حلال دولت۔ قانونی دولت

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی  منگل 25 جولائی 2017

اس وقت تو ذرایع ابلاغ کی بھرپور توجہ پنامہ کیس پر ہے۔ فیصلہ عدالتِ عظمیٰ کے معزز جج صاحبان نے کرنا ہے، رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے دلائل کورٹ روم کے باہرٹی وی پروگرامز اور اخباری کالموں میں بڑھ چڑھ کر دیے جارہے ہیں۔ بعض مبصر یا تجزیہ کار تو فیصلہ بھی سنا رہے ہیں۔

اس مقدمے میں اپنے من پسند فیصلے سے کسی کو پاکستان میں ایک نئی صبح طلوع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ فیصلہ مرضی کے خلاف آنے پر کسی کو ملک برسوں پیچھے جاتا محسوس ہورہا ہے۔ میں نے  بہت سوچا کہ اس کیس کے کسی بھی فیصلے سے ہمارے ملک میں عوام کے لیے کیا تبدیلی آئے گی…؟ مجھے تو کوئی بنیادی تبدیلی آتی محسوس نہیں ہوئی۔

پاکستان کے حکمرانوں میں وزیراعظم فیروز خان نون، خود صدر ایوب خان، وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، وزیر اعظم نواز شریف، جرنیلوں کے ہاتھوں، صدر یحییٰ خان حالات کے جبر سے رخصت ہوئے۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو، وزیر اعظم بے نظیر، وزیر اعظم نواز شریف آئین کے آرٹیکل 58-2B کے زور پر رخصت کیے گئے۔ وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی ، صدر پرویز مشرف کی ناراضی، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی وجہ سے وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔

ماورائے آئین یا آئین کے تحت یہ سب تبدیلیاں ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات میں کن بہتریوں کا سبب بنیں۔۔؟ ستر کے عشرے تک اسٹریٹ کرائم کی اصطلاح سے پاکستانی عوام واقف نہیں تھے۔ اسی کی دہائی میں متعارف ہونے والا یہ جرم سال بہ سال تیزی سے پھیلتا ہوا پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اسی عشرے میں متعارف ہونے والی منشیات کی وباء اب ملک کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔ناجائز اسلحہ ہر طرف عام ہے۔ اس دوران جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومتیں بھی رہیں اوروفاق میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کی منتخب عوامی حکومتوں کے ساتھ صوبوں میں ایم کیو ایم، مذہبی اتحاد ایم ایم اے، اے این پی، پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان میں مختلف جماعتوں کی منتخب حکومتیں بھی رہیں۔

73ء کا آئین بننے کے بعد چالیس سال سے زائد عرصہ بیت گیا، مرکز میں گیارہ سے زائد حکومتیں بنیں ہر حکومت میں بجلی کی مسلسل فراہمی عوام، صنعت کاروں، کسانوں، تاجروں کا خواب ہی بنی رہی۔سرما میں دریائی پانی میں کمی اور برسات میں شدید سیلاب ہنوز ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ امپورٹ میں مسلسل اضافے، ایکسپورٹ میں کمی سے تجارتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے پاکستانی روپے کی قدرکم ہوتی جارہی ہے۔

پاکستانیوں کو سب سے زیادہ روزگار اور ملک کو سب سے زیادہ فارن ایکسچینج دینے والا ٹیکسٹائل سیکٹر طویل عرصے سے بحرانوں کی زد میں ہے۔  ماحولیات کے تحفظ کے لیے کسی طرف سے کوئی سنجیدہ اور نتیجہ خیز کوششیں نظر نہیں آرہیں۔ جنگلات کے غیر قانونی کٹاو میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

انصاف تک ایک عام آدمی،غریب و متوسط طبقے کے افراد کی باآسانی رسائی قیام پاکستان کے ستر سال بعد بھی ایک مشکل ترین کام ہے۔ سرکاری دفتروں میں کاموں کے  لیے رشوت یا ’’نذرانوں‘‘ کے نرخ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جارہے ہیں۔ اب تو بعض منصفین کے گھروں سے بھی وہاں ملازم کم عمر بچوں پر شدید تشدد کی خبریں بھی باہر آرہی ہیں۔

یہ سب خرابیاں اس حقیقت کا اظہار ہیں کہ حکومت کسی کی بھی ہو ہمارے معاشرے پر وڈیرے، سردار، سرمایہ دار اوردیگر طاقت ور افراد کی ظالمانہ گرفت اور ناجائز آمدنی کا پھیلاؤ کم ہونے میں نہیں آرہا۔ہمارے ملک میں سیاستدان، حکمران، افسر، وڈیرے، تاجر صنعت کار یا زندگی کے دیگر شعبوں سے وابستہ افراد ہوں سب ہی ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جہاں سچ بولنا مشکل اور جھوٹ بولنا آسان و بظاہر فائدہ مند ہے۔

ہر نظام خواہ وہ اچھا ہو یا برا، اپنے سے منسلک افراد اور  فائدہ اٹھانے والوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ جو لوگ کسی نظام میں پنپتے ہیں وہ آگے چل کر اس نظام کے کسٹوڈین اور محافظ بن جاتے ہیں۔ اچھا نظام مثبت فکر، قانون پر عامل افراد و طبقات کا مددگار ہوتا ہے اور انھیں طاقت فراہم کرتا ہے۔ جس معاشرے میں اعلیٰ اقدار کے بجائے دولت کی اہمیت ہو، جہاں کالا پیسہ کمانا زیادہ آسان اور حلال رزق کمانا مشکل ہو، وہاں کئی  افراد اور طبقات کھلے عام یا در پردہ بلیک منی کو مزید آسانیاں فراہم کرنے والے نظام کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اس کام میں ایسے کئی لوگ بھی شامل ہونے لگتے ہیں، ملک میں آئین و قانون کی حفاظت اور ان پر عملدرآمد کروانا جن کا فرض منصبی ہے۔

پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ حکومتی امور اور معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والوں میں حصول دولت کی ریس ہے۔ دیگر کھیلوں کی طرح اس ریس کے بھی قواعد تو ہیں لیکن ان قواعد کی بنیاد جھوٹ بولنے میں باہمی تعاون پر ہے۔ افسوس کہ معاشرے میں فضیلت کا معیار دولت کو سمجھ کیا گیا ہے۔ جس کے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہو وہ اتنا ہی معزز قرار پاتا ہے خواہ یہ پیسہ رشوت کے ذریعے آرہا ہو یا ناجائز منافع خوری،بلیک مارکیٹنگ،ملاوٹ،کم تولنے، زمینوں پر ناجائز قبضوں سے آیا ہو یا اس دولت کے اصل ذرایع کمیشن اور کک بیکس ہوں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ عام لوگوں نے بھی اس صورتحال کو تسلیم کرتے ہوئے ناجائز دولت کو قبولیت دے دی ہے۔

کسی شخص کی خود کمائی ہوئی یا کسی اور طرح حاصل کردہ دولت کو دو میں سے ایک حیثیت دی جاسکتی ہے۔ قانونی دولت یا غیر قانونی دولت۔

ذاتی ملکیت میں وہ دولت جائز اور قانونی کہلائے گی جسے ملکی قانون کے مطابق جائز ذرایع سے حاصل کردہ ظاہر کیا جائے۔ ایک شخص کاروبار کے ذریعے پانچ کروڑ روپے کماتاہے لیکن انکم ٹیکس ادا کرتے وقت وہ اپنی آمدنی صرف پچاس لاکھ ظاہر کرتا ہے۔اس طرح اس کی ساڑھے چار کروڑ روپے کی آمدنی غیر قانونی ہوجاتی ہے۔ ٹیکس گوشوارے میں وہ اپنی کمائی ہوئی باقی رقم کا سورس مختلف ذرایع مثلاً پرائز بانڈ کے ذریعہ ملنے والے انعامات، بیرونِ ملک سے آنے والی رقوم، فیملی سے ملنے والے تحائف وغیرہ کی شکل میں ظاہر کر دیتا ہے۔ اب قانون کی نظر میں اس کے باقی ساڑھے چار کروڑ بھی کالا پیسہ نہ رہے بلکہ جائز اور سفید آمدنی قرار پاگئے۔ سوال یہ ہے کہ جس دولت کو مختلف حیلوں سے وائٹ کرلیا گیا ہے وہ حلال بھی قرار پاتی ہے یا نہیں؟

دولت کی تشخیص کا ایک پیمانہ حلال دولت اور حرام دولت ہے۔ قانون کی نظر میں جائز اور وائٹ قرار ہونے والی کوئی آمدنی صروری نہیں کہ حلال بھی ہو۔ ہر وہ آمدنی جس کے حصول یا جس کی تشخیص کے لیے جھوٹ بولا گیا ہو، قوانین پامال کیے گئے ہوں، حیلہ سازی کی گئی ہو حلال کے ذمرے میں شمار نہیں ہوگی۔ہمارے ہاں بنیادی پرابلم ہی یہ ہے کہ حلال آمدنی اور قانونی آمدنی کی تشریحات الگ الگ ہیں۔

قانونی آمدنی خواہ کسی طرح بھی وائٹ دکھائی گئی ہو کورٹ آف لاء میں درست ثابت ہوسکتی ہے جب کہ حلال آمدنی کے لیے ہر انسان اس مادی دنیا  میں اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہ ہے۔ آخرت میں اللہ تعالی کے سامنے جواب دہی تو بہرحال ایک اٹل حقیقت ہے۔

منی ٹریل کیسز میں نامزد حکمران خاندان کے افراد ہوں یا حزب مخالف کے سرکردہ لیڈر، اگر ان کے خلاف فیصلہ آگیااور وہ انتخابی سیاست سے باہر ہوگئے تو کیا اس سے ملک میں مالی کرپشن ختم ہوجائے گی؟کیا ہمارے تاجر، صنعتکار،اورخدمات کے شعبوں سے وابستہ لاکھوں پروفیشنلز، اپنی نقد کمائی پر واجب الادا پور ٹیکس ادا کرنے لگیں گے؟

پاناما کیس سے اتنا فرق ضرور پڑ جائے گا کہ دو نمبر دولت کمانے والے افراد اپنی منی ٹریل کے بارے میں زیادہ محتاط ہوجائیں گے۔اس طرح اکاؤنٹس اور فنانس کے ماہرین پر ان انحصار مزید بڑھ جائے گا۔ اس کیس کے نتیجے میں وزیر اعظم ہاوس میں کوئی تبدیلی آبھی جائے لیکن رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) ہی قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت بنے گی۔

……………

پروفیسر ڈاکٹر فرید بقائی اور شاہجہاں ایس کریم

گزشتہ دنوں پاکستان کے ممتاز سرجن اور میڈیکل ایجوکیشن کے بڑے خدمتگارپروفیسر ڈاکٹر فرید الدین بقائی۔ سول سروس کے ایک محترم رکن اور معتبر تعلیمی ادارے I0BMکے بانی شاہجہاں ایس کریم انتقال کرگئے۔ملک اور قوم کے لیے ان دونوں محترم شخصیات کی زریں خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔