مشعل اوباما اور مشرق کا ورثہ

رئیس فاطمہ  بدھ 2 جنوری 2013

30 دسمبر اتوار کو چھپنے والے کالم (سائبرکرائم، ذمے دار کون؟) کے حوالے سے کئی فون اور ایس ایم ایس موصول ہوئے۔ کالم کی تنگ دامانی کے باعث بہت سی باتیں ان کہی رہ گئیں، لیکن 29 دسمبر کے اخبارات میں، دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور ملک کے طاقتور صدر اوباما کی بیوی مشعل اوباما جوکہ امریکا کی خاتون اول ہے کے ایک بیان نے وہ اہم بات کہہ دی جو مشرق کا ورثہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’ماں کو پتہ ہونا چاہیے‘ بیٹی موبائل پہ کس سے بات کر رہی ہے؟‘‘ مالیا اب بڑی ہوچکی ہے اور مشعل غیر محسوس طریقے سے اس کی مصروفیات پر نظر رکھتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ اپنی بیٹی کے دوستوں کے بارے میں بھی پوری معلومات رکھتی ہیں کہ ان کی بیٹی کن لوگوں سے ملتی ہے اور موبائل فون پر کن کن لوگوں سے باتیں کرتی ہے؟

افسوس کہ ہماری خواتین نے اپنی بیٹیوں پر نظر رکھنی چھوڑ دی ہے جو چند خواتین اپنی تربیت، گھریلو اور خاندانی ماحول کی بناء پر اپنی بیٹیوں کے معاملات پر کڑی نگرانی رکھتی ہیں، ان کی بیٹیوں کی شادی شدہ زندگی بہت پرسکون اور اطمینان بخش ہوتی ہے۔ لیکن ان ماؤں پر تنقید بھی بہت ہوتی ہے، عموماً انھیں اپنے ملنے جلنے والوں اور رشتے دار خواتین سے اس قسم کے جملے سننے پڑتے ہیں۔

’’بھئی! تم تو اٹھارہویں صدی کی ماں بن گئی ہو، اتنی سختی لڑکیوں پر صحیح نہیں، انھیں زندگی انجوائے کرنے دو، یہی تو عمر ہے زندگی کا لطف اٹھانے کی، پھر بال بچوں میں گھر کر کہاں وقت ملے گا؟ انھیں آزادی دو‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔ بس جو مائیں ایسی منفی سوچ سے متاثر ہوکر لڑکیوں کو آزاد چھوڑ دیتی ہیں انھیں پھر نتائج بھی بھگتنے پڑتے ہیں، ایسے بھیانک نتائج جن کا ذکر میں نے پچھلے کالم میں کیا تھا۔ لیکن جو مائیں سمجھدار ہیں اور انھیں سمجھدار ماؤں کی تربیت ملی ہے وہ ایسی احمقانہ باتوں کی پرواہ نہیں کرتیں۔ وہ اپنی بیٹیوں کو ذرا سی غلطی و لغزش کی بناء ہونے والی تباہی سے آگاہ بھی کرتی ہیں اور ازدواجی زندگی میں ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی اہمیت بھی واضح کرتی ہیں جنھیں عام طور پر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ یہیں سے تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔

دراصل ہم لوگ مجموعی طور پر ایک کاہل، کام چور، عیش پسند اور نقال قوم ہیں۔ ہر سائنسی ایجاد جو غیر مسلم کرتے ہیں، ان سے فائدہ بھی خوب اٹھاتے ہیں اور ان پر منفی تنقید بھی کرتے ہیں۔ ابتداء میں ریڈیو کو بھی ’’شیطان کا ڈبہ‘‘ کہا گیا، پھر لاؤڈ اسپیکر اور کیمرے پر مذہبی انتہا پسندوں نے کفر کے فتوے صادر کردیے اور اب کسی مولوی کا تصور آپ لاؤڈ اسپیکر اور تصویر بلکہ جلوہ نمائی کے بغیر نہیں کرسکتے۔ اسی طرح ٹیلی ویژن کو بھی مذہبی انتہا پسندوں نے تنقید کا نشانہ بنایا اور بعض تنگ نظر مذہبی گھرانوں میں آج بھی ٹیلی ویژن ’’شجر ممنوعہ‘‘ ہے۔ لیکن انھی گھرانوں کے بچے دوسروں کے گھروں میں جاکر ٹی وی دیکھتے ہیں۔ ان کی لڑکیاں جینز اور ٹی شرٹ پہن کر اوپر سے برقعے اوڑھ لیتی ہیں ۔ کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ وہ پابندیوں سے بغاوت کرتا ہے، ہماری داستانوں میں شہزادے کو تین کھونٹ جانے کی اجازت ہوتی تھی لیکن پیر مرد چوتھے کھونٹ جانے سے منع کرتے تھے ، لیکن انسانی فطرت کا تجسس شہزادوں کو چوتھے کھونٹ لے جاتا تھا۔

جہاں ایک دنیا ان کی منتظر ہوتی تھی۔ وہ مصائب و آلام کا بھی شکار ہوتے تھے، لیکن چوتھے کھونٹ جانا نہیں چھوڑتے تھے۔ اس لیے انٹرنیٹ کا استعمال بھی لڑکے لڑکیوں نے نیٹ کیفے میں بیٹھ کر بھرپور طریقے سے شروع کردیا۔ رہ گئے وہ گھرانے جو ناجائز ذرایع، دو نمبر کے کاموں اور سیاست میں ملوث ہونے کی وجہ سے اچانک دولت مند اور ’’معزز‘‘ بن گئے۔ ان کے ہاں لڑکیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت اس لیے نظرانداز کی گئی کہ اس طرح وہ ’’ماڈرن‘‘ نہیں کہلائیں گے۔ جہاں تک لڑکوں کا سوال ہے تو صرف گنے چنے اعلیٰ نسب اور خاندانی لوگوں ہی میں یہ روایت برقرار ہے کہ وہ بیٹوں کی مصروفیات پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔

جہاں تک لڑکیوں کا معاملہ ہے تو بہت تھوڑے فرق کے ساتھ پوری دنیا میں عورتوں کی سماجی اور گھریلو ذمے داریاں اہم ہیں۔ ہر معاشرے میں ماں ہی اولاد کی پرورش کی ذمے دار ہوتی ہے۔ پھر جب کسی لڑکی کی اپنی ہی تربیت درست نہ ہوگی تو وہ اپنی اولاد کو کیا تعلیم دے گی؟ فی زمانہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کا استعمال بھی ہمارے ہاں منفی ہورہا ہے۔ ہم دراصل دو عملی کے شکار لوگ ہیں۔ خود تو تخریبی کارروائیوں میں مصروف رہتے ہیں، بچوں اور نوجوانوں کو تشدد اور تخریبی کارروائیوں کی تعلیم دے کر اسے مذہب سے جوڑ دیتے ہیں، بے گناہ افراد کو بم دھماکوں میں اڑا دیتے ہیں اور پھر اس وحشت و بربریت پر جشن بھی مناتے ہیں۔ لیکن خود کبھی اس قابل نہ ہوئے کہ کوئی مثبت ایجاد کریں۔ یہاں تو اعلیٰ قسم کی ماچس بھی نہیں بناسکتے۔ باقی کیا بات کی جائے؟

ایسے میں ایک اور کھلونا ہاتھ آگیا موبائل کا۔ دس دس سال کے بچے موبائل لیے پھر رہے ہیں۔ اسکول اور کالج کی لڑکیاں بریک کے دوران مسلسل موبائل پر باتیں کرتی رہتی ہیں۔ کاش جو بات امریکی صدر کی بیوی نے اپنی بیٹیوں کے بارے میں کہی ہے وہ کسی پاکستانی خاتون نے کہی ہوتی۔ پہلے لڑکیاں گھروں میں رہتی تھیں اور بڑوں کی نگرانی میں رہتی تھیں، اس لیے ان کے بگڑنے کے امکانات معدوم تھے۔ لیکن اب ماحول مختلف ہے۔ اب لڑکیاں اعلیٰ تعلیم سے لے کر ملازمت تک کر رہی ہیں، وہ بھی مخلوط اداروں میں۔ جہاں ان کا اپنی ذات پر اعتماد بڑھتا ہے۔ اعلیٰ صلاحیتیں سامنے آتی ہیں۔ وہ خود کو ہر میدان میں منوا رہی ہیں، لیکن یہیں سے ایک خرابی بھی جنم لیتی ہے کہ ابھی ہمارا سماج اور اس کا مرد ذہنی سطح پر اس حد تک بالغ نہیں ہوا۔

جیساکہ مغرب کا مرد۔ وہاں عورت کی مرضی کے بغیر کوئی مرد اس کے قریب نہیں آسکتا، کیونکہ وہ ایک مہذب معاشرہ ہے۔ جہاں شخصی آزادی کی بے پناہ اہمیت ہے جب کہ ہمارے ہاں ہر گھر سے نکلنے والی لڑکی اور ملازمت پیشہ خواتین کو مال غنیمت سمجھا جاتا ہے۔ انھیں انسان نہیں صرف ’’عورت‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ ادب میں بھی انھیں مخصوص ڈبوں میں بیٹھنے کی ہدایت کی جاتی ہے جب کہ مرد جو سطحی خواہشات چاہے وہ اپنے ناولوں اور افسانوں میں بیان کرے کہ وہ مرد ہے۔ اسی رویے نے آج کی عورت کو بہت غیرمحفوظ بنادیا ہے۔

عورت آج مضبوط بیشک ہے، لیکن محفوظ نہیں ہے۔ جرائم پیشہ افراد جانتے ہیں کہ وہ لڑکیوں کے ساتھ جو سلوک چاہیں کرلیں، وہ زبان نہیں کھولیں گی اور بوقت ضرورت بلیک میل بھی ہوتی رہیں گی۔ تو کیا بہتر نہیں کہ مائیں اپنی ذمے داری محسوس کریں؟ ان کے ملنے جلنے والوں پر نظر رکھیں، ان کی مصروفیات کے اوقات چیک کریں، اور انھیں بتائیں کہ کسی دلدل میں اترنے کے بعد ان کا بچنا بہت مشکل ہے جو آیندہ زندگی کو داغدار کریں گے، انسانی فطرت بڑی عجیب ہے، یہاں کسی کی بھی کمزوریوں کو تو خوب اچھالا جاتا ہے، لیکن خوبیوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں۔

طالب علمی اور ملازمت کے دوران کی جانے والی بعض غلطیاں بڑے بھیانک نتائج سامنے لاتی ہیں۔ جس کی ایک واضح مثال طلاقوں کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ کئی لڑکیوں کی طلاق کی وجہ وہ فون کالز اور میسجز تھے جو ان کے سابقہ ’’دوستوں‘‘ کی جانب سے آتے تھے۔ باقاعدہ ایس ایم ایس کا تبادلہ ہوتا تھا اور ’’پیکیج‘‘ کی وجہ سے لمبی لمبی باتیں۔ آدھی آدھی رات کو دوسرے کمرے میں جاکر جب لڑکیاں اپنے دوستوں سے باتیں کریں گی، تو خاوند کیونکر نظرانداز کریں گے کہ شادی شدہ زندگی میں سب سے بڑا رشتہ ’’اعتماد‘‘ کا ہوتا ہے۔ جب اعتماد اور بھروسہ ہی نہ رہے تو کیا باقی رہ جاتا ہے؟

یہی فون کالز اگر مائیں سنتیں اور پوچھتیں کہ ان کی بیٹی آدھی رات کو کس سے بات کر رہی ہے، وہ خود اس نمبر کو چیک کرتیں تو نوبت طلاق تک نہ پہنچتی۔ کاش! ہماری جوان بیٹیوں کی مائیں مشعل اوباما کی طرح اپنی بیٹیوں کے بارے میں فکرمند ہوں کہ ان کی بیٹی موبائل پر کس سے باتیں کر رہی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔