’’آ بیل مجھے مار‘‘

ایس نئیر  اتوار 20 جنوری 2013
s_nayyar55@yahoo.com

[email protected]

امریکی شہرکے مُضافاتی علاقے میں، سڑک کے کنارے ایک پولیس کارکھڑی تھی ،جس کا عملہ ویک اینڈ گزار کر آنے والی گاڑیوں کو چیک کر رہا تھا ۔ پولیس کار کے عملے نے ایک گاڑی روکی ، گاڑی کے ڈرائیور سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس آفیسر کو شک ہوا کہ کار کے مالک نے قانون کے مطابق مقررکردہ مقدار سے زیادہ شراب پی رکھی ہے اور اِس حالت میں ڈرائیونگ کرنا دوسروں کے لیے اور خود کار ڈرائیور کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ۔

پولیس آفیسر نے پی گئی شراب کی مقدار کو جانچنے والا آلہ گاڑی سے نکال کر ،کار کے ڈرائیور کو چیک کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ آلہ کام نہیں کر رہا ہے ۔ آلے میں اتفاقاً کوئی تیکنیکی خرابی پیدا ہوگئی ہے ۔ پولیس آفیسر نے خالص امریکی اسٹائل میں کندھے اُچکا کر بے بسی کا اظہار کیا اور ڈرائیور کو جانے کی اجازت دے دی ۔ کار کے مالک نے بھی کندھے اُچکائے اور کار میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا ۔ لیکن فوراً ہی کار ، ریورس ہوکر واپس آئی ۔ کار کا مالک گاڑی سے اُتر کر پولیس آفیسر سے بولا ’’ آفیسر ! میں ایک الیکٹرانک انجینئرہوں اگر آپکو اعتراض نہ ہو تو کیا میں شراب کی مقدار جانچنے والے آلے کو ایک نظر دیکھ سکتا ہوں ؟‘‘ پولیس آفیسر کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا ، اُس نے آلہ ڈرائیور کے حوالے کردیا ۔

ڈرائیور نے آلے کو الٹ پلٹ کر دیکھا ، جیب سے ٹیسٹر نکال کر آلے کے سرکٹ اور تاروں کو ہلایا جلایا ، پھر ٹیسٹر سے ایک چھوٹے سے اسکرو کو ٹائٹ کیا تو آلہ کام کرنے لگا ۔ پولیس نے انجینئر کا شکریہ ادا کر کے آلہ واپس لیا اور اُس آلہ سے انجینئر صاحب کو چیک کیا تو آلہ کے مطابق انجینئر صاحب نے واقعی مقررہ مقدار سے زائد شراب چڑھا رکھی تھی اور وہ اِسی حالت میں ڈرائیونگ بھی کر رہے تھے ۔ بس پھر چند ہی لمحوں بعد انجینئر صاحب مقررہ حد سے زائد مقدار میں شراب پی کر ڈرائیونگ کرنے کے جُرم میں گرفتار ہو کر پولیس اسٹیشن کی طرف روانہ کر دیے گئے ۔ جن ریاستوں میں قانون کی حکمرانی ہو ، وہاں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ لیکن جن معاشروں میں قانون کی حکمرانی نہ ہو ، وہاں ایسا ہونا کوئی ضروری نہیں ہے ۔

مگر ایک بات ہر معاشرے میں طے شدہ ہے کہ اگر کسی بھی بیل کو لال کپڑا دکھا کر یہ دعوت دی جائے کہ ’’ آ بیل مجھے مار ‘‘ تو پھر یہ بیل کی مرضی اور موڈ پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ یہ دعوت قبول کر کے ، دعوت دینے والے کو ٹکر مارتا ہے یا نہیں ؟ امریکی انجینئر بھی شراب کی مقدار جانچنے والے آلے کو دُرست کرنے کی پیشکش کر کے ، امریکی پولیس کو کچھ ایسی ہی دعوت دے بیٹھا تھا ۔ اصل میں یہ سب قدرت کا کھیل ہوتا ہے ۔ جب خدا کو کسی فرد ، یا قوم کی بہتری مقصود ہوتی ہے تو وہ ایسے راستے نکال دیتا ہے جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے ہیں ۔ اِسی طرح جب وہ کسی کو عروج سے زوال کے سفر پر روانہ کرنا چاہتا ہے تو کسی بھی معمولی سی حرکت کو اِس کا سبب بنا دیتا ہے ۔

وہ فرعون کو نمونہ عبرت بنانے والے موسیٰ کو اُسی کے محل میں پہنچا کر ، فرعون کو ہی موسیٰ کی پرورش کی ذمے داری بھی سونپ دیتا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ خدا موجود ہے ؟ اِسی لیے تو حضرت علیؓ نے فرمایا تھا ’’ میں نے خدا کو اپنے ارادوں میں ناکامی سے پہچانا۔‘‘ اِس کی ایک زندہ مثال ہماری عدالتِ عظمیٰ ہے ۔ چیف جسٹس محترم افتخار چوہدری صاحب کو اپنے وقت کے آمر مطلق جنرل ( ریٹائرڈ ) پرویز مشرف نے غیر فعال کرتے وقت سوچا بھی نہ تھا کہ اُن کا یہ عمل دراصل ، اُن کے زوال کا نُکتہ آغاز ثابت ہوگا ۔ اِسی طرح یوسف رضا گیلانی صاحب ، جو سینہ ٹھوک کر فخریہ اعلان کرتے تھے کہ ’’ میں نے اپنے حکم نامے کے ذریعے موجودہ عدلیہ کو بحال کیا ہے ‘‘ ، نہیں جانتے تھے کہ وہ اِسی عدلیہ کی حکم عدولی پر توہین عدالت میں سزا پا کر اپنی وزارتِ عظمی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔

گیلانی صاحب نے کیسے ، کب اور کس صورتحال میں یہ حکم نامہ جاری کیا تھا وہ ایک الگ داستان ہے ، لیکن گیلانی صاحب دعویٰ تو یہی کرتے تھے کہ عدلیہ کو بحال میں نے کیا ہے ۔ میاں نواز شریف کے ساتھ تو بالکل وہی کچھ ہوا جو اُس امریکی انجینئر کے ساتھ ہوا تھا ۔ اصغر خان کیس میں انھیں بالکل اُسی الیکٹرانک آلے کی طرح نپا تُلا گیا اور انصاف پر مبنی فیصلہ سنا دیا گیا۔ ایسا ہی کچھ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے لانگ مارچ میں شریک ہونے والے ہزاروں مخلص عوام اور اِس ملک کے 98 فیصد غریب عوام کے حق میں ہوا ۔ ڈاکٹر صاحب اور حکومتی اتحاد کے جن چیدہ چیدہ منتخب اور سرکردہ نمایاں افراد نے ، ڈاکٹر صاحب کے کنٹینر میں بیٹھ کر اور جس معاہدے پر دستخط کر کے ، تحریری طور پر یہ تسلیم کیا کہ آیندہ الیکشن میں کون کون سے اُمید وار انتخابات لڑنے کے لیے نااہل قرار پائیں گے ، دستخط کرنے والوں کی اکثریت خود اِس نا اہلیت کے معیار پر پورا اُترتی ہے ۔

حتیٰ کہ خود ڈاکٹر طاہر القادری صاحب بھی فی الحال انتخاب لڑنے کی اِن شرائط پر پورے نہیں اُترتے ۔ تا و قتیکہ وہ اپنی کینیڈا کی شہریت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ نہیں کرلیتے ۔ وزیراعظم خود رینٹل پاور کیس میں ، نیب کے مطابق ایک بڑے ملزم ہیں ، جن کے پاس یہ معاہدہ بصد احترام و اہتمام دستخط کے لیے پرائم منسٹر ہاؤس لے جایا گیا تھا ۔ اور اِس معاہدے کے توثیق کنندہ ، یعنی صدرِ مملکت صاحب تو پچھلے بیس برسوں سے مختلف قسم کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ گوکہ اِن میں سے کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہوا ہے ۔ لیکن ’’ عدالتی آلہ‘‘ تو بہرحال بالکل دُرست حالت میں کام کر رہا ہے ۔ اِس تاریخی دستاویز پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک صاحب ایسے بھی ہیں جن کے اکائونٹ میں کسی نا معلوم شخص نے ، نا معلوم وجوہات کی بنا پر ، خوامخواہ کروڑوں روپے جمع کروا دیے تھے ۔

ایک صاحب ایسے بھی ہیں جنہوں نے گزشتہ برس مبلغ 28 روپے انکم ٹیکس جمع کروایا تھا ۔ ایک صاحب جھوٹے یا سچّے فوجداری مقدمات میں ملوث قرار دیے جاتے ہیں ۔ کیا یہ قدرت کا عجیب و غریب کھیل نہیں کہ قدرت اُنہیں افراد کے ہاتھ سے خود اُن ہی کے خلاف اپنے فیصلے تحریر کروا رہی ہے ، جو قوم کی کشتی کے ناخدا بنے ہوئے ہیںاور فائدہ اُن مظلوم لیکن پُر عزم اور متحد عوام کو پہنچنے والا ہے ، جو اسلام آباد کی سڑکوں پر چار ڈگری درجہِ حرارت اور برستی بارش کی ٹھنڈی پھواروں میں کھُلے آسمان تلے ، کسی معجزے کے منتظر بیٹھے تھے ۔ اور آخر کار یہ معجزہ ہو ہی گیا اور کیوں نہ ہوتا ؟ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارا حکمران طبقہ اِس ملک کے غریب و مظلوم کروڑوں عوام کو مسلسل لہرا لہرا کر لال کپڑا دکھا رہا تھا اور دعوت دے رہا تھا کہ ’’ آ ، بیل مجھے مار ‘‘ آخر کار بیل مشتعل ہو ہی گیا ۔

فیض تو یہی حسرت لے کر اِس دُنیا سے کوچ کر گئے کہ ’’ ہم دیکھیں گے ، ہم دیکھیں گے ۔ جب راج کرے گی خلقِ خدا ، ہم دیکھیں گے ۔‘‘ فیض تو یہ نہ دیکھ سکے ، لگتا ہے کہ ہم ضرور عنقریب یہ دیکھنے والے ہیں ۔ شاید خلقِ خدا کے راج کرنے کا وقت آپہنچا ہے ۔ کاش کوئی فیض صاحب تک یہ خبر پہنچا دے کہ وہ جو پیش گوئی کر گئے تھے ’’ قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم ، اور نکلیں گے عشاق کے قافلے ‘‘ فیض صاحب ، عشاق کے یہ قافلے آخر کار نکل آئے ہیں ۔ اِس دستاویز پر دستخط کرنے والوں کی نیّت اور ارادے خواہ کچھ بھی ہوں ، عشاق کی سمجھ میں کم سے کم یہ تو آگیا ہے کہ اِنکی پارلیمنٹ میں کس قسم کے لوگ ہونے چاہئیں اور وہ کون لوگ ہیں ، جنھیں وہاں نہیں ہونا چاہیے ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔