ابن صفی، اردو ادب کے مایہ ناز ناول نگار

عینی نیازی  بدھ 26 جولائی 2017

اردو زبان میں بہت کم ایسے لکھنے والے گزرے ہیں جن کی تحریروں نے ایک زمانے کو اپنے سحر میں مبتلا رکھا ہو، ابن صفی انھی چند خوش نصیب ادیبوں کی صف اول میں شمار ہوتے ہیں۔ ابن صفی کی جاسوسی دنیا میں کھو جانے والے قاری یاد ماضی کے اس رومانس کو اپنا قیمتی اثاثہ جانتے ہیں، تجسس، دلچسپی اور سسنپس کو آج بھی ذہن کے گوشوں میں محفوظ پاتے ہیں۔

یہ ان کی تحریر کا جادو تھا کہ ہر مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے، خواہ وہ انجینئر و ڈاکٹر ہوں، استاد و طلبا یا پھر تاجر و صنعتکار اور سیاست داں، سب ہی ابن صفی کے ناولوں کے اسیر تھے۔ ابن صفی نے بھی معاشرے کے خاص وعام تمام کرداروں کو اپنے ناولوں میں شامل کیا، ان میں یہ خوبی تھی کہ وہ کردار کو مکالمے کو ساتھ اسی سانچے میں ڈھال کر کہانی پیش کرتے کہ قاری منظرنامے کو اپنے آس پاس محسوس کرتا۔ اسی لیے یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ ان کے ناولوں کو ایک ہی نشست میں ختم کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ ابن صفی نے اپنی کہانیوں کے ذریعے برصغیر کی تین نسلوں کو اردو کی جانب راغب کیا۔

اردو کو مقبول عام بنانے والے اس مایہ ناز ادیب کی پیدائش 26 جولائی 1928ء کو برٹش انڈیا کے الٰہ آباد میں ہوئی۔ انھوں نے ساتویں جماعت میں اپنی پہلی کہانی ایک رومانوی افسانہ کی صورت میں لکھی۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ اسرار ناروی کے نام سے ان کی بہترین اور مختصر شاعری موجود ہے، جو شاید ان کے بیٹے احمد صفی ایک کتاب کی صورت میں شایع کرنے کا اہتمام کر رہے ہیں۔

ابن صفی نے نثر کی طرح شاعری بھی اعلیٰ کی ہے۔ ابن صفی کے ناول ’’دھماکا‘‘ پر مشتمل ایک فلم بنائی گئی تھی، جس کا مشہور گانا ’’راہ طلب میں کون کسی کا، اپنے بھی بیگانے ہیں‘‘ ایک صاحب کمال شاعر کی تخلیق نظر آتی ہے۔ اساتذہ ان سے خائف رہے کہ اتنی اچھی شاعری چھوڑ کر وہ نثر کی جانب کیوں آ گئے، لیکن وہ اپنی جاسوسی کی اچھوتی دنیا میں مطمئن رہے اور ساری زندگی اس چیلنج کو نبھاتے رہے جو 1950 ء میں معصوم رضا راہی سے کیا تھا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ ان دنوں سستے قسم کے رومانوی ناولوں کی ایک بھیڑ چال تھی، راہی صاحب نے کہا ایسا ممکن ہی نہیں کہ اس ماحول میں کوئی اچھا معیاری ناول لکھا جا سکے۔

ابن صفی نے کہا ’’کیوں ممکن نہیں، ہم لکھیں گے‘‘ اور پھر اپنا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ کے نام سے لکھا، جس نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ ڈالے، جس کے بعد انھوں نے یہ سلسلہ پاکستان آنے کے بعد بھی جاری رکھا۔ یکے بعد دیگرے 245 ناول لکھ ڈالے، جن میں عمران سیریز کی تعداد 115 ہے۔ ریگل بک اسٹال پر ان کے ناول کا پہلا ایڈیشن آتے ہی فروخت ہو جاتا تھا۔ کرائم و سسپنس اور شوخی کو ایک ساتھ لکھنا مشکل کام ہے، لیکن ابن صفی کے ناول کرائم اور سسپنس پر ہونے کے باوجود ہیبت ناک نہیں تھے۔ وہ کہانی کو آخر تک بڑی روانی اور شوخی سے لکھتے۔ بے مثل کردار نگاری و مزاح ساتھ ساتھ چلتے۔ عمران کا کردار آج بھی دیومالائی حیثیت رکھتا ہے، جس کا بدل اب تک کوئی اردو کا ناول نگار نہ دے سکا۔ حمید اور عمران کا کردار ذہانت و حماقت کے ساتھ بیک وقت نظر آتا ہے، فریدی میں غیر معمولی ذہانت تھی، وہ ہر مسئلے کو حل کر لیتا تھا۔

ابن صفی کی یہ بات قابل توصیف ہے کہ انھوں نے کبھی باہر کا سفر نہیں کیا، اس کے باوجود ان کے ناولوں میں غیر ممالک کا تذکرہ اور حدود اربع کو پیش کرنے کا انداز حیران کن تھا اور قاری خود کو وہاں موجود پاتا۔ مغربی معاشرے کی کردار نگاری میں بھی اپنا وہی پاکیزہ معیار قائم رکھا، تھریسیا، لوگا، سنگی، ٹیوڈا، جولیا اور روشی جیسے کرداروں کو استعمال کر کے انھوں نے ناولوں میں فحش نگاری کا جواز پیدا نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ گھر کے تمام افراد ابن صفی کے پاکیزہ ادب کو بنا کسی پابندی کے پڑھ سکتے تھے۔ عورت کے احترام پر ایک صائب رائے رکھتے تھے، ان کے ناولوں میں عورتوں کے بارے میں ان کا تجزیہ قابل فخر ہے، لکھتے ہیں۔

’’مرد عورتوں کے معاملے میں ہمیشہ اور ہر دور میں تنگ نظر رہا ہے، دراصل بات یہ ہے کہ وہ ہر حال میں عورت پر اپنی برتری جتانا چاہتے ہیں۔ اگر انھیں ایسی عورتیں مل جاتی ہیں جو ان کی ذہنی سطح سے بلند ہوں تو انھیں باتونی اور دماغ چاٹنے والی کہہ دیتے ہیں‘‘۔ ناول ’’بے گناہ مجرم‘‘ میں عورت کی فطرت پر لکھتے ہیں ’’عورت ایک ایسی ضرورت ہے جس سے پیچھا چھڑانا محال ہے، یہ صرف انھی لمحات میں تم پر جان دیتی ہے جب تم اس کے جذبات ابھار دیتے ہو اور اس کے علاوہ وہ صرف ماں بن سکتی ہے، بہن بن سکتی ہے اور بیٹی بن کر وفادار رہ سکتی ہے‘‘۔

ابن صفی کی شخصیت اور تحریروں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ خرم شفیق، راشد اشرف اور عقیل عباس جعفری نوجوان نسل کو ابن صفی کے کام سے متعارف کرانے کی سعی کر رہے ہیں۔ ابن صفی کے نام سے ویب سائٹ بھی بنائی گئی ہے، جہاں نئے پڑھنے والے بھی ان کے ناولز پڑھ سکتے ہیں۔

یہ ابن صفی کی تحریر کی جادو نگاری ہے جو آج بھی قاری انھیں یاد رکھتے ہیں، انھیں پڑھنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ ان کے دو ناولوں کو انگریزی زبان میں ’’ہاؤس آف ائیر‘‘ کے نام سے شایع کیا گیا ہے۔ اردو کے مشہور مصنف شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی ابن صفی کے چار ناولوں کو انگریزی کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس کے علاوہ ہندی زبان میں بھی اس کے ترجمہ کیے جا رہے ہیں۔ ابن صفی کا یہ کمال ہے کہ انھوں نے اتنی بڑی تعداد میں لکھنے کے باوجود اپنا معیار آخر تک قائم رکھا اور آخر 26 جولائی 1980ء کو اپنے لاکھوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر ابن صفی دنیا سے رخصت ہوئے۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق نے کہا کہ ’’جتنا احسان ابن صفی کا اردو ادب پر ہے اتنا کسی ادارے کا نہیں‘‘۔ یقیناً بابائے اردو کا یہ جملہ ایک سند کا در جہ رکھتا ہے اور خود ابن صفی نے اپنے بارے میں کیا خوب شعر کہا ہے۔

جو کہہ گئے وہی ٹھہرا ہمارا فن اسرار

جو نہ کہہ پائے، نجانے وہ چیزکیا ہوتی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔