عرب دنیا میں نئی صف بندی اور ہم

انیس باقر  جمعـء 23 جون 2017
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

قبل اس کے کہ عرب دنیا میں نئی صف بندی پر گفتگو کی جائے پرانی صف بندی کے کچھ احوال کا تذکرہ کرتا چلوں جس کی ابتدا امریکا نے نائن الیون کے نام سے کی۔ یہ تاریخ کا عجب المیہ ہے کہ سزا اس ملک کو ملی جس کا اس جرم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ صدام حسین کا نہ تو طالبان سے کوئی تعلق تھا اور نہ دہشت گردی کے واقعات سے، مگر نائن الیون کے خودکش فضائی حملہ آور جن کا تعلق سعودی عرب سے تھا اس کی سزا عراق کو ملی اور دس لاکھ عراقی عوام کو لقمہ اجل بنایا گیا اور اس کی آڑ میں داعش کی پرورش کی گئی۔ جب عراقی فوجی طاقت بالکل نابود ہوگئی یہاں تک کہ مقامی طور پر کوئی فوج پولیس فورس باقی نہ رہی تو داعش وجود میں آگئی۔

عراق طوائف الملوکی کی اصل تصویر بنا ہوا تھا۔ ایسے میں شام کے بیشتر علاقے میں داعش اور النصرہ کے علاوہ امریکی نواز نام نہاد جمہوری اور اسلامی قوتوں کی پرورش ہو رہی تھی۔کیوں کہ امریکا کو جمہوریت کے نفاذ میں بہت بڑی دلچسپی شام میں رہی ہے کیوں کہ یہ شام ہی ہے جو عرب دنیا میں اسرائیل کا حقیقی دشمن ہے۔ یہ محمد مرسی جو جمہوری طور سے مصر میں جیت کے آئے تھے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ان کو ٹھکانے لگا دیا اور اب جنرل الفتح السیسی وہاں کے جمہوری اسلامی حاکم ہیں جنھیں امریکا اور سعودی حکومت کی تائید حاصل ہے۔

ابتدا میں ترکی بھی مصر کی فوجی حکومت اور عسکریت پسندوں کا معاون تھا مگر ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد اور امریکا کی خاموشی نے طیب اردگان کو عملی طور پر مصر اور سعودی الائنس کا رفتہ رفتہ مخالف بنادیا۔ بلکہ اب صورتحال یہ بنی ہے کہ قطرکی حمایت میں ترکی کے فوجی دستے پہنچ چکے ہیں اور اب عرب دنیا میں نئی صف بندی سامنے آگئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ جب سے ریاض سے ایران مخالف آواز بلند ہوئی اور امریکا نے کثیر المقدار اسلحوں کی ڈیل کی قطر نے ایران کی حمایت میں آواز بلند کی اور جو بھی سعودی بادشاہت کا ستون تھا اس میں بھونچال سا آگیا۔

پاکستان کی خارجہ حکمت عملی میں غیر جانبداری محسوس ہو رہی ہے۔ یہ عمل بھی ملکی اسٹیبلشمنٹ اور مجموعی طور پر کسی حد تک سیاست دانوں کا مشورہ محسوس ہوتا ہے اس کے علاوہ پاکستان کا سی پیک کے معاہدے کے اثرات کا بھی دخل ہے کیوں کہ عالمی سطح پر روس اور چین کی پالیسی ایران نواز ہے لہٰذا ان حالات میں پاکستان کو تو نیوٹرل Neutral ہونا تھا اور غیر جانبداری کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کیوں کہ کشمیر کے معاملے میں ایران کشمیریوں کا ہمنوا ہے گوکہ بھارت ایرانی تیل کا بڑا خریدار ہے، مگر وہ کشمیر کازکو اسلامی بنیادوں پر اولیت دیتا ہے مگر، اگر پاکستان نے ایران کی طرف سے سرد مہری کا مظاہرہ جاری رکھا تو ایران اور پاکستان کے مابین اختلافات منظر عام پر آجائیں گے کیوں کہ سعودی اور ایران تعلقات قطر کے واقعے کے بعد کشیدگی میں نمایاں ہوگئے ہیں جب کہ امریکی تھنک ٹینک سعودی عرب اور بھارت سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے اور یہی حال اسرائیل اور بھارت کا بھی نمایاں قربت کا ہے لہٰذا پاکستان امریکا تعلقات اور خلیجی ریاستوں کے تعلقات میں ایک چھوٹا سا خلیجی ملک بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔

ویسے تو پاکستان خارجہ محاذ پر امریکا کا قریب ترین ساتھی بن رہا تھا جو سی پیک کے روس چین موقف کے ساتھ نہیں ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل بھی سی پیک کے اصولی موقف کے خلاف ہے۔ عرب علاقوں میں یہ افواہیں گشت کر رہی ہیں کہ داعش کو نابود کرنے کی امریکی پالیسی محض ایک دکھاوا ہے۔ کیوں کہ داعش کے لوگ جب زخمی ہوتے تھے اور وہ شام کے بارڈر کے نزدیک ہوتے تو زخمیوں کو مرہم پٹی اور ابتدائی طبی امداد کے لیے اسرائیلی علاقوں میں لے جانا ایک عام سی بات ہوا کرتی تھی گویا عرب ممالک میں خصوصاً خلیجی ممالک میں خلیج بڑھتی جا رہی ہے اور صدر امریکا کے دورہ اسرائیل اور سعودی عرب کے بعد اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی لمحہ ایسا آسکتا ہے کہ صف بندی اور جنگی نمائش کسی بھی لمحہ حقیقت کا روپ دھار سکتی ہے جو اسلحے کو ٹھکانے لگانے کا بہترین ذریعہ بن سکتی ہے۔ امریکا کی پالیسی کا جدید نکتہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسی جنگ چھیڑے جس میں ایران تنہا رہ جائے۔ مگر قطر کے بیچ میں آنے سے یہ پالیسی بالکل ناکام ہوگئی اور جنگ وقتی طور پر ٹل گئی ہے۔ اس لیے امریکا نے اب ایران کے میزائل سسٹم کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے اور دنیا کو اس پر متحد کرنا ہے مگر تقریباً ہر ملک نے درمیانی یا دور مار میزائل بنا رکھے ہیں۔ اس لیے ٹرمپ کی موجودہ پالیسی فیل ہوگئی ہے۔

اس کی دو وجوہ اور بھی ہیں۔ ایک تو فلپائن میں داعش کے ایک علاقے میں اختلافی قبضہ اور کیوبا میں راہول کاسترو کے خلاف محاذ آرائی یعنی اوباما نے جو بھی تعلقات کیوبا سے استوار کیے تھے اس کے برعکس اس پر پابندیاں لگانا شرق اوسط سے لے کر جنوبی امریکا کے کونے کونے اور جنوبی کوریا تک کشیدگی نے دنیا کو ایک ہیجان میں مبتلا کردیا ہے یہ تو اللہ بھلا کرے، پاکستان کے ان پالیسی ساز اداروں کا جنھوں نے پاکستان کو شرق اوسط کے جنگی حصار سے باہر نکال دیا ورنہ مشرق وسطیٰ کے دلدل میں پاکستان کو ڈال دیا گیا ہوتا اور سی پیک کا منصوبہ اختلافی رنگ اختیارکرلیتا کیوں کہ روس کے ساتھ چین عالمی امور میں ہمراہ چل رہے ہیں حالانکہ کمیونزم کا اثر ان ممالک کی اقتصادی پالیسی سے جاتا رہا مگر پھر بھی خارجہ امور میں ان کی پالیسی میں اختلاف نہیں۔ اقتصادی ناکہ بندی کے امور اور استحصالی نظام کا خاکہ بھی موجود نہیں جب کہ امریکا اپنے استحصالی نظام کو تقویت دینے کے لیے شرق اوسط پر اپنا سیاسی تسلط جاری رکھے ہوئے ہے اور عراق پر داعش کا اثر جاری رکھنا چاہتا ہے کیوں کہ عراق کے صدر حیدرالعابدی ایران کے سیاسی ہمنوا کے طور پر ابھرے ہیں اور داعش کی موصل سے دیر سویر پسپائی امریکی پالیسی کے لیے ایک زبردست دھچکا ثابت ہوگا۔ لہٰذا پاکستان کی مشرق وسطی میں غیر جانبدار پالیسی ہی خوش آیند ثابت ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔