چار سالہ ننھی منی نڈر لڑکی

مرزا ظفر بیگ  اتوار 9 اپريل 2017
سگلانا نے اس کم عمری میں بہادری اور جرأت کا جو غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔ فوٹو : فائل

سگلانا نے اس کم عمری میں بہادری اور جرأت کا جو غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔ فوٹو : فائل

روس کے برفستان جمہوریہ Tuva کی ایک چار سالہ بچی سگلانا سلچک نے جرأت و بہادری کی ایک ایسی مثال قائم کرڈالی ہے، جسے سن کر ساری دنیا حیران رہ گئی ہے۔

یہ واقعہ سائبیریا (روس) کے ایک خطرناک اور برفانی علاقے Tuva جمہوریہ میں پیش آیا، جس کے قریب ہی ایک خطرناک جنگل واقع تھا، یہ جنگل خوں خوار جنگلی بھیڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہاں سے گزرنے والا کوئی بھی جان دار عام طور سے زندہ نہیں بچتا تھا اور ان خوف ناک بھیڑیوں کے پیٹوں میں چلا جاتا تھا۔ لیکن سگلانا سلچک کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا، شاید اس وقت خدا نے بھی اس کی مدد کی اور اسے صحیح سلامت اس خطرناک اور تاریک جنگل سے گزار کر اس کی منزل پر پہنچادیا۔

سگلانا سلچک کی عمر صرف چار سال ہے۔ اس بچی کی دادی کا یکایک انتقال ہوگیا تھا۔ گھر پر اس کی آں جہانی دادی کی میت کے پاس صرف اس کے دادا تھے، وہ مرنے والی کی لاش کو ایسے ہی چھوڑ کر نہیں جاسکتے تھے، گھر پر کوئی اور ایسا فرد موجود نہیں تھا جو اس مشکل گھڑی میں مدد کے لیے کہیں جاتا اور کسی کو ان دونوں کی مدد کے لیے بلاکر لاتا۔ چناں چہ کوئی اور راستہ نہ پاکر سگلانا سلچک کو اس خطرناک کام کے لیے چنا گیا اور یہ چار سالہ بہادر اور بے خوف بچی بڑی ہمت کے ساتھ اس خطرناک سفر پر روانہ ہوگئی۔

اس سفر کے دوران اسے مذکورہ بالا خطرناک جنگل سے گزرنا تھا جس میں خوں خوار بھیڑیوں کے مسکن تھے۔ جس وقت اس نے یہ سفر شروع کیا، اس وقت جنگل میں اتنا گہرا اندھیرا چھا چکا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ لیکن سگلانا بے دھڑک چلتی رہی، اس نے اس کیفیت میں لگ بھگ پانچ میل کا سفر طے کیا، وہ بھی کندھے تک اونچی اور یخ بستہ برف میں۔ اس وقت اس جگہ کا درجۂ حرارت منفی 34درجے سینٹی گریڈ تھا۔

اپنے اس سفر کی روداد سناتے ہوئے سگلانا سلچک بڑے اطمینان سے کہتی ہے:’’مجھے بھیڑیوں سے بھرے اس جنگل میں چلتے ہوئے ذرا بھی ڈر نہیں لگا۔ میں چلتی رہی، چلتی رہی، چلتی رہی اور آخرکار لگ بھگ چھے گھنٹے کے پر خطر سفر کے بعد اپنی منزل پر پہنچ گئی۔‘‘

ننھی منی سگلانا سلچک کو اس سفر پر اس کے دادا نے بھیجا تھا جو بے چارے پہلے ہی نابینا تھے اور سگلانا کی مرنے والی دادی دل کی مریضہ تھیں۔ دادا اس وقت بڑی بے چارگی کے عالم میں تھے، کوئی اور راستہ نہ پاتے ہوئے انہوں نے سگلانا سے کہا تھا کہ تم کسی طرح کسی بھی قریب ترین پڑوسی کے پاس پہنچ جاؤ۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہاں تو قریب ترین پڑوسی بھی بہت دور دور آباد تھے۔ یہ برفانی اور پہاڑی خطہ تھا جہاں کی سختیاں کسی بھی طور برداشت نہیں کی جاسکتی تھیں۔ لیکن چرواہوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے سگلانا کے دادا سائبیریا کے اس دورافتادہ خطے میں اپنی بوڑھی اور ضعیف بیوی کے ساتھ رہتے تھے اور ان کی بیوی (سگلانا سلچک کی دادی) اچانک ہی انتقال کرگئی تھیں۔

اس لیے اس کے دادا کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں، کہاں جائیں اور کس سے مدد مانگیں۔ اپنی پوتی کے سوا انہیں کوئی اور دکھائی نہیں دیا تو انہوں نے دل پر پتھر رکھ کر اس بچی کو ہی روانہ کردیا، انہیں امید تھی کہ خدا ان کی اور ان کی پوتی کی ضرور مدد کرے گا اور خدا نے انہیں مایوس نہیں کیا۔ سگلانا کندھے تک اونچی برف میں لگ بھگ پانچ میل کا پرخطر سفر کرنے کے بعد چھے گھنٹے بعد قریب ترین پڑوس تک پہنچ گئی۔ اس وقت موسم بہت بے رحم ہورہا تھا، ایک تو تاریکی چھاگئی تھی اور اوپر سے سردی اتنی زیادہ تھی کہ اس بچی کا خون اس کی رگوں میں جمے جارہا تھا۔ سگلانا نے اپنا یہ سفر صبح کے پانچ بجے شروع کیا تھا اور بے دھڑک چلتی رہی، اس کا دعویٰ ہے کہ اسے راستے میں ذرہ برابر بھی ڈر نہیں لگا۔ نہ ماحول سے، نہ موسم سے اور نہ ہی خوف ناک بھیڑیوں کی آوازوں سے، اس کے ذہن میں صرف ایک ہی بات تھی:’’مجھے جلد از جلد قریب ترین پڑوس تک پہنچنا ہے۔‘‘

ننھی منی سگلانا نے یہ سفر سفید برف کے ڈھیر پر اور منجمد دریا کے کنارے چلتے ہوئے طے کیا تھا۔ اسے مدد کی تلاش تھی، وہ اپنے دادا کے کہنے پر مدد ہی تو ڈھونڈنے آئی تھی۔ اس کے بوڑھے اور نابینا دادا اس کی واپسی کے منتظر تھے۔ اسے جلد از جلد ان کے پاس مدد لے کر واپس بھی پہنچنا تھا۔

واضح رہے کہ سگلانا سلچک کو بہت زوردار بھوک بھی لگ رہی تھی، مگر وہ اپنی بھوک کو نظرانداز کرتے ہوئے چلتی رہی اور اپنی کم عمری کے باوجود وہ کارنامہ انجام دے ڈالا کہ اس کے بڑے بھی حیران رہ گئے۔ بعد میں جب یہ واقعہ مقامی اخبارات میں شائع ہوا تو اسے پڑھ کر لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں۔ پھر تو انہوں نے اس بہادر لڑکی کی بہت تعریف کی اور اسے اپنے پیار اور دعاؤں سے خوب نوازا۔

بعد میں معلومات جمع کرنے کے بعد یہ بھی پتا چلا ہے کہ یہ چار سالہ ننھی منی بچی سخت سردی کی وجہ سے hypothermia نامی مرض میں مبتلا ہوگئی تھی، اس کے باوجود اس نے یہ خطرناک سفر طے کیا اور کام یابی کے ساتھ اپنی اس منزل پر پہنچ گئی جس کی اسے تلاش تھی۔ جب وہ اپنی منزل پر پہنچی تو وہاں موجود شخص نے خطرے کا الارم بجاکر ریسکیو والوں کو بلالیا جنہوں نے بعد میں سگلانا کے دادا کو بھی ان کے گھر سے بہ حفاظت نکال لیا اور اس کی دادی کی لاش بھی مردہ خانے منتقل کروادی۔

واضح رہے کہ سگلانا نے یہ ناقابل فراموش کارنامہ اپنی پانچویں سال گرہ کے موقع پر انجام دیا۔ اسپتال میں اس نے اخباری نامہ نگاروں کو بتایا:’’میرے لیے وہ سردی ناقابل برداشت تھی، پھر میں بہت دیر سے بھوکی بھی تھی، لیکن یہ سچ ہے کہ نہ میں ڈری اور نہ خوف زدہ ہوئی۔ میں چلتی رہی، میں جنگل میں بھی چلی اور منجمد دریا کے کنارے کنارے بھی، کیوں کہ مجھے چلنا تھا، مجھے رکنا نہیں تھا، میرے دادا میرا انتظار کررہے تھے، اسی احساس نے مجھے منزل تک پہنچادیا۔‘‘

کسی اخباری نامہ نگار نے اس سے یہ سوال کیا:’’یہ بتاؤ کہ تم نے اتنی موٹی برف میں اپنا راستہ کیسے تلاش کیا؟‘‘
اس نے جواب دیا:’’میرے دادا کے فارم کے آس پاس بہت سے فارم ہاؤس ہیں مگر وہ سب اس وقت ویران پڑے تھے، مگر وہاں آنے اور جانے والی گھوڑے والی سلیجوں کے نشان اس حد تک صاف تھے کہ میں انہی نشانوں پر چلتی رہی، ان نشانوں نے مجھے میری منزل تک پہنچادیا۔ حالاں کہ وہ اندھیرے میں دکھائی نہیں دے رہے تھے، مگر میں چوں کہ انہیں پہلے بھی دیکھ چکی تھی، اس لیے اندازے چلتی رہی اور میرے اندازے بالکل صحیح ثابت ہوئے۔‘‘

سگلانا سلچک کو اپنی ماں Eleanora سے بہت پیار ہے، مگر بعد میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ان پر بچی کے حوالے سے بے پروائی اور غفلت کا مظاہرہ کرنے کا الزام ہے اور انہیں عدالت میں طلب کیا جاسکتا ہے۔ ان سے یہ پوچھا گیا:’’جب تم یہ بات اچھی طرح جانتی تھیں کہ اس بچی کے دادا اور دادی بہت کمزور اور ضعیف ہیں اور وہ دونوں ہی اس بچی کی نگہ داشت نہیں کرسکتے تو تم نے اس ننھی منی سی بچی کو ان کی پاس کیوں چھوڑا تھا، جب کہ اس بچی کے دادا نابینا بھی ہیں اور مرنے والی دادی پہلے ہی دل کی مریضہ تھیں، پھر بھی تم نے اپنی ننھی منی بچی ان کے پاس چھوڑ دی، کیوں؟ اس کا جواب دو!‘‘

اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت اس مقدمے کا کیا فیصلہ سناتی ہے۔ ویسے تو وہ ایک ایسی ہیروئن کی ماں ہے جس نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان سے غفلت تو ہوئی ہے۔ کاش وہ اس بچی کی ذمے داری اپنے ساس سسر کو نہ دیتیں، لیکن اگر ایسا ہوتا تو اس مشکل گھڑی میں مدد طلب کرنے کون جاتا؟

سگلانا کا کہنا ہے کہ میری 60سالہ دادی اب دنیا سے جاچکی ہیں، میں ان سے بہت پیار کرتی ہوں اور انہیں کبھی نہیں بھول سکوں گی۔ ان کی موت نے مجھے زندگی کا ایک اور رخ بھی دکھا دیا ہے، اور وہ رخ ہے اپنے مقصد سے پیار۔ جب انسان کو اپنا مقصد عزیز ہوتا ہے تو وہ ہر مشکل برداشت کرلیتا ہے۔

اس سب کے باوجود علاقائی گورنر نے سگلانا اور اس کی ماں کو ایک مقامی مرکز صحت میں کچھ عرصہ قیام کرنے کی پیشکش کی ہے، تاکہ بچی کی دیکھ بھال بھی کی جاسکے اور وہ صحت یاب ہوجائے جس کے تمام اخراجات مقامی حکومت برداشت کرے گی۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چوں کہ سگلانا کا تعلق چرواہوں اور گڈریوں کے خاندان سے ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ چرواہے بہت سخت جان ہوتے ہیں، یہ ہر طرح کے شدید اور بے رحم موسم میں بھی یہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں، شاید اسی لیے اس بچی میں اتنی ہمت تھی کہ وہ سب کچھ جھیل گئی اور پھر بھی زندہ رہی۔ سائبیریا میں ایسے بچے کم عمری سے ہی گھڑ سواری سیکھ کر دور دور کے سفر طے کرنے لگتے ہیں۔

یہ بچے مشکل حالات سے نہیں گھبراتے، یہ جنگلوں کے خطرات سے خوب واقف ہوتے ہیں اور ان سے نمٹنا بھی جانتے ہیں۔

اس کی دیکھ بھال کرنے والی ایک سوشل ورکر نے کہا:’’ویسے بھی سگلانا ایک بہادر بچی ہے، اس کی آنکھوں میں خوف کا شائبہ تک نہیں ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے خطے میں ایک ایسی ننھی منی اور نڈر ہیروئن پل رہی ہے جو آگے چل کر دنیا کے لیے ایک عظیم مثال بنے گی۔ ہم اسے اپنی بیٹی کی طرح سمجھتے ہیں اور اسے ہر روز پیار بھی کرتے ہیں۔ ہر روز اس جیسی چار سالہ بچیاں ایسے عظیم کارنامے انجام نہیں دیتیں۔ لیکن یہ بچی اپنی دادی کی موت کا دکھ ابھی تک نہیں بھولی، جب بھی ان کا ذکر اس کے سامنے ہوتا ہے تو یہ اداس ہوجاتی ہے۔‘‘

سگلانا نے اس کم عمری میں بہادری اور جرأت کا جو غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے، اس نے بے شمار لوگوں کو اس کا گرویدہ بنادیا ہے، انہوں نے اسے اتنے تحائف بھیجے ہیں کہ اس کے پاس رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچی ہے۔ مقامی سیاست داں اور راہ نما مسلسل اس سے ملنے آتے ہیں اور اس کی بہادری پر اس کی دل کھول کر تعریف کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔