ہمارے بونے اوران کے سائے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 25 جنوری 2017

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ قائداعظم، قائداعظم کیسے بنے؟ کارل مارکس، کارل مارکس کیسے بنا؟ابراہم لنکن،ابراہم لنکن کیسے بنا؟ بھٹو، بھٹو کیسے بنا؟ گاندھی، گاندھی کیسے بنا؟، دنیا کے ماہرین نفسیات کو ایک سوال نے ہمیشہ چکرائے رکھا کہ آخر وہ کونسی ایسی خوبی ہے جوکہ ایک عام انسان کولیڈر بنا دیتی ہے۔ایک عام انسان کو عظیم انسان بنادیتی ہے۔ایک ماہر نفسیات نے برسوں کی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ اس کا راز انسانی دماغ کی وائرنگ میں چھپا ہوا ہے۔ دماغ کا ایک حصہ نیوکارٹکس کہلاتا ہے، جس میں لاجک ، عقل اوردلیل کی فراوانی ہوتی ہے اور زبان سیکھنے کی مہارت بھی اسی حصے میں ہوتی ہے۔ تاہم دوسرا حصہ جو مبک برین کہلاتا ہے وہ احساسات پر مبنی ہوتا ہے محبت، نفرت، اعتماد، یقین ۔یہ تمام تر احساسات وہیں پر جنم لیتے ہیں یہ ہی حصہ انسانی کردار اور فیصلہ سازی کاگڑھ ہے۔گویا  فیصلے انسانی دماغ کے لاجک والے حصے میں نہیں بلکہ جذبات والے حصے میں ہوتے ہیں، جو احساسات کے برقی سگنل پرچلتا ہے۔

ماہرین نفسیات نے اس کا نتیجہ یہ نکالا کہ عظیم ترین لیڈر وہ ہی ہوتا ہے، جو لوگوں کے احساسات وجذبات کو اپیل کرسکے جب بھی ایسا انسان اٹھتا ہے اور لوگوں میں عقیدہ جگاتا ہے تو عوام اس کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے اس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کی مشہور ترین تقریرکا عنوان I have a Dream ہے I have a plan نہیں ہے۔لیڈر امیدیں بیچتا ہے وہ خوابوں کا سوداگر ہوتا ہے۔ یاد رہے ہم سب آکسیجن کے ذریعے نہیں بلکہ خوابوں اور امیدوں کی وجہ سے زندہ رہتے ہیں خوابوں اورامیدوں کے بغیر ہم گوشت پوست کے لوتھڑے کے سوا اورکچھ نہیں ہیں۔

آج بھی دنیا بھر میں نئے نئے لیڈر پیدا ہورہے ہیں،  جو اپنی اپنی قوموں میں نئے نئے خواب اورامیدیں بیچ رہے ہیں لیکن دوسری طرف ہماری بدبختی اورکم بختی کہ قائداعظم ، ذوالفقارعلی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے بعد لیڈر ہی پیدا ہونا بند ہوگئے۔ لگتا ہے ہماری زمین بنجر ہوگئی ہے اب جو ہمیں لیڈر دستیاب ہیں ان کی اکثریت بونوں پر مشتمل ہے وہ خود بونے ہیں اور ان کے سائے قد آور ہیں یعنی ہم پر سائے مسلط ہیں یا ہم پر سایوں کی حکمرانی قائم ہے۔ جب ملک اورقوم پرسائے حکمرانی کریں گے تو پھر یہ ہی حال ہونا تھا جو ہوا ہے اس سے مختلف اور ہو بھی کیسے سکتا تھا؟ یہ سب بونے اپنے آپ کے قیدی ہیں۔

ایک امریکن ریڈانڈین سردارکا پوتا اپنے ایک دوست سے بہت رنجیدہ اور بدلے کی آگ میں جلتا ہوا اس کے پاس آیا تواس نے اس سے اس کی کہانی سن کرکہا ’’ہم میں سے ہر شخص کے اندر دو بھیڑیے ہوتے ہیں، جوآپس میں مسلسل برسرپیکاراورگتھم گتھا رہتے ہیں۔ ایک بھیڑیا اچھا ہے وہ محبت ، استقامت، قربانی ، امید، خواب، فیاضی ، سچائی اورایمان کی علامت ہے جب کہ دوسرا بھیڑیا شیطانی فطرت رکھتا ہے اورغصے، حسد، پچھتاوے ،غم ، حرص، بڑبولے پن، غرور ، جھوٹ، احساس کمتری اور انا کی علامت ہے۔  بس پوری زندگی ہمارے اندر دونوں بھیڑئیے آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور جو جیت جائے وہ ہمارے اندر پرحکمرانی کرتا ہے پوتے نے اپنے دوست کی آنکھوں میں جھانکا اور پوچھا ’’ لیکن کون سا بھیڑیا جیتتا ہے‘‘  دوست مسکرایا اوراس کا کاندھا تھپک کر بولا ’’ دونوں میں سے وہ بھیڑیا جیت جاتا ہے جسے تم زیادہ گو شت کھلاتے ہو۔‘‘یہ طے ہے کہ ہم کسی انسان کی حرکات و سکنات ،نیت،کردار،عمل،اقدامات دیکھ کر باآسانی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ شخص اپنے اندرکے کونسے بھیڑیے کو زیادہ گوشت کھلارہا ہے۔

ایسا کریں کہ آپ بیس کروڑ انسانوں میں سے کسی سے بھی پوچھ کر دیکھ لیں کہ ان کی بربادیوں ، تباہیوں ، ملک میں کرپشن ، لوٹ مار، پانی ، بجلی ، گیس کی شدید قلت ، بے روزگاری ، غربت ، افلاس، بیماریاں ،گندگی ، مہنگا ئی ، بیروزگاری ، کے پیچھے کن کا ہاتھ ہے اور یہ تمام عذاب ایک ساتھ کون ملک میں لائے ہیں تو بیس کروڑ انسانوں میں سے ہر انسان ان ہی بونوں کو مجرم ، قصور وار اورذمے دار قرار دے رہا ہوگا ۔ اگر ایک بھی جواب مختلف ہو تو جو چورکی سزا وہ ہماری سزا۔ یہ تو ہوئی بیس کروڑ انسانوں کو دی گئی اجتماعی سزا اوردوسری طرف اگر آپ ان بونوں کی شاہانہ زندگی جا ہ وجلال ان کی عیاشیاں ، جھوٹ ،غرور، تکبر ، اندازواطوار ، بے رخیاں ، پروٹوکول،ان کی جیبوں سے پیسوں کی کھنکتی آوازیں ان کے بچوں اور اہل خانہ کی شان وشوکت دیکھیں تو آپ کو اس بات کا اچھی طرح سے احساس ہوجائے گا کہ انھیں بیس کروڑ انسانوں اور ان کو درپیش مسائل اورعذاب سے نہ توکوئی سروکار ہے اور نہ ہی ان کی ذرا بھر بھی کوئی فکر ہے ذہن میں رہے لیڈر شپ کی 90 فیصد ناکامیاں کردارکی ناکامیاں ہوتی ہے۔

امریکا میں ایک سروے کے دوران 54,000 افراد سے پوچھا گیا کہ ان کی نظرمیں ایک لیڈرکی سب سے ضروری خوبی کون سی ہے تو اکثریت کا جواب تھا ’’دیانت داری‘‘ دیانت داری کا مطلب ہے کہ آپ ان اصولوں اور فطری قوانین کی پاسداری پوری دیانت کے ساتھ کرتے ہیں، جو انجام کارہمارے رویے کے نتائج مرتب کرتے ہیں۔ ایمانداری سچ بولنے کا اصول ہے جب کہ دیانت داری اپنے آپ اوردوسروںکے ساتھ کیے گئے وعدوں پر قائم رہنا ہے۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا ’’ ایک آدمی زندگی کے ایک شعبے میں بددیانت اور دوسرے شعبے میں دیانت دار نہیں ہوسکتا زندگی ایک ناقابل تقسیم اکائی ہے۔‘‘

تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ طویل کشمکش کے بعد حقیقت یہ ابھری ہے کہ ہم کیسے نظر آتے ہیں سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اصل میں ہم کیا ہیں ۔ ہم بیس کروڑ لوگوں کو مصرکے سابق صدر انور سادات کی کہی گئی بات باربار پڑھنی چاہیے کہ ’’جو شخص اپنی سوچوں کے تانے بانے کو تبدیل نہیں کرسکتا وہ کبھی بھی حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتا چنانچہ کبھی بھی کوئی پیش رفت نہیں کرسکتا۔‘‘یاد رہے عذابوں کے ذمے دارکبھی بھی عذابوں سے نجات نہیں دلوا سکتے ۔اس بات کو ہم جتنی جلدی سمجھ لیں گے ہم اپنے عذابوں سے نجات حاصل کرلیں گے، لیکن اگر ہم نہیں سمجھیں گے تو پھر ہمارے عذاب اسی طرح سے جاری وساری رہیں گے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔