دی بلیک پرنس

رانا نسیم  اتوار 6 اگست 2017
 سکھ تنظیموں کی طرف سے تحفہ قرار دی جانے والی فلم ہندو تعصب کو ایک آنکھ نہیں بھائی۔ فوٹو : فائل

 سکھ تنظیموں کی طرف سے تحفہ قرار دی جانے والی فلم ہندو تعصب کو ایک آنکھ نہیں بھائی۔ فوٹو : فائل

اگرچہ فلم، ڈرامہ اور تھیٹر وغیرہ کو عمومی طور پر تفریح فراہم کرنے کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے، لیکن یہ اس کی مکمل تعریف نہیں، کیوں کہ یہ ذرائع اپنی شاندار تاریخ سے جڑے رہنے، شعوری ترقی اور معاشرتی اصلاح کے لئے بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ فلم، ڈرامہ یا تھیٹر کے ذریعے تاریخی سبق کو دہرا کر درس دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی کسی خاص معاملہ پر لوگوں کو متحرک کرنے کی سعی ہوتی ہے۔

ایسی ہی فلموں میں سے حال ہی میں ریلیز ہونے والی ایک فلم ’’دی بلیک پرنس‘‘ بھی ہے، جو سکھ راج کے آخری بادشاہ مہاراجہ دلیپ سنگھ پر بنائی گئی ہے۔ دلیپ سنگھ دو ثقافتوں میں نشوونما پاتا ہے، ایک طرف اس کی اپنی ثقافت اور دھرم ہے تو دوسری طرف ملکہ وکٹوریہ انگلش کلچر کو اس کے سامنے پیش کرتی ہے، لیکن دلیپ سنگھ اپنے راج کے دوبارہ قیام کے لئے زندگی کے ایک ایسے سفر کا چناؤ کرتا ہے، جس نے تاریخ میں اسے غیرمعمولی بنادیا۔ ہندوستان سمیت دنیا بھر میں جہاں جہاں سکھ برادری موجود ہے۔

اس نے فلم کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے اپنی نوجوان نسل کے لئے تحفہ قرار دیا، کیوں کہ ان کے مطابق یہ فلم ہماری تاریخی جدوجہد کا وہ حصہ ہے، جسے ہمیشہ دبانے یا بھلانے کی کوشش کی گئی۔ سکھ تنظیموں کے رہنماؤں اور سکھ ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ ’’یہ فلم ان کے لئے ایک Inspiration ہے، جس سے تحریک خالصتان کو تقویت دینے میں مدد ملے گی۔ دلیپ سنگھ کو لالچ، عیاشی کی زندگی اور عیسائیت کی تعلیم دی گئی لیکن اس کے باوجود ان کے اندر خالصہ راج دوبارہ قائم کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی، اور اسی تڑپ کے ساتھ وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہ فلم ہمیں نہ صرف اپنی اساس سے جڑے رہنے بلکہ اپنے حق کیلئے جان کی قربانی دینے کا درس دیتی ہے اور یہی ہمارا دھرم ہے۔‘‘

’’دی بلیک پرنس‘‘ پر جس طرح عام سکھ اور سکھ تنظیموں کے رہنما بیان بازی کر رہے ہیں، اس سے یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ وہ ایسا ردعمل کیوں دے رہے ہیں؟ کیوں کہ خالصہ تحریک دوبارہ  زور پکڑ رہی ہے، جس کی واضح مثال ریفرنڈم 2020ء ہے، جس کے لئے دنیا بھر میں بسنے والے سکھوں کا جوش و خروش دیدنی ہے۔ تکنیکی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو تھوڑی بہت کمزوریوں کے ساتھ فلم سازی کے ماہرین اس فلم کو عمدہ کہانی، بہترین اداکاری اور عکس بندی کا شاہکار قرار دے رہے ہیں۔ یہ فلم اب تک 12 سے زائد ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے، لیکن…ہندو تعصب یہاں بھی مصروف عمل ہے، جس کے زیر اثر اس فلم کو ’’مایوس کن‘‘ قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ہندو تبصرہ نگاروں کی طرف سے اسے کبھی بے مقصد واقعات کی سیریز کہا جا رہا ہے تو کبھی ملبوسات (Costume) اور اداکاری پر نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔ فلم میں سکھ راج کے دوبارہ قیام کے حوالے سے کی جانے والی کوشش کا تاثر چوں کہ کسی صورت ہندو کو برداشت نہیں، لہٰذا ہندو تنظیموں، لکھاریوں، نقادوں کی طرف سے ہر ممکن طریقے سے اس فلم کو ’’ڈبہ‘‘ قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بھارت کے موقر جریدے ’’دی ہندو‘‘ کے مطابق ’’فلم میں مجرمانہ حد تک عدم دلچسپی پائی جاتی ہے۔ دلیپ سنگھ کے کردار سے انصاف نہیں کیا گیا، انگریز کو انتہائی بااخلاق جبکہ ہندوستانیوں کو جاہل اور گوار کے طور پر پیش کیا گیا، فلم کی ڈائریکشن انتہائی بری تھی۔‘‘

حقیقی کہانی پر مشتمل اس فلم کے پلاٹ کا مرکز مہاراجہ دلیپ سنگھ ہے، جو 1838ء میں لاہور میں ایک طاقت ور راجا کہ ہاں پیدا ہوا۔ جب اگلے برس اس کے والد رنجیت سنگھ کا انتقال ہوا تو پنجاب میں کشیدگی شروع ہوگئی۔ پانچ سال کی عمر میں یہ نو عمر شہزادہ  تخت نشین ہوا مگر ریاست کے انتظامات اس کی والدہ اور چچا کے ہاتھ میں تھے۔

حالات مزید خراب ہوئے اور جب 1845ء میں انگریزوں اور سکھوں کے درمیان دوسری جنگ چھڑی تو انگریزوں کو اپنا اقتدار قائم کرنے کا نادر موقع ملا۔ معاہدہ لاہور کے تحت 1849ء میں پنجاب انگریزوں کے زیرِ انتظام آیا اور مہاراجا دلیپ سنگھ کو ان کے تخت سے ہٹا دیا گیا۔ دلیپ کی ماں مہارانی جند کور کو نظر بند کر دیا گیا اور ان کے بیٹے کو ان سے جدا کر کے لاہور سے فتح گڑھ منتقل کیا گیا جو آج ریاست اتر پر دیش کا حصہ ہے۔ فتح گڑھ کو انگریز افسروں کے خاندانوں کی رہائش کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ دلیپ سنگھ کو ڈاکٹر لوگن کے حوالے کیا گیا، جہاں اسے انگریزی طرز زندگی سکھایا گیا۔ اس کی زبان، ثقافت اور مذہب کو ان سے دور رکھا گیا اور وہ برطانوی راج کے طالب علم بن گئے۔

فلم کی کہانی کے مطابق 15سال کی عمر میں جب دلیپ سنگھ کو انگلستان لایا گیا تو اس وقت تک وہ اپنا خاندان، تخت، وطن اور کوہ نور کوکھو دینے جیسے صدمات سے دوچار ہو چکا تھا۔ برطانیہ میں اس کا تعارف جب ملکہ وکٹوریا سے کرایا گیا تو پہلی ہی ملاقات میں ملکہ کو وہ بہت پسند آیا۔ ملکہ اسے مائی بلیک پرنس (میرا سیاہ فام شہزادہ) کہہ کر پکارتی، وہ دلیپ سنگھ کو اپنے بیٹے کی طرح دیکھتی تھی۔ دلیپ سنگھ انگریز ثقافت میں رچ بس گیا، اس کا رہن سہن نہایت امیرانہ تھا، وہ شاہی خاندان کے ساتھ شکار اور یورپ کی سیر پر جاتا تھا۔ اپنی ذاتی زندگی میں وہ انگریز نواب کی طرح رہتا جبکہ عوام کے سامنے وہ خود کو بھارتی شہزادے کی طرح پیش کرتا۔ عیسائیت کی تعلیم کا اس پر ایسا رنگ چڑھا کہ اس نے شادی بھی ایک عیسائی خاتون بیمبا ملر سے کی۔

گزرتے وقت کے ساتھ والدہ سے ملنے کی تڑپ دلیپ سنگھ کو بہت بے چین کرنے لگی تو 13 سال کی جدائی کے بعد وہ بھارت جا کر اپنی والدہ جند کور سے ملا، والدہ کو اپنے ساتھ انگلستان لانے کی ضد پر انگریز سرکار نے کچھ مزاحمت کے بعد حامی بھر لی، کیوں کہ ایک ضعیف اور کمزور عورت اب ان کے لئے کوئی خطرہ نہیں رہی تھی۔ جند کور اپنے بیٹے کے پاس انگلستان آ گئی اور اسے اپنی کھوئی ہوئی سلطنت اور سکھ شناخت کے بارے میں یاد کراتی رہی۔ والدہ کی مسلسل کوششیں بالآخر رنگ لائیں اور دلیپ سنگھ کے دل میں دھرم اور وطن کی محبت پھر سے جاگ اٹھی، جس پر اس نے نہ صرف دوبارہ اپنا مذہب (سکھ) قبول کر لیا بلکہ ملکہ وکٹوریہ سے خالصہ راج کے خاتمے پر سوالات بھی اٹھانے شروع کر دیئے اور یہ بھی کہا کہ ان کی زمین پر انگریزوں کی جانب سے غیر قانونی قبضہ کیا گیا۔

خالصہ راج کے دوبارہ قیام کے لئے دلیپ سنگھ نے کئی کوششیں کیں، لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ 31 مارچ سنہ 1886 کو مہاراجا دلیپ سنگھ نے ایک جارحانہ قدم اٹھایا اور اپنے اہل و عیال سمیت بذریعے کشتی ہندوستان کی طرف روانہ ہوگیا۔ برطانوی حکومت خطے میں سکھ بغاوت کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی، لہٰذا مہاراجا دلیپ سنگھ کو راستے میں ہی گرفتار کر کے ایک گھر میں نظر بند کر دیا گیا جبکہ ان کے اہل خانہ واپس برطانیہ پہنچا دیا گیا۔ دلیپ سنگھ نے برطانوی خفیہ ادراوں کی جاسوسی کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی، اور اکتوبر 1893ء میں وہ خالصہ راج کے دوبارہ قیام کے لئے اپنی دھرتی کو ترستا ہوا پیرس میں فوت ہو گیا۔

’’دی بلیک پرنس‘‘ میں شناخت، وقار اور وراثت کی تلاش کا ایک جذباتی سفر دکھایا گیا ہے، جسے نہ صرف فلم بینوں بلکہ فلم سازوں کی طرف سے بھی سراہا جا رہا ہے۔ سکھ برادری اس فلم کو اپنی نئی نسل کیلئے وہ سبق قرار دے رہی ہے جو بھولا نہیں بلکہ بھلایا گیا ہے جبکہ دوسری طرف ہندو تعصب یہ اثر زائل کرنے کیلئے نقادوں کا سہارا لے رہا ہے۔

ڈائریکشن، پروڈکشن، میوزک اور اداکاری
5 سال کے طویل انتظار کے بعد گزشتہ ماہ 21 جولائی کو ’’دی بلیک پرنس‘‘ تین زبانوں میں دنیا بھر میں نمائش کے لئے پیش کر دی گئی ہے۔ ہالی وڈ اور بولی وڈ کی مشترکہ کوشش سے بننے والی اس فلم کے ڈائریکٹر بھارتی نژاد برطانوی قوی راز ہیں جبکہ اسے پروڈیوس کرنے کی ذمہ داری ایک امریکن پروڈکشن کمپنی برلسٹین انٹرٹینمنٹ پارٹنر پر تھی۔ 50 لاکھ ڈالر کے بجٹ سے بننے والی فلم کو بھارت اور برطانیہ میں فلمایا گیا، تاہم اس کا زیادہ حصہ لیڈی ڈیانا کے آبائو اجداد کے 5 سو سالہ پرانے محل میں عکس بند کیا گیا۔

فلم کا میوزک معروف موسیقار جارج کیلس نے دیا ہے، جس کی پرورش قبرص کے ایک ایسے ماحول میں ہوئی، جو موسیقی کے حوالے سے بہت جانا پہچانا تھا، اس کی والدہ خود بھی ایک گلوکارہ تھی، جس نے جارج کیلس کو میوزک کی مختلف اقسام سے متعارف کروایا۔ فلم میں مہاراجہ دلیپ سنگھ کا کردار ادا کرنے والے ستیندر سرتاج بنیادی طور پر ایک گلوکار ہیں اور یہ ان کی پہلی فلم ہے، جس میں انہیں مہاراجہ دلیپ سنگھ سے کافی حد تک مشابہت کے باعث کاسٹ کیا گیا۔ ستیندر سرتاج اعلی تعلیم یافتہ گلوکار ہیں، جنہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور وہ 6 سال تک پنجاب یونیورسٹی (بھارت) میں گائیکی کے استاد بھی رہے، اپنی مادری زبان پنجابی، انگریزی کے علاوہ انہوں نے فارسی زبان میں ڈپلومہ بھی کر رکھا ہے۔

ملکہ وکٹوریہ کا کردار نبھانے والی اداکارہ کا نام امینڈہ روٹ ہے، جسے ’’دی آئرن لیڈی‘‘ جیسی کامیاب فلم کے باعث کافی شہرت مل چکی ہے۔ فلم، ٹی وی اور تھیٹر کی معروف بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی نے فلم میں مہاراجہ دلیپ سنگھ کی ماں مہارانی جند کور کا کردار ادا کیا تاہم جند کور کی جوانی کا کردار مادھوریما تلی نے نبھایا۔ ان کے علاوہ اس فلم کے مرکزی کردار نبھانے والوں میں بالی وڈ اور ہالی وڈ کے معروف اداکار جیسن فلیمنگ، اتل شرما، رُپ میگن، امیت چنا، جو ایگن اور ڈیوڈ ایسکس شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔