وقت کے ساتھ چلتی ہوں، مستقبل کی کوئی فکر نہیں، سوفی چودھری

عامر شکور  پير 31 دسمبر 2012
ایک فن کار کے لیے اس کے فن کی ستائش ہی سب کچھ ہوتی ہے، سوفی چودھری  فوٹو : فائل

ایک فن کار کے لیے اس کے فن کی ستائش ہی سب کچھ ہوتی ہے، سوفی چودھری فوٹو : فائل

 بھارتی شوبز انڈسٹری میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں تاہم کچھ فن کار باصلاحیت ہونے کے باوجود اپنا جائز مقام حاصل نہیں کرپاتے اور ان سے کہیں کم صلاحیت رکھنے والے فن کار آگے نکل جاتے ہیں۔

سوفی چودھری بھی ایسے ہی فن کاروں میں سے ایک ہے جو مختصر عرصے کے لیے شوبز کے افق پر نظر آئے اور پھر بے انتہا باصلاحیت ہونے کے باوجود پس منظر میں چلے گئے۔ سوفی ایک خوش گلو گائیک ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی عمدہ اداکارہ بھی ہے۔ اس میں ٹیلی ویژن پروگراموں کی میزبانی کرنے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے جس کا مظاہرہ وہ ایم ٹی وی پر کرچکی ہے۔

تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کو لیا جائے تو اس معاملے میں غالباً بولی وڈ کی کوئی بھی اداکارہ اور گلوکارہ اس کی ہم سری نہیں کرسکے گی۔ بھارتی نژاد برطانوی حسینہ نے لندن اسکول آف اکنامکس سے یورپی سیاست میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ سے گولڈ میڈل حاصل کرنے کے بعد اس نے پیرس کے انتہائی معروف تعلیمی ادارے Sciences Po میں دو سال گزارے۔ سوفی کو مختلف زبانیں سیکھنے کا بھی بے حد شوق ہے۔ اسے انگریزی، ہندی، اردو، پنجابی، فرانسیسی، اطالوی، ہسپانوی اور عربی پر عبور حاصل ہے اور وہ ان زبانوں میں گائیکی کا مظاہرہ بھی کرتی ہے۔

سوفی کو رقص کی کئی اقسام میں بھی مہارت حاصل ہے جن میں کلاسیکی بھارتی رقص جیسے بھرت ناتیم اور کتھک، اور مغربی رقص جیسے سالسا شامل ہیں۔ اس نے کئی برس تک پنڈت اشکرن شرما سے انڈین کلاسیکی گائیکی کی بھی تربیت لی۔

سوفی نے بہ طور پاپ سنگر اپنے کیریر کا آغاز میں 2000ء میں اپنے بینڈ ’’سانسرا‘‘ سے کیا تھا۔ اس بینڈ کا پہلا گیت ’’ یہ دل سن رہا ہے‘‘ بہت مقبول ہوا تھا۔ تاہم جلد ہی یہ بینڈ ٹوٹ گیا اور سوفی نے انفرادی حیثیت میں گلوکاری شروع کردی۔ ابتدا میں اس نے ماضی کے مقبول گیتوں کو مغربی موسیقی کے ساتھ پیش کرنے پر توجہ دی۔ پھر اس نے اوریجنل گیتوں پر مشتمل البم بھی ریلیز کیا۔ سوفی درجن کے لگ بھگ فلموں میں متنوع کردار ادا کرچکی ہے لیکن اسے بہ طور اداکارہ وہ شہرت نہیں ملی جس کی وہ مستحق تھی۔ اس باصلاحیت فن کارہ سے کی گئی تازہ بات چیت قارئین کی نذر ہے۔

٭ آپ لندن میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں۔ بطور وی جے، گلوکارہ اور اداکارہ بولی وڈ میں آپ کا سفر کیسا رہا؟

میرے اندر چھپی گائیک کو میوزک ڈائریکٹر بڈو نے دریافت کیا تھا، اس وقت میں بارہ سال کی تھی۔ میں ہمیشہ سے گلوکارہ بننا چاہتی تھی، پھر بڈو ہی نے مجھ سمیت چند لڑکیوں کو جمع کرکے ’’سانسرا ‘‘کی بنیاد رکھی جب کہ میں ابھی زیرتعلیم ہی تھی۔ کالج کے دوران میں لندن میں ایک بھارتی ٹیلی ویژن چینل کے پروگرام کی وی جے بن گئی۔ اور جب میں نے ممبئی منتقل ہونے کا ارادہ کیا تو مجھے ایم ٹی وی نے اپنے پروگرام کی میزبان بننے کی پیش کش کردی۔ سولو سنگر کی حیثیت سے میرے ری مکس گیت ’’ میرا بابو چھیل چھبیلا‘‘ اور ’’ اک پردیسی‘‘ بے حد مقبول ہوئے تو پھر میں نے مستقل طور پر انڈیا ہی میں رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک روز ڈیوڈ دھون ( ہدایت کار) نے مجھ سے رابطہ کرکے اپنی فلم ’’شادی نمبر ون‘‘ میں رول کرنے کی آفرکی۔ میں گووندا اور کرشمہ کپور کی بہت بڑی مداح تھی، اور اس پیش کش کی صورت میں مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا تھا۔ چناں چہ میں نے ڈیوڈ سے کہا کہ میں یہ فلم ضرور کروں گی۔ اس طرح میں اداکارہ بھی بن گئی۔

٭ ’’ یہ دل سن رہا ہے‘‘ کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود سانسرا بینڈ کیوں ٹوٹ گیا؟

اپنی اپنی انا پر قائم رہنے کی وجہ سے! عام طور پر لڑکیوں کا ساتھ چلنا مشکل ہوتا ہے، اور اتنا اچھا گانے کے باوجود ہمارے درمیان اختلاف رائے موجود تھا۔ بینڈ کے معاملات کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں ہم سب کی رائے مختلف تھی۔ میں اس بینڈ کو برقرار رکھنا چاہتی تھی اور اس کے لیے برطانیہ چھوڑ کر انڈیا چلی آئی تھی لیکن وہ ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔

٭ ’’ بے بی لَو ‘‘ اور ’’ ساؤنڈ آف سوفی ‘‘ ( میوزک البم) کی پسندیدگی پر آپ کے کیا جذبات تھے؟

یہ میرے لیے یادگار دن تھے۔ ’’ اک پردیسی‘‘ نے مجھے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ میں بہت زیادہ شوز میں مصروف ہوگئی تھی۔ اسی گیت کی بنیاد پر مجھے ’’ شادی نمبر ون‘‘ اور پھر ’’ پیار کے سائیڈ افیکٹس‘‘ میں اداکاری کرنے کی پیش کش ہوئی تھی۔ میں اس البم کو کبھی نہیں بھول سکتی۔

٭ آپ فلموں میں نظر نہیں آرہیں۔اس کی وجہ کیا ہے؟ کیااداکاری سے ناتا توڑ لیا ہے؟

ایسی کوئی بات نہیں۔ دراصل جس قسم کے رول میں چاہتی تھی مجھے اس طرح کے رول آفر نہیں ہورہے تھے۔ چناں چہ میں نے اپنی توجہ گلوکاری اور میوزک شوز پر مرکوز کردی۔ تاہم اس دوران بھی اچھے کرداروں کی پیش کش ہونے پر میں فلمیں کرتی رہی ہوں۔ میں نے حال ہی میں چند فلمیں سائن کی ہیں جو آئندہ برس ریلیز ہوں گی۔

٭ ’’ پیار کے سائیڈ افیکٹس‘‘ میں آپ کی اداکاری کو سراہا گیا تھا۔ یہ پذیرائی آپ کو کیسی لگی تھی؟

ایک فن کار کے لیے اس کے فن کی ستائش ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ اپنی اداکاری کی پسندیدگی پر، سچ پوچھیں تو میں ہواؤں میں اڑنے لگی تھی۔ مجھے اس فلم کا اسکرپٹ بہت پسند آیا تھا۔ اس فلم کا بنیادی خیال بہت منفرد تھا اور مجھے محسوس ہوا تھا کہ ہیروئن نہ ہونے کے باوجود میرے کرنے کے لیے اس فلم میں بہت کچھ ہے۔

٭سوفی چودھری کا مستقبل کیا ہے۔۔۔۔

میں وقت کے ساتھ ساتھ چلتی ہوں۔ آپ اپنے کیریئر اور زندگی کے لیے منصوبہ بندی تو کرسکتے ہیں لیکن میں نے بارہا دیکھا ہے کہ تقدیر کے آگے وہ دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اس لیے میں اپنے کیریئر اور اپنے مستقبل کے بارے میںکوئی پلاننگ نہیں کرتی۔ تاہم اتنا ضرور ہے کہ جو مجھے پسند ہے وہ میں کرتی رہوں گی یعنی گلوکاری، اسٹیج شوز میں پرفارم کرنا اور اداکاری!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔