پودے اپنے بچاؤ کیلئے حملہ آور سنڈیوں کو ایک دوسرے کا نوالہ بنادیتے ہیں

ویب ڈیسک  جمعرات 13 جولائی 2017
سنڈیاں (کیٹرپلر) بعض حالات میں ایک دوسرے کو کھانے لگتے ہیں اور ان میں خود پودوں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

سنڈیاں (کیٹرپلر) بعض حالات میں ایک دوسرے کو کھانے لگتے ہیں اور ان میں خود پودوں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

وسکانسن: سنڈی یا کیٹرپلر اپنے انڈے سے نکلتے ہی پودوں کو ندیدوں کی طرح کھانے لگتے ہیں اور یہاں تک کہ بہت تیزی سے پھلوں اور سبزیوں کو بھی چٹ کرجاتے ہیں۔ ان سے محفوظ رہنے کےلیے بعض پودے بہت دلچسپ انداز میں اپنا دفاع کرتے ہیں اور وہ اس طرح سنڈیاں پودے کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو کھانے کی کوشش کرتی ہیں۔

ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ٹماٹر سمیت بہت سے پودے میتھائل جیسمونیٹ نامی ایک مرکب اس وقت خارج کرتے ہیں جب انہیں نقصان پہنچایا جائے یا کھایا جائے۔ اس طرح سنڈیوں کے کھاتے ہی پودے یہ کیمیکل خارج کرتے ہیں اور اطراف کے پودوں کو بھی خبردار کردیتے ہیں اور وہ بھی اس کام میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح پودے کے تنوں، پھلوں اور پتوں پر اس کیمیکل کی خفیہ پرت چڑھ جاتی ہے۔ اس سے پودے کا ذائقہ اتنا برا ہوجاتا ہے کہ وہ سنڈیوں کےلیے کھانے کے قابل نہیں رہتا۔

اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ ایک کیٹرپلر دوسرے پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو نوالہ بنانے لگتے ہیں اور یوں پودے قدرے محفوظ ہوجاتے ہیں۔ آخرکار کچھ کیٹرپلر ایک دوسرے ہی کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یونیورسٹی آف وسکانسن میڈیسن کے جان اوروک نے اپنی یہ تحقیقات نیچر نامی ریسرچ جرنل میں شائع کرائی ہیں۔

اس تحقیق سے ایک جانب تو پودوں کو کیڑوں سے بچانے میں مزید مدد ملے گی اور دوسری جانب حشرات کش ادویہ کے استعمال میں بھی بہتری واقع ہوگی۔ ماہرین کے مطابق اگر درجہ حرارت میں اضافہ ہوجائے تب بھی بعض اقسام کی مکھیاں ایک دوسرے کو کھانے لگتی ہیں۔

اس سے قبل ٹڈے بھی ایک دوسرے کی کھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تاہم مکمل سبزہ خور کیٹرپلر اگر بھوکے ہوں اور کھانے کو کچھ نہ ہوتو وہ ایک دوسرے کوکھانے لگتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔