ایل ہیلیسوئیڈ شاپنگ مال جو بعد میں ایک جیل بن گیا

مرزا ظفر بیگ  اتوار 25 جون 2017
یہ دنیا کا پہلا ’’ڈرائیو تھرو‘‘ شاپنگ مال ہے جس کے اوپر کاریں دندناتی ہوئی چڑھ جاتی ہیں۔ فوٹو : فائل

یہ دنیا کا پہلا ’’ڈرائیو تھرو‘‘ شاپنگ مال ہے جس کے اوپر کاریں دندناتی ہوئی چڑھ جاتی ہیں۔ فوٹو : فائل

یہ وینے زوئلا کا جنوب وسطی کاراکاس ہے جہاں سان آگسٹائن کے بیچوں بیچ ایک چھوٹی سی قدرتی پہاڑی پر ایک بہت ہی شان دار اور پرشکوہ عمارت واقع ہے۔ اس عمارت میں ایک بہت پرپیچ اور گھومتی ہوئی ڈھلان بھی بنی ہوئی ہے۔ یہ بل دار ڈھلان جیسے جیسے مزید گھومتی ہے اور اوپر کی طرف بڑھتی جاتی ہے، ویسے ویسے پہلے سے بھی زیادہ ٹائٹ اور تنگ ہوتی چلی جاتی ہے، گویا اس کے بل یا پیچ اور بھی چھوٹے ہوجاتے ہیں۔

یہاں تک کہ وہ مقام آجاتا ہے کہ یہ اس کی چوٹی یا بلند ترین مقام تک پہنچ جاتی ہیں جس کے اوپر ایک بہت خوب صورت اور پرشکوہ گنبد بنا ہوا ہے جو دیکھنے میں اس عمارت کا تاج لگتا ہے۔ یہ گنبد دیکھنے میں بالکل نصف کروی محسوس ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس عمارت کا یہ انوکھا اور عجیب و غریب ڈیزائن کسی اور نے نہیں بلکہ رچرڈ بک منسٹر فلر نے بہ ذات خود ہی تیار کیا تھا۔ یہ اس کے اپنے دماغ کی نہایت انوکھی اختراع تھی جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

El Helicoide یا ہیلکس وینے زوئلا کے اہم ترین اور ناقابل فراموش قدیم ترین آثار میں سے ایک ہے جو جدت پسندوں کو ایک نئی تحریک دیتا ہے۔

تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ  El Helicoide جدید اور ہر طرح کی موڈرن اور سائنسی سہولیات سے آراستہ ایک ایسی عمارت تھی جسے تعمیر کرنے کی پلاننگ صرف اس لیے کی گئی تھی کہ یہ ایک ایسا اربن اسکلپچر یا شہری ڈھانچا بن جائے جو جدید فن تعمیر کا ایک ناقابل یقین نمونہ ہو اور دنیا بھر کے لوگ اسے دیکھنے آئیں تو حیران ہوں۔ ویسے بھی وینے زوئلا کے سنہری دور میں جب وہاں تیل کی دولت کی فراوانی تھی، اس وقت ایسی کسی غیرمعمولی عمارت کی تعمیر کوئی انوکھا خیال نہیں تھا، بلکہ اس وقت کے لوگوں نے اسے وقت کی اہم ضرورت قرار دیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کار کلچر اپنے عروج پر تھا اور وینے زوئلا میں کاریں رکھنے اور کاریں چلانے کا رواج تیزی سے پھیل رہا تھا۔

شاید اسی لیے  El Helicoide کا خیال ذہن میں آیا ہوگا، کیوں کہ یہ عمارت بننے کے بعد وینے زوئلا کی معیشت کو کہیں سے کہیں پہنچاسکتی تھی، کیوں کہ اس کے پیچھے بنیادی خیال یہ تھا کہ چوں کہ یہ عمارت صنعت و تجارت کا ایک اہم مرکز ہوگی، اس لیے یہ معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی، کیوں کہ مذکورہ بالا عمارت یا تجارتی سینٹر میں زیادہ تر تجارتی کمپنیوں کے دفاتر قائم ہونے تھے اور ان تک پہنچنے کے لیے اگر کوئی ایسی عمارت تعمیر ہوجاتی جس میں بیٹھے بیٹھے لوگ اوپر تجارتی مرکز تک پہنچ جائیں تو یہ آئیڈیا برا نہیں تھا، کیوں کہ یہ اس کی تجارتی سرگرمیوں کو بڑھاتا اور اس طرح اس ملک کی معیشت اور اقتصادیات کا شعبہ بھرپور طور سے ترقی کرتا۔ جب یہ آئیڈیا آرکیٹیکٹ کے ذہن میں آیا اور اس نے اس پر کام شروع کردیا تو دیکھنے اور سننے والے حیران رہ گئے، وہ اسے ایک تعمیراتی خانقاہ یا ایک تجارتی عبادت گاہ سمجھنے لگے تھے۔ اس کی تعمیر کا کام پورے جوش و خروش سے شروع ہوا اور طوفانی انداز میں آگے بڑھنے لگا، لیکن افسوس کہ یہ مال مکمل نہ ہوسکا، یہ جس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا، وہ کبھی پورا نہ ہوسکا۔

اس مجوزہ عمارت کو ذہن میں رکھ کر جو خواب دیکھا گیا تھا، اس کی تعبیر کبھی نہ مل سکی، بلکہ مایوسیوں اور ناکامیوں نے اس عمارت کو ایک خوف ناک عقوبت خانہ بنادیا جہاں قید سیاسی قیدیوں کی چیخیں گونجتی تھیں۔

یہ دنیا کا پہلا ’’ڈرائیو تھرو‘‘ شاپنگ مال ہے جس کے اوپر کاریں دندناتی ہوئی چڑھ جاتی ہیں۔ اس انوکھے شاپنگ مال میں لگ بھگ ڈھائی میل لمبا گھومتا ہوا اور چکر دار ریمپ بنایا گیا ہے جو اصل میں کاروں کے اس عمارت کے اوپر تک جانے کے لیے ہی تیار کیا گیا ہے۔ اس ریمپ کے ذریعے روزانہ بے شمار کاریں اس شاپنگ مال پر چڑھتی بھی ہی اور اترتی بھی ہیں اور مزے دار بات یہ ہے کہ یہ تمام کاریں بڑی عمدگی اور مہارت کے ساتھ بالکل دکانوں کے سامنے پارک کی جاتی ہیں کہ وہاں پہنچ کر دکانوں سے جو چاہو خرید لو۔

یہ شاپنگ سینٹر جہاں بنا ہوا ہے، وہ کوئی چھوٹی موٹی یا معمولی جگہ نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے تین سو دکانوں یا اسٹورز کے لیے یہاں جگہ مختص کی گئی تھی، ان دکانوں کے علاوہ اس جگہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل بننا تھا، ایک فلم تھیٹر کی بھی یہاں جگہ مخصوص کی گئی تھی جس میں سات اسکرین کی گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ کئی نمائشی ہال، ایک جیم، ایک سوئمنگ پول، ایک باؤلنگ گیلری، ایک نرسری اور ڈھیروں بہت سی دوسری چیزوں کے لیے بھی جگہ رکھی گئی تھی۔

اس پراجیکٹ کا آئیڈیا 1950کی دہائی میں نیو برگر، ڈرک بورن ہورسٹ اور جارج رومیرو گٹرز نے مشترکہ طور پر پیش کیا تھا اور یہ وینے زوئلا کے آمر اور صدر Marcos Perez Jimenez کے لیے بنایا گیا تھا۔

جب اس پراجیکٹ کی نمائش نیویارک کے میوزیم آف موڈرن آرٹ میں کی گئی تو اس کے ہر دیکھنے والے نے تعریف کی اور اسے جدید ترین ڈیزائن کہہ کر پکارا گیا۔

چلی کے نوبیل انعام یافتہ شاعر Pablo Neruda نے اس کے لیے یہ الفاظ ادا کیے:

’’بلاشبہہ یہ دنیا کی بہترین اور ناقابل یقین تخلیق ہے جو ایک آرکیٹیکٹ کے دماغ سے نکل کر دائمی وجود پاچکی ہے۔‘‘

پھر سیلواڈور ڈالی نے اس عمارت کو اندر سے سجانے اور سنوارنے کی پیشکش بھی کرڈالی۔ یہ عمارت تیزی سے مکمل ہونے لگی اور جب یہ تکمیل کے آخری مراحل میں تھی تو وینے زوئلا کے آمر Pérez Jiménez کی ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہوگیا، جب اس کے لیے فنڈز ہی نہ مل سکے تو پھر یہ پراجیکٹ مکمل کیسے ہوتا، چناں چہ یہ منصوبہ ادھورا اور نامکمل رہ گیا۔ نئی حکومت نے اس منصوبے کو مکمل کرنے میں کوئی دل چسپی ظاہر نہیں کی۔ اس پراجیکٹ کا تعمیراتی کام 1961میں یعنی اپنی تکمیل سے ایک سال پہلے ہی رک گیا۔ پھر 1975میں ایک بہت ہی طویل دیوالیہ پراسیس کے بعد یہ عمارت سرکاری ملکیت قرار دے دی گئی۔

اب تو اس عمارت کو مفت کا مال سمجھ کر اس میں زبردستی اور غیرقانونی طور پر گھس کر رہنے والوں نے اسے تاک لیا اور پہلی بار 1979 میں کچھ لوگ زبردستی اس کے اندر گھسے اور بے فکری سے رہنے لگے۔ یہ لوگ بھی مجبور اور بے بس تھے۔ دراصل ہوا یوں تھا کہ اس خطے میں حال ہی میں ایک مقام پر لینڈ سلائیڈنگ کا درد ناک واقعہ پیش آگیا تھا اور بڑے پیمانے پر لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔

ان کے رہنے اور پناہ لینے کا مسئلہ تھا، حکومت نے تو ان کی داد رسی نہیں کی، چناں چہ کوئی اور راستہ نہ پاکر ان لوگوں نے اس عمارت کو عارضی طور پر اپنی پناہ گاہ بنالیا اور اس میں ہر خطرے سے بے نیاز ہوکر رہنے لگی۔ وقت گزرتا چلا گیا اور عمارت میں رہنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ان سب نے اس میں زبردستی اور غیرقانونی طور پر رہائش اختیار کی تھی۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب اس عمارت میں غیرقانونی طور پر رہنے والوں کی تعداد دس ہزار سے بھی تجاوز کرگئی۔ اس طرح Helicoide ایک ایسی جگہ بلکہ ایک ایسا اڈا بن گیا جہاں منشیات کی خرید و فروخت بھی کھلے عام ہوتی تھی اور دیگر غیر اخلاقی کام بھی خوب دھڑلے سے ہوتے تھے۔

پھر جب 1982 کا سال آیا تو غالباً اس وقت کی حکومت کو اس عمارت کا خیال بھی آگیا جو ابھی تک بالکل ہی بے آسرا بنی ہوئی تھی۔ اس سال اس عمارت میں غیرقانونی طور پر مقیم پناہ گزینوں کو زبردستی یہاں سے ہٹایا گیا اور اسی وقت یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اب یہ عمارت ’’میوزیم آف ہسٹری اینڈ انتھراپولوجی‘‘ میں تبدیل کردی جائے گی۔ یہ فیصلہ ضرور کیا گیا تھا، مگر بدقسمتی سے ایسا کبھی نہ ہوسکا اور یہ عمارت میوزیم نہ بن سکی۔ اس کے بجائے اس عمارت کے لیے کچھ اور ہی فیصلہ ہوا، اس عمارت کو 1984میں وینے زوئلا کی انٹیلی جینس پولیس نے اپنے قبضے میں لے لیا اور اس انوکھی عمارت کو اپنا ہیڈکوارٹر بنالیا۔

اس عمارت میں بے شمار کمرے بنائے گئے تھے جو اصل میں بنیادی طور پر مختلف اشیا کے ڈسپلے اور خرید و فروخت کے لیے مختص کیے گئے تھے، ان کمروں کو اپنے قبضے میں لینے کے بعد وینے زوئلا کی انٹیلی جینس پولیس نے ان میں اپنے زیرحراست قیدی رکھنے شروع کردیے اور اکثر و بیش تر وہ ان سے تفتیش بھی کرنے لگے اور ان پر تشدد کرکے ان سے سچ بھی اگلوانے لگے، گویا وہ عمارت جو تجارتی مقصد کے لیے بنائی گئی تھی، بعد میں اس میں قیدیوں کو رکھنے اور ان سے تفتیش کا کام لیا جانے لگا۔

وینے زوئلا کے ثقافتی تاریخ داں Celeste Olalquiaga اس کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھا تھا:

’’اس عمارت کے جیل یا زندان خانے میں ڈھل جانے کے بعد اس کے درودیوار پر ایک انوکھی قسم کی تاریکی اور نحوست چھاگئی۔ بعد میں یہاں ہائی ٹیک سرویلنس آلات نصب کیے گئے اور جیل کے سبھی افسران اس بات پر بہت خوش تھے کہ اب وہ اپنی گاڑیوں میں سوار ہوکر اوپر جائیں گے ۔ اس انوکھی جیل میں سیاسی قیدی بھی رکھے گئے تھے جہاں ان پر تشدد بھی کیا جاتا تھا۔ اگر یہاں اوپر آکر کوئی فرد کسی بھی جگہ یا افراد کی تصویر لینے کی کوشش کرتا تو وہاں مامور SWAT کی ٹیمیں ایسے لوگوں کو روکتی تھیں، کیوں کہ یہ حساس مقام قرار پاچکا تھا اور یہاں کی کوئی بھی تصویر کھینچنا ممنوع تھا۔ اسی طرح اس کے اطراف میں قائم ہائی ویز سے بھی کوئی گزرنے والا شخص اس مقام کی کوئی تصویر نہیں بناسکتا تھا، اسے سیکیورٹی رسک قرار دیا جاتا تھا۔‘‘

سینٹرل وینے زوئلا یونی ورسٹی کا پروفیسر ویسنٹ لیکونا نے اس مقام کو ایک تضاد قرار دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا:’’یہ ایک ایسی عجیب و غریب جگہ ہے جو اصل میں پچاس کی دہائی میں فری تجارت کا ایک بے مثال مرکز بننے والی تھی اور اس جگہ کی وجہ سے یہاں تجارت خوب فروغ پاتی، مگر ایسا نہ ہوسکا، بلکہ اس کا الٹ ہوگیا اور یہ جگہ بعد میں ایک ایسی جیل مل گئی جس کی دنیا میں مثال نہیں مل سکتی تھی۔ اس جیل میں سیاسی قیدیوں کو رکھا گیا اور ان پر ظلم و تشدد کرکے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔‘‘

ایک مقامی این جی او نے بعد میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ وہ جیل یا عقوبت خانہ تھا جہاں ظلم و تشدد، غیرانسانی سلوک اور بدترین آمریت کے 145کیس نمٹائے گئے تھے اور اس وقت کی وینے زوئلا کی حکومت نے ظلم و بربریت کی انتہا کردی تھی۔ واضح رہے کہ مذکورہ بالا کیسز صرف جنوری 2014سے جون 2016 کے درمیان کے تھے۔

2012 میں انٹرامریکن کورٹ نے انسانی حقوق پر اس جیل یعنی Helicoide میں دی جانے والی سہولتوں کا جائزہ لیا تھا اور یہ نتیجہ نکالا تھا کہ یہ سہولتیں کسی بھی طرح اس جیل کے لیے مناسب نہیں ہیں، بلکہ اس طرح تو یہاں رکھے گئے سیاسی قیدیوں کی آوازیں دبانے کے لیے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔

اس کے باوجود Helicoide میں نہ صرف سیاسی قیدیوں کو قید رکھنے کا سلسلہ جاری رہا، بلکہ ان پر ظلم اور تشدد بھی حسب معمول کیا جاتا رہا۔

آخر اس شاپنگ مال El Helicoide کا منصوبہ ناکام کیوں ہوا؟ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہرین نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس کے حوالے سے جو پلان بنائے گئے تھے، وہ کسی حد تک غیرحقیقی تھے اور ان میں ذرہ برابر بھی حقیقت کے پہلو کو پیش نظر نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ ایک ایسا غیرمنافع بخش پراجیکٹ تھا جس کا مقصد اصل میں لوگوں کو متاثر کرنا اور ان پر ثقافتی اثرات مرتب کرنا تھا۔ اس پراجیکٹ کے منصوبہ ساز نے جو خواب دیکھا تھا وہ یہ تھا کہ یہ صارفین یا کنزیومرز کے لیے مفید اور کارآمد ہو، مگر اس نے دو غلطیاں کی تھیں: ایک تو لوکیشن یا اس منصوبے کے محل وقوع کو نظرانداز کردیا اور دوسرے یہ نہیں دیکھا کہ وہ جس جگہ اس عظیم پراجیکٹ کی تعمیر کرنے جارہے تھے، اس کے اطراف اور قرب و جوار میں صرف غریب برادریاں یا کمیونٹیز آباد تھیں جن کے درمیان میں یہ تجارتی فوارہ لگایا جارہا تھا، وہ بھی اتنے بڑی سطح پر۔

یہ پہاڑی بھی اس طرح کے مقام پر واقع تھی اور پھر وہاں رہنے والے زیادہ افراد غریب تھے جو کسی بھی طرح اس اہم تجارتی مرکز سے مستفید نہیں ہوسکتے تھے۔

پھر اس شاپنگ مال کے فیل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایک غلط مقام پر ایک جدید ترین عمارت کھڑی کرڈالی۔ نہایت غیر منطقی انداز تھا۔ اس عمارت کے ڈھائی میل کے ڈبل اوپر چڑھتے ہوئے چکردار زینے اور اسی طرح اس کے نیچے اترتے ہوئے ریمپ یا ڈھلوانیں

پھر ان پر واقع 300 اسٹور جو ان ریمپس کے ساتھ ساتھ واقع تھے، وہاں بالکل دکان یا اسٹور کے سامنے کار پارک کرنے کا آئیڈیا بھی لغو تھا۔ یہ آئیڈیا یورپ کی متعدد جدید عمارتوں اور موڈرن مالز سے متاثر ہوکر بنایا گیا تھا، مگر اس میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ یہاں اطراف میں ہر طرح غریبوں اور اوسط درجے کے لوگوں کی بستیاں ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے، اس لیے بھی یہ آئیڈیا فلاپ ہوگیا اور مستقبل کی ایک عظیم اور شان دار عمارت ایک زبردست کاروباری مرکز بننے کے بجائے جیل بن گئی۔ کہاں تو اسے اس ملک یعنی وینے زوئلا کی سیاسی اور معاشی ترقی کے لیے استعمال کیا جانا تھا اور کہاں اسے اس ملک کے اہم سیاسی لیڈروں کو قید اور تشدد کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد اس کی کام یابی کی کیا امید رہ جاتی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔