفوظ رہ جائے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ پاکستان بینکنگ محتسب کا ادارہ نجی بینکوں کے ریٹائرڈ ملازمین کی کس حد تک مدد کرسکتا ہے اور ان کے مسائل کے حل میں کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔ دریں اثنا یہ خبر خوش آیند و امید افزا ہے کہ صدر مملکت ممنون حسین نے ریٹائرڈ بینک ملازمین کے حالات پر تشویش ظاہر کی ہے جس کے بعد وزارت خزانہ نے ان کی پنشن پر نظرثانی کے لیے بینک دولت پاکستان سے رجوع کیا ہے۔ کاش جمہوریت کے بچے کچھے ثمرات بے چارے عوام کو بھی میسر آجائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔