ساس… بڑی خاص!!

شیریں حیدر  ہفتہ 31 دسمبر 2016
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کرب کے سمندر میں غوطے کھا کر… زندگی اور موت کے امتزاج کے باریک دھاگے پر چل کر ایک نئی جان جنم لیتی ہے، ماں کے سارے وجود سے شکر گزاری کی آہ نکلتی ہے کہ اس نے جنگ جیتی لی، جیسے محاذ جنگ پر ہر لڑنیوالے کو علم ہوتا ہے کہ اس کے نصیب میں کوئی ایک لقب ہو گا، غازی یا شہید، اسی طرح ایک نئی زندگی کو جنم دینے کی تک و دو میں مبتلا عورت، اس جنگ کے اختتام پر یا ماں کہلائے گی یا مرحومہ!! ماں بن کر اپنے بچے کے لمس کو محسوس کر کے اس کے وجود میں تراوٹ اتر جاتی ہے، ا پنے نصیب کے رزق میں سے اس کا حصہ اسے دے کر اسے اپنی طاقت سے سینچتی اور پروان چڑھاتی ہے، اسے اپنے ساتھ سلاتی اور اس کے ساتھ راتیں جاگتی ہے- اسے رات کو سکون سے سلانے کے لیے اٹھ اٹھ کر دیکھتی ہے کہ کہیں وہ بے چین تو نہیں-

ہر نئے دن میں اس کے حوالے سے نت نئے خواب دیکھتی ہے، سوچتی ہے کہ وہ کب اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے گا، اس کی ایک مسکراہٹ پر وہ واری واری جاتی ہے… کب اس کی طرف آنکھیں کھول کر دیکھے گا، کب بولے گا، اس کی بے معانی غاؤں غاؤں سے وہ خود ہی کئی معنی اخذ کرتی ہے… وہ پہلا لفظ ’’ماں‘‘ بولتا ہے تو اس کی روح تک سرشار ہو جاتی ہے، وہ بیٹھنا شروع کرتاہے تو اس کا سہارا بن جاتی ہے، وہ کھڑا ہوتا ہے تو اسے دنیا کے سامنے کھڑے ہونے کے چیلنج کے لیے تیار کرنے کا سوچنا شروع کر دیتی ہے، وہ چلتا ہے تو اس کی راہ کی رکاوٹیں بھاگ بھاگ کر ہٹاتی ہے-

ا س کی دعاؤں میں برکت اور قبولیت ہوتی ہے تو اس کے سجدے طویل ہو جاتے ہیں، لگتا ہے کہ وہ اسی وقت سراٹھائے گی جب اس کی دعا قبول ہو جائے گی، اس کے بچے کی صحت خراب ہو تو ماں کا سکون برباد ہو جاتا ہے۔ ا س کا بس نہیں چلتا کہ وہ اپنے لہو کا آخری قطرہ تک اس پر نثار کر دے جس کے وجود میں اس کا سکو ن ہے- امتحان بچے کا ہوتا ہے… دل ماں کا کانپتا ہے، آزمائش اولاد پر آتی ہے توماں اس کی سرخروئی کی خاطر جان پر کھیل جاتی ہے-

اس کے تعلیمی مراحل میں ماں ہر مرحلے پر اس کے ساتھ ہوتی ہے، اس کی پڑھائی اور اس کی ترقی کے ایک ایک ریکارڈ کو سنبھال سنبھال کر رکھتی ہوئی، اس کی کامیابیوں کی تشہیر کرتی… اس کی کمزوریوں کو چھپاتی اور اسے ان پر قابو پانے کے گر سکھاتی ہوئی، اس کے گھر سے نکلتے سمے اس پر آیات پڑھ پڑھ کر پھونکتی ہوئی، اس کے خیریت سے گھر لوٹ کر آنے تک جلے پاؤں کی بلی کی طرح پھرتی ہوئی، اس کے خوشی میں اس کے صدقے دیتی اور غم میں تڑپ اٹھنے والی-

ایسا نہیں کہ اولاد سے محبت صرف ماں کرتی ہے اور باپ نہیں کرتا، والدین کے لیے اولاد اپنی دنیاوی دولتوں میں سب سے پیاری چیز ہے…

اپنے بیٹے کے جوان ہوتے ہی کھلی اور بند آنکھوں سے اس کے سر پر سہرا سجانے کے خواب دیکھنا شروع کر دیتی ہے… پھر اس کی زندگی میں وہ دن آتا ہے جس دن وہ بیٹے کے ساتھ بیاہ کر ایک لڑکی کو گھر لے کر آتی ہے… اس روز ایک ماں سے ساس کے عہدے پر فائز ہو جاتی ہے، اپنے بیٹے کی ماں اور اس کی بیوی کے لیے بھی ماں جیسی کہ جو اس کے بیٹے کی بیوی بن کر اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر، ارمانوں کو دل میں سجائے اپنے سسرال کی دہلیز پار کرتی ہے – اپنا میکہ چھوڑنے کا دکھ دل کی تہوں میں دفن ہو جاتا ہے جب وہ اپنی سسرال میں توجہ اور پیار پاتی ہے مگر ایسا نہیں کہ اسے میکہ بھول جاتا ہے، اسے اس کے لیے بہت کوشش کرنا پڑتی ہے، ایک ایسے ناتواں پودے کی طرح جسے اس وقت ایک جگہ سے اکھیڑ کر دوسری جگہ لگا دیا جائے جب وہ پورا پروان چڑھ چکا ہو-اپنی سسرال میں جس شخصیت کو سب سے زیادہ مشکل سمجھتی ہے وہ اس کی ساس ہے، کیونکہ اس گھر میں آنے سے پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ ’’ساس‘‘ نام کا ایک عفریت اس گھر میں ہو گا جس سے بچ کر رہنا، کاش کوئی اسے یہ بتائے کہ اسے اس سے بچ کر نہیں بلکہ اس کے ساتھ مل جل کر رہنا ہو گا… شادی بیاہ کے گانوں اور ٹپوں میں ساس کو ’’سس کٹنی‘‘ ، ’’سس کپتی‘‘ اور’’ساس، چولہے کی راکھ‘‘ جیسے الفاظ کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے تو ان بیاہی جانے والی لڑکیوں کے ذہنوں میں ایک منفی تاثر پیدا ہوتا ہے اور اپنی نئی زندگی کا آغاز اسی سوچ کے ساتھ کرتی ہے… شوہر سے تو پیار ہو جاتا ہے مگر اس کی ماں سے نہیں ہو پاتا کیونکہ وہ اس کی ہر بات کا اپنی ماں کی باتوں سے موازنہ کرتی ہے-

ساس… اپنی ارمانوںسے بیاہ کر لائی ہوئی بہو کو ایک دن میں ہی اپنا دشمن سمجھنا شروع کر دیتی ہے جو کہ اس سے اس کا بیٹا چھیننے کے لیے آئی ہے… وہ بیٹا جس کے حوالے سے اس نے اس کے بیاہ سمیت کئی خواب دیکھے تھے- ہم سب عمر کے مختلف حصوں میں نئے لوگوں کو نئے رشتوں کے ساتھ اپنی زندگیوں میں ایڈجسٹ کرتے اور ان کے حصے کا پیار، توجہ اور احترام انھیں دیتے ہیں، ایک عورت بھی اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں، پھر شوہر، اس کے بعد اپنے بچے، پھر ان کے بچے اور ان سے وابستہ تعلق، دوستیوں اور رشتوں کے بچے… سب کو گزرتے وقت کے ساتھ اپنی زندگی میں جگہ دیتی جاتی ہے اور ان کے لیے اس کے دل کے خانوں میں محبت بھی ہوتی ہے تو بیٹے کے حوالے سے زندگی میں شامل ہونے والی اس ہستی سے مختلف برتاؤ کیوں ہوتا ہے؟؟

ہمارا ادب ماں کی عظمت کے ذکر سے بھرا پڑا ہے مگر جہاں یہ ماں ساس میں بدلتی ہے اس کے لیے جو الفاظ بولے اور لکھے جاتے ہیں، وہ سخت اور منفی ہیں، وہ بھی تو ماں ہے!!

جہاں ہمارے ہاں لفظ ساس کو منفی مطالب کا لفظ سمجھا جاتا ہے وہیں اس کے دل میں بھی بہو کے حوالے سے منفی تصورات ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں کہانیوں، ناولوں اور ڈراموں میں بہوؤں کو بھی سازشی، مغرور اور چالاک دکھایا جاتا ہے- اس رشتے کی خوبصورتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ باقی رشتوں میں خونی رشتے ہوتے ہیں یا دوستی اور غرض کے مگر یہ ایک رشتہ ہے جس کی بنیاد اللہ اور اس کے رسول کو گواہ بنا کر رکھی جاتی ہے اور اس رشتے سے دلوں میںمحبت اللہ تعالی پیدا فرماتے ہیں، زوجین کے مابین قربت اور محبت کا خوبصورت تعلق چند سالوںمیں دنیا کے تمام رشتوں کو اس رشتے کے سامنے ماند کر دیتا ہے ، اسی رشتے سے دنیا اور نسل انسانی کا نظام چلتا ہے-

اگر بہوئیں ذرا سی پیش بین ہوں ، چند برس آگے کا سوچیں، وقت کا پہیہ تو مسلسل اور تیز رفتار سے گردش میں ہے، وہ بھی چند برس کے بعد اس جگہ کھڑی ہو گی جہاں آج اس کے شوہر کی ماں ہے اور اپنے کرموں کی فصل انسا ن دنیا میں بھی کسی نہ کسی طرح کاٹتا ہے صرف ہم سمجھ نہیں پاتے-

ساسوں کے لیے آسانی ہے کہ وہ چند برس پیچھے دیکھیں… جب وہ بہوتھیں، ان کی عمر کم تھی- نا تجربہ کاری کے باعث انسان سے چھوٹی موٹی غلطیاں ہو جاتی ہیں مگر انھیں معاف کرنے کا ظرف ہونا چاہیے… ان کے گھر میں ان کے بیٹے سے بیاہ کر آنے والی بچی ایک مختلف نظام سے ان کے خاندان کے نظام میں آتی ہے، پہلے دن سے اس سے توقعات کرنے کے بجائے اگر اسے اس خاندان میں گھل مل جانے میں مدد کرے تو ان کا گھر جنت کا نمونہ بن جائے- بات بے بات، ’’ہماری ساس تو ہمارے ساتھ ایسا کرتی تھیں!!‘‘ یا ’’ہم تو اتنی اچھی بہو تھے…‘‘ جیسے فقرے نہ بولیں کہ اگر آپ کی ساس نے تیس سال پہلے آپ کے ساتھ کچھ ایسا کیا تھا جس کی تلخ یاد آپ کو ابھی تک ستاتی ہے تو اس میں اس لڑکی کا تو کوئی قصور نہیں… اگر اچھی بہو تھیں تو اب اچھی ساس بھی بن کر دکھائیں-

ہم اسی لیے خانگی جھگڑوں میں مصروف ہیں کہ ہم نے پڑھ لکھ تو لیا مگر ہمارے ذہنوں کا اس تعلیم نے کچھ نہیں بگاڑا، ہماری سوچیں ہماری تربیت کی عکاس ہوتی ہیں چاہے ہم کتنی بھی تعلیمی ڈگریاں حاصل کر لیں، دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی ہے اور ہم اپنے گھروں کے ان چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں- پیارے پیارے رشتے، دل بڑا کر کے نبھائے جا سکتے ہیں، عزت اور احترام کروانے کے لیے عزت اور محبت دینا لازم ہے، ساس کو ماں جیسا یا بہو کو بیٹی جیسا سمجھنا ضروری نہیں… ساس کو اپنی ماں سے بڑھ کر قابل احترام بھی سمجھا جا سکتا ہے اور بہو کو اپنی بیٹیوں سے بڑھ کر عزیز بھی کہ بیٹیاں اپنے گھروں میں شاد آباد رہیں، آپ کی زندگی اسی بیٹی کے ساتھ گزرنا ہے اورآپ کا نام اور نسل اسی کے حوالے سے-

اللہ تعالی ہم سب کو اچھی ساسیں اور بہوئیں بننے کی توفیق عطا فرمائے… آمین!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔