اورآپ کی ’’کتاب کہانی‘‘کیا ہے؟

اقبال خورشید  منگل 31 جنوری 2017

وہ نومبر کی ایک خاموش سہ پہر تھی، جب ایک شخص نے مجھے اشتیاق احمد کا ناول پڑھنے کا مشورہ دیا، اور میرے ہاتھ وہ کہانی آئی، جو میںآج آپ کو سنا رہا ہوں۔۔۔اور مجھے جون کے وہ گرم، دھوپیلے دن بھی یاد ۔ میں اور میرا بھائی غلک میں پیسے جمع کیا کرتے تھے، تاکہ بانو قدسیہ کا ناول ’’راجہ گدھ ‘‘خرید سکیں۔کتاب پڑھنے کی للک ایسی تھی کہ ابھی آدھی رقم جمع ہوئی نہیں کہ غلک توڑا، کچھ پیسے ادھار لیے، اور صدر کی سمت ہولیے کہ اس وقت ہمیں اردو بازار کی خبر نہیں تھی۔۔۔صاحبو، اگر میری زندگی سے یہ دو واقعے نکال دیے جائیں، اِنھیں کسی اور واقعے سے بدل دیا جائے، تو شاید میں کوئی اور شخص بن جاؤں۔ظاہری طور پریہی، مگر باطنی طور پر مختلف۔۔۔یہ بھولے بسر واقعات کچھ روز قبل یکدم آنکھوں کے سامنے ابھرآئے۔ قصہ کچھ یوں کہ ہم دفتر میں سر نہواڑے، توجہ مرکوز کیے جناب خالد علیگ پر شایع ہونے والی تازہ کتاب پر تبصرے میں جٹے تھے کہ ایک دفتری ساتھی اِس بات پرافسوس کرنے لگے کہ کتابوں پر اخباری تبصرے اب بے وقعت ہوئے، اتنا مغز کھپاؤ، مگر نہ تو کتاب خریدی جاتی ہے، نہ ہی پڑھی جاتی ہے۔

اُن کے الفاظ نے ہمیں گہرے صدمے سے دوچار کر دیاکہ وہ نہ صرف درست تھے، بلکہ ان سے ایک سماجی المیہ جڑا تھا۔ علم و ادب سے دوری نے ہمیں جمود کے دائرے میں دھکیل دیا۔ ہم بے مقصدی ، فکری افلاس کا شکار ہوئے۔۔۔ یہ کہنا تو درست نہیں کہ فقط کتابیں ہماری اخلاقی تربیت کرتی ہیں، تہذیب سکھاتی ہیں، بہتر انسان بناتی ہیں، مگریہ بلا جھجک کہا جاسکتا ہے کہ کتابیںفرد کو انفرادی اور اجتماعی طور پر سودمند بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔مذہبی تعلیمات بھی انسان تک کتاب کی صورت پہنچیں۔ اور یہ کتابیں ہی ہیں، جو جبر کے ماحول میں راحت عطا کرتی ہیں، مایوسی میں امیدکا دیا جلاتی ہیں، مقصد عطا کرتی ہیں۔۔۔تودفتری ساتھی کے الفاظ نے ہمیں صدمے سے دوچار کر دیا۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے۔ ہماری نسل میں، شاید سوشل میڈیا کی بے ربط ترقی اور معلومات کی بمباری کے باعث، نئے قارئین پیدا نہیں ہوسکے۔ اچھا، ہم جیسے شائقین، جو ہر ماہ پیسے بچا کرکتابیں خریدتے ہیں، دن کا تھوڑا بہت حصہ مطالعے میں صرف کرتے ہیں، دراصل وہ لوگ ، جنھیں بچپن میں یہ لت لگ گئی تھی۔ جن کی اوائل میں شعر و اد ب سے نبھنے لگی،کتاب زندگی کا جزو بن گئی۔

آج جب ماضی کھنگالتا ہوں، تواحساس ہوتا ہے، اگرمجھے اشتیاق احمد کی کتابیں پڑھنے کا مشورہ نہ دیا جاتا، ’’راجہ گدھ‘‘ خریدنے کے لیے پیسے نہ جوڑے ہوتے، تو آج میں شاید کوئی اور شخص ہوتا۔۔۔بچپن بازیافت کرنے کی اجازت چاہوں گا:کہانیوں سے پہلا رشتہ اخبارات کے بچوں کے صفحات سے قائم ہوا۔ ان ہی کہانیوں نے قلم اٹھانے کی جوت جگائی۔ جو لکھا، دوستوں کو سنایا، اخباروں کو ارسال کیا۔چند کہانیوں نے ان صفحات میں جگہ پائی، مگر ان دنوںکی تصویر اب دھندلا گئی ہے۔ ہاں،’’تعلیم و تربیت‘‘، نونہال‘‘ اور’’ پھول‘‘ جیسے رسائل نے نسبتاًگہرا نقش چھوڑا۔ اسی زمانے میں ٹارزن اور عمرو عیار کے کرداروں سے دوستی ہوئی، جنھوں نے گلی محلے کے چھوٹے چھوٹے بک اسٹور سے چھوٹی چھوٹی کتابیں خریدنے کی راہ سجھائی۔

شاید ایک عرصے اُن جادوئی کہانیوں میں محو رہتا ، اگر نومبر کی ایک خاموش سہ پہر ، ہمارے ماموں، خداُنھیں بھلا چنگا رکھے، اشتیاق احمد کا ناول پڑھنے کا مشورہ نہ دیتے۔ وہ انسپکٹر جمشید سیریز کا’’ جیرال کی واپسی‘‘ تھا، جس نے ایسی دیوانگی سے آشنا کیا، جسے لفظوں میں بیان کرنا لگ بھگ ناممکن۔۔۔جی، اِس بات سے انکار نہیں کہ اشتیاق احمد کے پرتجسس ناولوں پر مذہبی رنگ غالب ہوا کرتا تھا، بالخصوص کتاب کے آخر میں شایع ہونے والے خطوط اور مواد پر، مگر یہ بھی سچ کہ اشتیاق احمد نے ، مجھ سمیت، پاکستان کے لاکھوں نوجوانوں کو نہ صرف مطالعے کی عادت ڈالی، بلکہ انھیں کتابیں خریدنے اور سات سات سو صفحات کے ناولوں سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ دیا۔۔۔اچھا، ابن صفی کوہم نے بہت بعد میں پڑھا، وہ بھی صرف انور اور رشیدہ سیریز۔ کچھ عرصہ ڈائجسٹوں میں شایع ہونے والا جاسوسی ادب پرکھا۔ ایک شام اپنے تایا، پروفیسر یاسین شیخ، اللہ اُنھیں زندگی دے، کے کتب خانے سے منٹو، عصمت اور واجدہ تبسم کے بہترین افسانوں کے انتخاب ہاتھ آگئے۔

اُس عمر میں عصمت کو کیا خاک سمجھتے، مگر ’’ذرا ہور اوپر‘‘ اور ’’نولکھا ہار‘‘کے پیدا کردہ ہیجان نے واجدہ کودوبارہ پڑھنے پر اکسایا۔ منٹو سے دوستی ہوگئی تھی، جس کی زبان سادہ اور اپنی اپنی لگی، موضوعات نے سوچ کے کچھ نئے، خفیہ در وا کیے۔ کالج کی لائبریری اور سستے اسٹالوں سے پریم چند اور کرشن چندر کی کتابیں خریدیں۔ پریم چند ہمارے لیے کسی اور دنیا کا باسی تھا۔ ہاں، کرشن نے متوجہ کیا، مگرعزیزو، وہ عہد منٹو سے منسوب تھا۔ ’’کھول دو‘‘، ’’کالی شلوار‘‘، ’’دھواں‘‘، ’’ٹھنڈا گوشت‘‘، ’’بو‘‘، ’’موذیل‘‘، ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘۔۔۔ اپنے دوستوں کو منٹو سے متعارف کروایا، تو وہ آوارہ گردی ترک کر، ہر شام ہمارے ڈرائنگ روم میں اکٹھے ہونے لگے، جہاں سب منٹو کی کہانیوں کی گتھیاں سلجھانے کے عمل سے محظوظ ہوا کرتے۔ حالات میں ایک ڈرامائی موڑآیا،جب احمد ندیم قاسمی کا افسانہ’’ رئیس خانہ‘‘ پڑھا، جس کے پلاٹ، اسلوب اور جزئیات نگاری نے ایسا گرویدہ بنایا کہ منٹو ذہن سے اتر ہی گیا۔ تو اب قاسمی صاحب کی کتابوں کے سستے ایڈیشن ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھے۔ ڈراماسیریز ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ نے اشفاق احمد کی سمت متوجہ کیا۔

اور پھر ایک شام۔۔۔پی ٹی وی پر کشور ناہید اور بانو قدسیہ کی گفتگو سنی، اور ’’راجہ گدھ‘‘ کو حاصل کرنے کی للک اتنی بڑھی کہ میں ایک غلک خرید لایا۔ گو آج اُس ناول میں پیش کردہ نظریات سے کلی طور پر متفق نہیں، اور اس کے گرد بُنے جانے والے غیرضروری روحانی ہالے (جس کی بنت میں مصنفہ نے بھی پریشان کن حد تک حصہ ڈالا) نے فقط اکتاہٹ بڑھائی، مگر یہ بھی درست کہ وہ ناول خرید کر جس پر مسرت تجربے سے گزرا ، اُسے دوسری بار، کئی برس بعد مرزا اطہر بیگ کا ناول ’’غلام باغ‘‘خریدتے سمے ہی بازیافت کرسکا۔۔۔اچھا توغلک توڑنے سے وہ راستہ مل گیا، جوعلم و ادب کی حقیقی اور طلسماتی دنیا تک جاتا تھا، جہاں مذاہب کا تقابلی مطالعہ جیسا مضمون منتظر تھا۔ قرۃ العین حیدر نامی ساحرہ سے ملاقات ہوئی،’’ بہاؤ‘‘ جیسا ناول ملا، حسن منظر اور انتظار حسین جیسے فسوں گر دکھائی پڑے، اسد محمد خاں نامی عہد ساز قلم کار سے سامنا ہوا۔ راستہ، جو ڈکنز، چیخوف، دوستوفسکی اور ٹالسٹائی جیسے ماسٹرز تک لے گیا، جس کے وسیلے پشکن، اوہنری، موپساں، گورکی،جارج اوریل، ہیمنگ وے سے متعارف ہوئے، جس نے جین آسٹن کے’’ تکبر و تعصب‘‘ نامی رومانوی شاہ کار میں دھکیلا، عظیم گیبرئیل گارسیا مارکیز اور بے بدل اورحان پامک تک پہنچایا۔۔۔آخر کار کتابیں زندگی کا جزو بن گئیں۔

دوستو، یہ کالم ایک کتاب کہانی ہے، ہماری کتاب کہانی۔ اگر آپ مطالعے کے شایق ، ناول، افسانوں سے گاڑھی چھنتی ہے، اور آپ کو یہ کتاب کہانی پسند آئی، تو درخواست ہے، آپ بھی اپنی کہانی لکھیں۔کالم یا بلاگ کے ذریعے احباب سے بانٹیں۔ اپنے ٹوئٹر، فیس بک پر اپ لوڈ کریں۔چاہیں تو One Minute Story-Iqbal Khursheed کے فیس بک پیچ پر ارسال کریں۔ مجھے یقین ہے، وہ اس کتاب کہانی سے زیادہ دلچسپ ہوگی!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔