مصور غم علامہ راشد الخیری

رئیس فاطمہ  بدھ 16 جنوری 2013

ہماری بڑی بدنصیبی ہے کہ ہم بہت جلد اپنے محسنین اور اسلاف کو بھول جاتے ہیں، اور صرف انھیں یاد رکھتے ہیں اور ان کے دن مناتے ہیں جن سے کوئی نہ کوئی فائدہ حاصل ہونے کے امکانات ہوں۔بڑے بڑے مشاہیر،عالم اور ادیب گمنامی کی چادر اوڑھے سو رہے ہیں۔اسٹیج پر محفلیں سجا کر صرف ان کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے جن کے والی وارث نام و نمود کی دوڑ میں مصروف ہیں۔

علامہ راشد الخیری کے نام سے اردو ادب کا کون سا قاری اورکون سا طالب علم ہوگا جو واقف نہیں ہوگا، لیکن افسوس کہ اس محترم شخصیت کو فراموش کردیا گیا جس کا خانوادے کا خانوادہ ادب سے وابستہ رہا ہے۔ جیسے ڈپٹی نذیر احمد، مولوی بشیر الدین، شاہد احمد دہلوی، رازق الخیری، صادق الخیری، خاتون اکرم، آمنہ نازلی، صائمہ خیری، زائرہ خیری، صادق الخیری اورصفورا خیری وغیرہ وغیرہ۔ یہ خانوادہ آج بھی ادب کی خدمت کر رہا ہے۔ علامہ صاحب کے بڑے صاحبزادے رازق الخیری، بیک وقت، مدیر، سوانح نگار، تاریخ و سیرت نگار، اور سفرنامہ نگارکی حیثیت سے اپنی منفرد اور علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ رازق الخیری کے صاحبزادے حاذق الخیری، ممتاز ماہر قانون، سندھ کے محتسب اعلیٰ کے علاوہ اپنی آپ بیتی ’’جاگتے لمحے‘‘ کی وجہ سے سماجی و ادبی زندگی میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔

اس پورے خاندان کے لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘‘۔ علامہ راشد الخیری جنھیں ان کی دل سوز نثر کی وجہ سے ’’مصور غم‘‘ بھی کہا جاتا ہے بہت ساری حیثیتوں کی وجہ سے اردو ادب کے اولین معماروں میں شامل ہیں۔ آج جو لوگ ’’نسائی ادب‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ نسائی ادب کے علمبرداروں میں راشد الخیری کا کتنا بڑا حصہ ہے۔انھوں نے مسلمان عورتوں کی حالت زار دیکھی، ہندو عورتوں کی صورت بھی ان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں تھی۔

کیونکہ وہ ایک ایسا ملا جلا معاشرہ تھا جہاں ہندو اور مسلمان جسم کے دو ہاتھوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ایسے میں علامہ نے نہ صرف عورتوں کے حقوق کی پامالی کے خلاف قلم اٹھایا بلکہ ان کی دونوں بہوؤں خاتون اکرم اورآمنہ نازلی نے اپنے اپنے حقیقی ناموں سے مضامین لکھے جب کہ ان سے پہلے عموماً اپنے بیٹوں اورشوہروں کے نام سے لکھتی تھیں۔

علامہ راشد الخیری کا سب سے بڑا کارنامہ ماہنامہ ’’عصمت‘‘ کا اجراء تھا۔ جون 1908 میں اس کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا اور 105 سال گزر جانے کے بعد بھی آج پورے اہتمام سے شایع ہورہا ہے۔ سب سے پہلے مدیر علامہ صاحب تھے۔ 17 نومبر 1935 میں ان کے انتقال کے بعد جناب رازق الخیری نے ’’عصمت‘‘ کی ادارت اور دیگر ذمے داریاں پوری طرح سنبھال لیں جب کہ ان کے محترم اور جہاندیدہ والد نے اپنی زندگی ہی میں ’’عصمت‘‘ کی ادارتی ذمے داریاں 1923 میں انھیں تفویض کردی تھیں۔ انھوں نے دسمبر 1979 تک یہ ذمے داریاں نبھائیں اور ’’عصمت‘‘ کی اشاعت میں ایک دن کا بھی فرق نہ آیا۔ ان کی وفات کے بعد کچھ عرصے راشد الخیری کے چھوٹے صاحبزادے طاہر الخیری نے یہ فرائض بخوبی نبھائے اور ان کے انتقال کے بعد مکمل طور پر ’’عصمت‘‘ کی ذمے داری علامہ راشد الخیری کی ہونہار پوتی صفوراخیری کے کاندھوں پر آپڑی جو خود بھی ایک صحافی، شاعرہ اور ادیبہ ہیں۔صفورا نے نہایت نامساعد حالات میں ’’عصمت‘‘ کو گود لیا اور اسے ایک نئے رنگ و روپ کے ساتھ پیش کیا۔

صفورا کی محنت ’’عصمت‘‘ کے صفحات میں صاف نظر آتی ہے۔ ’’عصمت‘‘ میں بڑی بڑی نامورخواتین نے مضامین لکھے جن میں سے چند نام یہ ہیں۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ، مسز عبدالقادر، خجستہ بانو سہروردی، نذر سجاد حیدر، بلقیس بیگم،صغریٰ ہمایوں، جہاں بانو نقوی، خورشید آراء بیگم، جمیلہ بیگم، امت الوحی، بیگم صوفی پاشا، نورالصباح بیگم اور قرۃ العین حیدر۔ علامہ راشد الخیری نے اصلاح نسواں کا بیڑہ اٹھایا تھا اور اس نیک مقصد کے لیے انھوں نے کسی جلسے یا تقریروں کا سہارا لینے کے بجائے، افسانوں اور ناولوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اعلیٰ اقدار کے تہذیبی معاشرے میں کتاب اور ادب کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ علامہ صاحب کے پھوپھا ڈپٹی نذیر احمد پہلے ہی لڑکیوں کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے اس کی ابتداء ’’مراۃ العروس، بنات النعش اور توبۃالنصوح، فسانہ مبتلا‘‘ اور دیگر ناولوں سے کرچکے تھے۔

’’مراۃالعروس‘‘ نہ صرف اردو کا پہلا ناول قرار پایا بلکہ اسے انگریز حکومت کی طرف سے نقد انعام اور تعریفی سند بھی ملی۔ دلّی کے مسلمان گھرانوں کی لڑکیوں کی تربیت کے لیے اس ناول کا گھر میں ہونا اور لڑکیوں کو پڑھوانا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ لڑکیوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے میں ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ علامہ صاحب بھی یہ بات جان گئے تھے کہ کہانی سے انسان کی دلچسپی ازل سے ہے ۔ ’’الف لیلیٰ‘‘ میں کہانی سننے کی چاٹ ہی نے شہزادے کو لڑکیوں کے قتل عام سے باز رکھا۔ کیونکہ شہرزاد کو شہزادے کی اس دلچسپی کا پتہ تھا۔

اس لیے وہ روز ایک کہانی سناتی تھی اور اس کا قتل اگلے روز کے لیے ٹل جاتا تھا۔ اس طرح ایک ہزار ایک کہانیاں وجود میں آگئیں۔لہٰذا انسانی فطرت کے اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ صاحب نے جو ناول اور افسانے لکھے ان کا مرکزی کردار عورتیں ہی تھیں۔ ان میں تقریباً 19 ناولز اور 37 افسانوی مجموعے شامل ہیں۔ علامہ صاحب اور ان کے خانوادے کی کتابیں عصمت بک ڈپو نے شایع کی ہیں۔ ایک زمانے میں ’’عصمت کا دسترخوان‘‘ کا بڑا شہرہ تھا اور تقریباً یہ کتاب ہر گھر میں موجود ہوتی تھی۔ میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ کھانا پکانے کی بعد کی کتابیں زیادہ تر عصمتی دسترخوان ہی کا چربہ ہیں۔ جس میں زیادہ تر تراکیب صفوراخیری کی والدہ محترمہ آمنہ نازلی ہی کے کھانوں کی ہیں جو باقاعدہ آزمودہ ہیں۔

علامہ راشد الخیری نے افسانوں اور ناولوں کے علاوہ تاریخی ناول بھی لکھے جن میں ’’شاہین ودراج، تیغ کمال، ماہ عجم، آفتاب دمشق اور اندلس کی شہزادی‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ تاریخ و سیرت پر چھ ناول اورلڑکیوں کی گھریلو تعلیم و تربیت پر تقریباً چوبیس مضامین کے مجموعے بھی شامل ہیں۔ لیکن ان نصیحت آموز مضامین میں بھی دلچسپی کا عنصر اتنا ہے کہ ایک بار شروع کرنے کے بعد آخر تک قاری کی دلچسپی قائم رہتی ہے۔ علامہ صاحب کے دو شعری مجموعے ’’روداد قفس‘‘ اور ’’گرفتار قفس‘‘ کے نام سے شایع ہوچکے ہیں۔ ان کی پوری زندگی تصنیف و تالیف سے عبارت تھی۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی طبقہ نسواں کی حمایت کی، ان کے مصائب و مسائل کے حل تلاش کیے۔ بقول علی عباس حسینی ’’وہ مسلمان لڑکیوں کے سرسید تھے۔‘‘

ماہنامہ ’’عصمت‘‘ کے علاوہ علامہ راشد الخیری نے دو اور پرچے بھی جاری کیے تھے ’’جوہر نسواں‘‘ اور ’’بنات‘‘ یہ دونوں پرچے1934 اور 1927 میں جاری ہوئے۔ دونوں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق تھے۔ ’’جوہر نسواں‘‘ علامہ نے اپنی بہو اور رازق الخیری کی پہلی بیگم خاتون اکرم کی یاد میں نکالا تھا۔ جو شادی کے صرف دو سال بعد انتقال کرگئی تھیں۔ اس پرچے کی خاصیت یہ تھی کہ اس میں دستکاری کی تعلیم دی جاتی تھی، یہ پرچہ ہنرمند خواتین میں بہت مقبول تھا۔

کیسے لوگ تھے یہ جو لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کو کل وقتی کام سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ اگر لڑکی کی تربیت میں کمی رہ گئی تو نہ وہ اچھی بیوی بن پائے گی، اور نہ اچھی ماں۔ آج اسی اہم بات کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ دنیاوی تعلیم پر سارا زور ہے۔ لڑکیاں بغیر کسی پلاننگ کے ڈاکٹر اور انجینئر بن رہی ہیں، ایم بی اے کر رہی ہیں، لیکن گھریلو تربیت سرے سے ناپید ہے۔ رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کردی ہے۔ اسی لیے طلاقوں کی شرح خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ آج مائیں بیٹیوں کو ایسی تربیت دے کر سسرال بھیج رہی ہیں، جہاں جاتے ہی وہ ساس اور سسر کے متعلق منفی پروپیگنڈا شروع کردیتی ہیں، کیونکہ انھیں ماں اور باپ کا پورا تعاون اس معاملے میں حاصل ہے۔ شریف اور خاندانی لڑکے بد فطرت، لڑاکا اور آسیب زدہ بیویوں کو صرف اولاد کی خاطر برداشت کر رہے ہیں۔

ماں باپ سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا ہے۔ ماں باپ نے بھی بیٹے کی خاطر چپ سادھ لی ہے کہ اس کا گھر بسا رہے۔ لیکن نا سمجھ مائیں اور باپ بیٹی کو سمجھانے کے بجائے اس کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ کاش! ان گھرانوں کی عورتوں نے علامہ راشد الخیری اور ڈپٹی نذیر احمد کی کتابیں پڑھی ہوتیں تو آج گھر یوں برباد نہ ہوتے۔ معمولی معمولی باتوں پر لڑکیاں طلاقیں نہ مانگتیں۔آئے دن بڑے بڑے لوگوں کے دن منائے جاتے ہیں، لیکن افسوس کہ طبقہ نسواں کے اتنے بڑے علمبردار کو لوگوں نے فراموش کردیا، کسی ادارے نے نہ ’’عصمت‘‘ کے 105 سال کو سراہا نہ ہی کسی ادارے خصوصاً آرٹس کونسل کو علامہ راشد الخیری کے حوالے سے کوئی سیمینار منعقد کرنے کا خیال آیا۔ اتنے بڑے آدمی کے ساتھ ایسی بے توجہی۔۔۔۔؟ قابل افسوس ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔