اہل سیاست کی خرمستیاں

وارث رضا  اتوار 10 فروری 2013
Warza10@hotmail.com

[email protected]

ہمارے دیس میں ہمیشہ سے ہی عوام کے انتخاب کو ناپسندیدہ عمل سمجھا گیا ہے ،تاریخی حقائق ہیں کہ چغلیاں کھا رہے ہیں، اور ہمارے غیر جمہوری اذہان اور سوچ ہے کہ ہماری ترقی کے آگے روڑے اٹکانے میں ذرا تردد نہیں کرتی…ایک زمانہ تھا کہ معاشرتی ترقی میں روڑے ڈالنے میں فوجی اشرافیہ اول درجہ حاصل کیے ہوئے تھی ،پھر وہ وقت بھی آیا کہ حالات نے فوجی اقتدار کو پیچھے کر دیا …اور عوام کے جمہوری حقوق نہ دینے پر فوجی اشرافیہ براہ راست ملکی امور سے خود کو دور کرتی رہی ،مگر بھلا ہو فوجی آمرانہ اقتدار کا کہ اس نے دیس کی سیاست میں جمہوری سوچ اور رویوں کو پنپنے ہی نہ دیا۔

میرے دیس میں آج کل ہر سو انتخابات کے شفاف ہونے اور عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کا بازار گرم ہے۔ہر وہ سیاسی قوت جس نے اقتدار کی طاقت کے انجکشن کا راز پا لیا ہے ،وہ عوام میں تبدیلی اور انقلاب کی نوید کے نعروں میں دوبارہ عوام کو مبتلا رکھ کر اس عوام دشمن اکھاڑے کی کھلاڑی بننا چاہتی ہیں جن کی ریاضت زر کے بغیر ممکن نہیں۔ یاد رہے کہ اس دیس کے پہلے قاعدے میں ہی سمجھا دیا جاتا ہے کہ ریاضی کی کوئی کل اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس میں زر کا تڑکا نہ لگایا جائے ۔طاہر اور پاک ہونے کا شرف حاصل کرنے والے مشرف بہ آمر ہونے کا سرٹیفیکیٹ لیے طمطراق سے گھوم رہے ہیں،جب کہ تبدیلی کا درس دینے والے اپنی نا سمجھی میں زرداری کا تر نوالہ ہونے پر تلے بیٹھے ہیں،اب ایسے میں بھلا یہ بات عوام کی سمجھ میں کیوں نہ آئے کہ ۔

زرد پتوں میں بہار ڈھوندنے والے طاہر و جاوید تضاد خانوں کی سرکردگی میں آصف گری کے سوا کر کیا سکتے ہیں۔ایک وقت تھا جب اودھ (لکھنؤ)کے عوام اپنی تنگ دستی کو ختم کرنے کے لیے یہ نعرہ لگایا کرتے تھے کہ ’’جس کو نہ دے مولا اس کو دے آصف الدولہ‘‘… مگر اب اس فقرے نے کم از کم میرے ملک میں اپنی ہیئت تبدیل کر لی۔سو خرید و فروخت کے اس نکتے کو پانے کے بعد بھلا کیونکر حکمرانوں کی دولت مندوں کے بل بوتے پر چالوں کو طاہر اور پاک کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش نہ کی جائے ۔سو وہ ہو رہا ہے ،سیاست کے چند دانا گوشہ نشینی میں بھی ایسی پتے کی بات کہہ دیتے ہیں کہ سر دھننے کو جی چاہتا ہے ۔

ہمارے سیاسی احباب سیاست کو پاک و طاہر کرنے کی آواز کو سنتے ہی کہ اٹھے تھے کہ یہ لکھا ہوا دیباچہ ہے جو کہ خراماں خراماں چلتا ہوا آخر کا حاکم کی چوکھٹ کا ہو رہے گا ، یہاں تک کہا گیاکہ اس میںدولت مندوں کی ریاضی وہ کارنامہ انجام دے گی کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جائیں گے۔اس موقعے پر خواجہ سعد رفیق بھی جملہ کسنے سے باز نہ آئے اور کہہ اٹھے کہ ’’یہ ریفارمرنہیں بلکہ پرفارمر ہے ‘‘یعنی کینیڈا کی سر زمین سے اٹھنے والا اصلاح پسندانہ فلسفی اصلاح پسند نہیں بلکہ بہترین فنکار ہے جو کہ اپنے فن کی بدولت زرد سیاست کی ریاضی کے سوال حل کرنے کی کوشش کرے گا ،اب عوام کے سامنے تمام پاک و طاہر اور انصاف کی تحریک کو تضادات میں تبدیل کرنے والے بے نقاب ہو چکے ۔بس اب ان تمام کو ایک چیف جسٹس کے درے لگنے کا انتظار ہے جو کہ آخر کار عوام کے حقوق کے نام پر شاید عنقریب مارا جائے ۔

دوسری جانب نواز شریف کا یہ انکشاف بھی دلچسپ ہے کہ دو ہرکاروں کی ناکامی کے بعد زرداری اینڈ کو تیسرے کو لانے کی کوششوں میں جتی ہوئی ہے ،جو کہ بہت جلد لندن پلان کے سمجھوتے کے تحت لایا جائے گا ۔لندن پلان کی باز گشت گو کہ دھیمی ہے مگر با خبر رہنے والے جانتے ہیں چند دنوں میں حق کی ندا دینے والے کراچی کے قتل و غارت اور عوام کی حق تلفی کو سیاسی مہرہ بنا کر ایوان اقتدار کی پکڑی ہوئی پونچھ چھوڑنے کا فیصلہ کر بیٹھیںگے اور ایک مرتبہ پھر عوام شاید ان کے طریقہ جمہورمیں پیسی جائے ۔اس درمیان یہ طے ہے کہ حکمرانوں کے زر کی جھنکار سے مرعوب ہونے والی سیاسی قوتیں آخرکار عوام کی حمایت سے دور مگر اقتدار کے سنگھاسن سے شاید قریب ہو جائیں۔

کہنے والے تو یہ بھی کہتے نہیں چوکتے کہ سندھ میں نگراں حکومت کی تشکیل وفاقی حکومت کے لیے سوہان روح ہے ۔لہذا لندن پلان کا ایک نکتہ یہ بھی رکھا گیا ہے کہ سندھ میں نگراں سیٹ اپ کے لیے پیپلز پارٹی اورمتحدہ عوام کے سامنے ایک دوسرے کی متحارب بن کر اپنے ووٹ بینک کو دوبارہ اپنے قریب لائیں کہ پانچ برس کا اقتداری اتحاد سندھ کے شہر اور دیہات کو کچھ نہیں دے پایا ہے ۔کہنے کو یہ بھی کہ شاید اس بہانے نگراں سیٹ اپ میں حزب مخالف کی آڑ لے کرمتحدہ پی پی کی قوت متحرکہ کو دوام دے سکے ،اور یوں دونوں قوتیں سندھ میں کسی طور اپنی ساکھ کی لاج رکھنے میں سر خرو ہوں۔

نواز شریف کا تیسری قوت کے ابھرنے کا اشارہ یہ بتاتا ہے کہ لندن پلان کے اہم نکات مسلم لیگ ن کو نواز دیے گئے ہیں اور شاید اسی بنیاد پر سعودی عرب کی یاترا کے بعد میاں صاحب نے تیسری متحرک ہونے والی قوت کے چہرے سے نقاب تو نہیں اتاری مگر اشارہ ضرور کر دیا ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلی ،انقلاب اور تضادات والے جب موجودہ سیاست میں منہ کے بل گر رہے ہیں،تو لندن پلان کی اہم قوت کس طرح عوام کی پذیرائی حاصل کر پائے گی۔؟اب رہا کراچی کی بدامنی کو امن کی امید کا درس دینے والی بااثر قوتوں کا قصہ تو اس امر سے بھی واقفیان حال بخوبی آگاہ ہیں کہ کراچی میں امن کی بیل اس دم تک منڈھے نہ چڑھے گی جب تک کہ شاہوں کو قائم اور دائم رکھنے والے سندھ کی حکومت کے مالک و مختار ہیں۔

ایک وقت تھا کہ پودے پھلواریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے امر بیل کے پھلنے پھولنے کو منحوس سمجھا جاتا تھا ،مگر اب سندھ کے شاہوں کی حکومت اس بات پر تل گئی ہے کہ ٹی وی ٹاک شوز میں حکومتی نمایندے بھیج کر ان کی گفتگو کی لذت سے سندھ اور دیگر صوبوں کے عوام کو ان کے حقیقی مسائل حل کرنے سے دور رکھا جاسکتا ہے ۔عوام کے حقوق کا دم بھرنے والے مفاہمت کے پجاری کسی طور نہیں چاہتے کہ عوام سیاسی اور جمہوری بالغ نظری کی طرف جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔