- پراپرٹی لیکس نئی بوتل میں پرانی شراب، ہدف آرمی چیف: فیصل واوڈا
- کراچی کے سمندر میں پُراسرار نیلی روشنی کا معمہ کیا ہے؟
- ڈاکٹر اقبال چوہدری کی تعیناتی کے معاملے پر ایچ ای سی اور جامعہ کراچی آمنے سامنے
- بیٹا امریکا میں اور بیٹی میڈیکل کی طالبہ ہے، کراچی میں گرفتار ڈکیت کا انکشاف
- ژوب میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں تین دہشت گرد ہلاک، پاک فوج کے میجر شہید
- آئی ایم ایف کا ٹیکس چھوٹ، مراعات ختم کرنے کا مطالبہ
- خیبرپختونخوا حکومت کا اسکول طالب علموں کو مفت کتابیں اور بیگ دینے کا اعلان
- وفاقی کابینہ نے توشہ خانہ تحائف کے قوانین میں ترامیم کی منظوری دے دی
- پاکستان نے تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں آئرلینڈ کو شکست دیکر سیریز اپنے نام کرلی
- اسلام آباد میں شہریوں کو گھر کی دہلیز پر ڈرائیونگ لائسنس بنانے کی سہولت
- ماؤں کے عالمی دن پر نا خلف بیٹے کا ماں پر تشدد
- پنجاب میں چائلڈ لیبر کے سدباب کے لیےکونسل کے قیام پرغور
- بھارتی وزیراعظم، وزرا کے غیرذمہ دارانہ بیانات یکسر مسترد کرتے ہیں، دفترخارجہ
- وفاقی وزارت تعلیم کا اساتذہ کی جدید خطوط پر ٹریننگ کیلیے انقلابی اقدام
- رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں معاشی حالات بہترہوئے، اسٹیٹ بینک
- شاہین آفریدی پیدائشی کپتان ہے، عاطف رانا
- نسٹ کے طلبہ کی تیار کردہ پاکستان کی پہلی ہائی برڈ فارمولا کار کی رونمائی
- عدالتی امور میں مداخلت مسترد، معاملہ قومی سلامتی کا ہے اسے بڑھایا نہ جائے، وفاقی وزرا
- راولپنڈی میں معصوم بچیوں کے ساتھ مبینہ زیادتی میں ملوث دو ملزمان گرفتار
- دکی میں کوئلے کی کان پر دہشت گردوں کے حملے میں چار افراد زخمی
سابق مصری صدر حسنی مبارک 6 سال بعد رہا
قاہرہ: مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کو صدارت سے بے دخل کرنے کے بعد 6 سال تک قید میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کےمطابق حسنی مبارک کو عدالتی فیصلے کی رو سے قاہرہ کے فوجی اسپتال سے ان کے گھر بھجوا دیا گیا ہے۔ حسنی مبارک کے وکیل کے مطابق انہیں اس ماہ کے اوائل میں ہی رہا کردیا گیا تھا۔ ان پر 2011 میں مصری مظاہرین کو قتل کرنے کے الزامات تھے۔
88 سالہ حسنی مبارک 1981 میں مصری صدر انورالسادات کے قتل کے بعد مسندِ اقتدار پر بیٹھے تھے اور ایک طویل عرصے تک مصر کے مطلق العنان حکمراں رہے۔ پہلے انہیں توراہ کے ایک جیل میں رکھا گیا جہاں طبعیت بگڑنے پر انہیں معدی ملٹری ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں وہ 2013 سے موجود تھے۔
فروری 2011 میں بہارِ عرب کے نام سے مصر بھر میں مظاہرے ہوئے تھے جن میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کئی افراد مارے گئے تھے۔ 2012 میں ان کے قتل کا الزام حسنی مبارک پر عائد کیا گیا تھا ۔ بالخصوص قاہرہ کے التحریر اسکوائر پر 18 روز تک مظاہرے جاری رہے تھے۔
قاہرہ، اسکندریہ، سوئز اور مصر کے دیگر بڑے شہروں میں 18 روزہ مظاہرے میں سیکیورٹی فورسز نے 800 مصریوں کو ہلاک کردیا تھا جن کا مطالبہ حسنی مبارک کی صدارت سے علیحدگی تھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔