سال 2016ء مضبوط ترین صنف کا سال

اگر یہ گوہر نایاب اِس پاک دھرتی میں نمودار نہ ہوتے تو ہمارے ملک کی پہچان عالمی اُفق پر یوں نہ اُبھرتی۔

اِس برس بھی پاکستانی خواتین نے اعلیٰ تعلیمی قابلیت، بہترین صلاحیت اور عملی ذہانت کے اظہار سے ثابت کیا کہ دنیا کا کوئی بھی شعبہ ہو، خواتین کی نمائندگی کے بغیر ادھورا ہے۔

سال 2016ء بس ہم سے رخصت ہونے کو ہے، اِس برس کیا کھویا اور کیا پایا، اِس طویل بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم ملک کی صرف اُس آبادی کا ذکر کرتے ہیں جن کے بغیر تصویر کائنات میں رنگ تک ممکن نہیں۔ سال کے گزرتے ہوئے آخری ہفتے میں ایک جیسی دو خبروں نے ہلا کر رکھ دیا، جسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج کے گھر میں ملازمت کرنے والی دس سالہ بچی طیبہ پر تشدد کے واضح ثبوت ملے ہیں۔ میڈیکل رپورٹ گواہ ہے کہ ملازمہ کو بُری طرح مارا پیٹا گیا، متاثرہ بچی نے بتایا کہ گھر میں استعمال ہونے والی جھاڑو مل نہیں رہی تھی جس پر مالکان کو غصہ آگیا۔ ملازمہ بچی کے ہاتھ جلائے گئے اور آنکھ پر بھی گہرے زخم واضح ہیں۔ دوسری بچی لاہور کی لیڈی ڈاکٹر کے تشدد کا نشانہ بنی۔ کیا حوا کی بیٹی نے جنم اس لیے لیا؟ یہ واقعات نئے نہیں، ہم انہی روایات کے ساتھ نئے سال میں قدم رکھ رہے ہیں۔ دنیا میں ہر سطح پر خدمت کے لیے حاظر یہ حوا، ہر جگہ ہر صورت سمجھوتہ کرنے پر مجبور یہ صنف اگر نازک ہے تو اس کی حرمت کو پسِ پشت کیوں ڈال دیا گیا؟ کیا خطا کا پتلا صرف مرد کی ذات ہے؟ کیا کسی عورت یا بچی سے معمولی سی کوتاہی پر نمٹنے کا یہ انداز درست ہے؟

تو جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صنف نازک صرف ظلم اور جبر برداشت کرنے یا زیادتیاں سہنے کے لیے پیدا ہوئی ہے، کیوں نہ ایسے لوگوں کے لیے کچھ ایسی خواتین کا ذکر کیا جائے جن کی بقاء پر ہمیں فخر ہے، جن کے وجود پر وطن کو ناز ہے۔ اگر یہ گوہر نایاب اِس پاک دھرتی میں نمودار نہ ہوتے تو ہمارے ملک کی پہچان عالمی اُفق پر یوں نہ اُبھرتی، اور اُن کی کامیابیوں کی بازگشت یوں نہ سنائی دیتی۔ دنیا کی تاریخ پر ان مٹ نقوش چھوڑنے والی خواتین کی بات کرتے ہیں تو صنف نازک ہونے کی حیثیت سے میرا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔ پاکستانی خواتین نے اِس برس بھی روایت برقرار رکھی اور اپنی اعلیٰ تعلیمی قابلیت، بہترین صلاحیت اور عملی ذہانت کے اظہار سے ثابت کیا کہ دنیا کا کوئی بھی شعبہ ہو، خواتین کی نمائندگی کے بغیر ادھورا ہے۔

ذکر فلم کی نگری کا ہو یا بات ٹی وی اسکرین کی، کوئی منظر اُن کی موجودگی سے خالی نہیں۔ ہدایتکاری سے لے کر اداکاری تک پاکستان کے کئی نام اپنی انفرادی شناخت کے باعث پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح پر لیے جارہے ہیں۔ دو آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے نے حال ہی میں ایک اور اعزاز حاصل کرکے پاکستان کا نام روشن کیا۔



دستاویزی فلم 'اے گرل ان دی ریور' نے 'الفریڈ آئی ڈو پونٹ کولمبیا یونیورسٹی ایوارڈ' اپنے نام کیا۔ شرمین عبید نے دستاویزی فلموں کے ذریعے خواتین کے مسائل اُٹھائے، اور سچ پوچھیے تو ایک عورت ہی کسی عورت کا درد سمجھ سکتی ہے، اُسے بیان کرسکتی ہے۔ خواتین کے حقوق کے سلسلے میں اُن کی جدوجہد جاری ہے۔ اِس برس گلوکاری کے شعبے میں شہرت حاصل کرنے والی مومنہ مستحسن کی بات کرتے ہیں۔



ناقدین کا کہنا ہے کہ مومنہ نے راحت فتح علی کے گانے کے ساتھ انصاف نہیں کیا، لیکن مثبت انداز میں دیکھا جائے تو نئی نسل کا گلوکاری کی مشکل ترین صنف کا انتخاب کرکے گانا بھی قابلِ داد ہے۔ اداکاری کے شعبہ میں ماہرہ خان گزشتہ برس کی طرح اِس سال بھی چھوٹی اور بڑی اسکرین پر چھائی رہیں۔ ماہرہ جلد ہی پڑوسی ملک کے فلمی پردے پر بھی نظر آئیں گی۔



2016ء میں ٹی وی اسکرین پر خواتین کے کردار مرکزی خیال بنے رہے اور اُن کو بیان کرنے والی بھی خواتین ہی تھیں۔ بشری انصاری کا تحریر کردہ ڈرامہ 'پاکیزہ' مقبول ہوا۔ فرحت اشتیاق کے قلم سے اڈاری کی کہانی تخلیق کی گئی۔ سمیرا فضل کے تحریر کردہ ڈرامے من مائل کو عوام کی بڑی تعداد نے سراہا۔ معیاری تحریر کا ذکر ہو تو ہم اُن کو کیسے بھول سکتے ہیں جو اِس برس فروری میں ہمیں الوداع کہہ گئیں۔



علم و ادب سے وابستہ معروف نام فاطمہ ثریا بجیا کے بہترین ڈرامے اور ناولز کوئی نہیں بھول سکتا۔



ماہِ اگست میں بلیک اینڈ وائٹ پردہ پر راج کرنے والی نامور فلمی ہدایت کارہ اور فنکارہ شمیم آراء گزر گئیں۔



تنازعات کی آگ میں جلنے والی قندیل رواں سال جولائی میں بجھا دی گئی۔ ایک قندیل تو بجھ گئی مگر ملک کی ان گنت غیر محفوظ خواتین کے دلوں میں تحفظ کے ارمان کا دیا جلا گئی۔



بہت سے غیر معروف نام میڈیا پر آتے ہیں، خبروں کی زینت بن کر نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ اِس برس خاتون سماجی رہنما سبین محمود کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی اچھی خبر بھی ملی۔



شہرِ قائد کو یتیم کر جانے والے ایدھی صاحب کی رحلت کے بعد اُن کی بیوہ محترمہ بلقیس ایدھی نے اِس مشن کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ہزاروں یتیموں کی ماں بن کر فلاحی ادارہ اسی انداز میں چلانا، آسان نہیں، مگر یہ عورت کبھی وقت کے آگے ہار نہیں مانتی اور نہ نامساعد حالات سے گھبراتی ہے۔



پاک بحریہ اور پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی آئی اے) میں تاریخ رقم کرنے والی ذکیہ جمالی نے بطور کمیشن آفیسر پاک نیوی اور دو بہنوں مریم مسعود اور ارم مسعود نے بطورِ معاون پائلٹ شمولیت اختیار کرکے ثابت کردیا کہ غربت کامیابی کے راستے میں ذرہ بھر رکاوٹ نہیں۔






خاتون پائلٹ کے ذکر نے شہید فلائنگ آفیسر مریم مختیار کی یاد تازہ کردی جنہوں نے گزشتہ برس دنیا کو الوداع کہا تھا۔



پاکستانی خواتین کے چٹانوں جیسے حوصلے اور بلند عزائم محض خواب نہیں، بلکہ اِن خوابوں نے حقیقت کا روپ بھی لیا۔ تمام بلند ترین پہاڑی چوٹیاں سر کر لینے والی کوہ پیما ثمینہ بیگ کو ماہِ اکتوبر میں گلگت بلتستان میں خدمات سرانجام دینے والے ٹیلی کام ادارے ایس سی او نے اپنا سفیر مقرر کردیا۔ ثمینہ بیگ کا شمار عالمی سطح پر بلند ترین چوٹیاں سر کرلینے والے کوہ پیماوں میں ہوتا ہے۔



پاکستانی شوٹر مناہل سہیل نے برازیل میں اولمپکس مقابلوں کے دوران چار سو تیرہ اعشاریہ دو پوائنٹس اپنے نام کئے اور دونوں بھارتیوں کو مات دیتے ہوئے چودہویں پوزیشن حاصل کی۔



نوجوان پاکستانی فٹ بالر، ویمن ٹیم کی اسٹرائیکر شاہ لائلہ بلوچ اکتوبر میں بدقسمتی سے کار حادثے میں جاں بحق ہوگئیں۔ بہادر اور نڈر ہونے میں بھی پاکستانی خواتین کا کوئی ثانی نہیں۔



خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی پاکستان بلکہ ایشیاء کی پہلی خاتون رافعہ قسیم بیگ پاکستان کی خدمت کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کی خواہشمند ہیں۔ رافعہ قسیم بیگ نے بم ڈسپوزل کی تربیت حاصل کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرکے ثابت کردیا کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف خواتین بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرسکتی ہیں۔



اِسی سال ماہِ اکتوبر میں وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگ زیب نے عہدہ سنبھالا اور ایوان میں خاتون وزیر کی حیثیت سے اپنی جگہ بنائی۔ گویا ایوان سے لے کر ٹیکسی ڈرائیور ہونے تک پاکستان میں خواتین اپنی صلاحیتوں کو منوا چکی ہیں۔



پاکستانی خواتین کے حوصلوں اور کامیابیوں کی داستان طویل ہے۔ وقت ہے کہ معاشرے اور اُس کے افراد خواتین کو نہ صرف قبول کرلیں بلکہ اِس حقیقت سے بھی نظریں نہ چرائیں کہ صنف نازک محض سجا سنوار کر رکھنے کی شہ نہیں۔ مان لیں کہ اُن کی کوششوں سے عالمی سطح پر ملک کا نام روشن اور پرچم سر بلند ہوا۔ دنیا نے ہماری قابلِ فخر خواتین کی خدمات کے بدلے انہیں اعلی اعزازات سے نوازا ہے۔ تو کیا بُرا ہے کہ یہ اپنے ہی وطن کی نمائندگی تو کرتی آرہی ہیں۔

یہ منیبہ مزاری ہے۔ جس نے معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا۔



آج کی عورت کم عمر ذہین نورینہ شاہ ہے جوو ستاروں اور سیاروں کا علم جانتی ہے۔



بے شک ہمارا ملک ان کرنوں کی مدد سے عالمی فلک پر نمودار ہوکر تادیر چمکتا رہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story