ادارہ جاتی ڈائیلاگ کی ضرورت

ایڈیٹوریل  ہفتہ 12 اگست 2017
بہر حال معاملہ عوام ، جمہوری اور ریاستی اداروں کے باہم شیروشکر ہونے کا ہے۔ فوٹو: فائل

بہر حال معاملہ عوام ، جمہوری اور ریاستی اداروں کے باہم شیروشکر ہونے کا ہے۔ فوٹو: فائل

چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے آئینی اداروں میں پارلیمنٹ کو سب سے کمزور ترین ادارہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ داخلی کمزوریوں کی وجہ سے عدلیہ، انتظامیہ، آمریتیں سب پارلیمنٹ پر حملہ آور ہوتی ہیں، داخلی کمزوریوں پر قابو پاتے ہوئے پارلیمنٹ کو پالیسیوں اور فیصلوں کا محور و مرکز بنانا ہو گا ، انھوں نے ادارہ جاتی ڈائیلاگ کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم ، ملٹری بیورو کریسی اور چیف جسٹس ادارہ جاتی مذاکرات میں شریک ہوں تاکہ تمام ادارے اپنے دائرہ میں رہ کر کام کریں، ان خیالات کااظہار انھوں نے جمعرات کو سینیٹ اجلاس کے دوران کیا۔

ملک میں پیدا شدہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر چیئرمین سینیٹ نے جس ادارہ جاتی افہام وتفہیم ، اشتراک عمل اور قانون کی حکمرانی کے مقاصد کے حصول کے لیے جو تجویز پیش کی ہے اسے سیاسی مسائل اور اٹھتے ہوئے طوفان کے سدباب کا موثر حل کہا جا سکتا ہے جو انتہا پر پہنچے ہوئے سیاسی جذبات و ہیجان میں ٹھہراؤ پیدا کرسکتی ہے، تدبر سے قومی معاملات کو درست سمت دی جاسکتی ہے ، جب کہ اس کے ذریعہ مضطرب سیاسی ماحول اور خلفشار و بے یقینی کا سدباب کرنے کے لیے سیاسی انتظامی،عدالتی اور عسکری قیادتوں کے مابین ملکی مفاد میں ایک کثیر جہتی اور سیر حاصل مکالمہ سے مفید نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں جو مسلسل تناؤ، کشیدگی، تصادم اور غیر جمہوری روش پر گامزن ہونے سے قطعی حاصل نہیں کیے جا سکتے جب کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ اتفاق و اتحاد ، مصالحت اور مفاہمت  سے معاملات کو ہینڈل کیا جائے ۔

لہٰذا سینیٹ کے سربراہ کی طرف سے قومی اور سیاسی حلقوں تک جو پیغام پہنچا ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرکے نہ صرف سیاسی مسائل کا حل ڈھونڈا جائے بلکہ داخلی امن و امان ، سیاسی مفاہمت اور خارجی سازشوں اور دباؤ کے خلاف قوم کو یکجا کر کے دشمنوں کے مذموم عزائم خاک میں ملائے جا سکتے ہیں، قوم آج امکانات کے نازک موڑ پر کھڑی ہے اور ضرورت ان امکانات کو قومی مفاد سے ہم آہنگ کرتے ہوئے حقیقی ملکی طاقت و استحکام میں بدلنا ہوگا کیونکہ یہ خود فریبی ہوگی اگر سیاست دانوں اور ریاستی اداروں کے درمیان اشتراک عمل، خیرسگالی اور عوام کی فلاح وبہبود اور سالمیت کے تحفظ کے مشترکہ مقاصد کے حصول میں ایک پیج پر رہنے کا خواب پورا نہ ہوا، وطن کے دشمنوں کی تو کوشش ہوگی کہ قوم میں تفرقہ ڈالا جائے، مفسدانہ ایجنڈہ سے اداروں کو ٹکراؤ کی سمت دھکیلا جائے تاکہ ان کی سازشیں آسانی سے کامیاب ہوں ۔

چیئرمین سینیٹ نے نظام میں مضمر کمزوریوں اور تضادات کی 9وجوہات بتائی ہیں جن میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے پارلیمنٹ کو سنجیدگی سے نہ لینے، اہم فیصلوں کا اعلان پارلیمنٹ سے باہر ہونا، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بجائے کل جماعتی کانفرنسوں جیسے فورمز کو اہمیت دینا، سیاسی معاملات کو سپریم کورٹ میں لے جانا، اہم امور پر پارلیمانی عمل کو نظر انداز کرنا بالخصوص خارجہ داخلی سلامتی عالمی معاہدوں کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنا، قرضوںکی معافی، مالیاتی معاہدوں سے پارلیمنٹ کو آگاہ نہ کرنا، پارلیمانی نگرانی کی اہمیت کو تسلیم نہ کرنا، ہاؤس میں وزیراعظم اور وزراء کی عدم موجودگی ، پارلیمنٹ کے سوالات کا بروقت جواب نہ آنا، وزیراعظم کی طرف سے اہم بیانات کے لیے پارلیمنٹ کے بجائے پریس کانفرنس، قوم سے خطاب اور عوامی اجتماعات کو اہمیت دینا ہاؤس میں دی جانے والی رولنگ پر عملدرآمد نہ ہونا، عوام اور پارلیمنٹ میں عدم رابطہ، پارلیمانی کمیٹیوں کو نظرانداز کرنا جیسے معاملات شامل ہیں، بلاشبہ عدلیہ، انتظامیہ اور ملٹری بیورو کریسی ناگزیر ادارے ہیں ، ان کے درمیان تصادم نہیں ہونا چاہیے۔ سینیٹ کی طرف سے ادارہ جاتی ڈائیلاگ کی دعوت خوش آیند ہے ، اس سلسلے میں انتظامیہ کی طرف سے وزیراعظم کو دعوت دی جائے گی اور ان کے ذریعے ملٹری بیورو کریسی اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ڈائیلاگ میں شرکت کی دعوت دی جائے گی جس کا بنیادی مقصد یہ ہوگا کہ جمہوری عمل بلا روک ٹوک جاری رہے ، تمام ادارے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کریں۔

فاضل سینیٹرز نے پانامہ پیپرز کیس فیصلے کے بعد کی سیاسی صورتحال اور پارلیمنٹ کے کردار کے حوالے سے تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مختلف امور پر اظہار خیال کیا، ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی طرف سے پانامہ دستاویزات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد خوش آیند ہے اس فیصلے کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے تاہم صادق اور امین کامعیار قائم کرنالازمی ہے ورنہ ملک میںسیاسی عدم استحکام رہے گا ، ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان کی بے توقیری کے سب ذمے دار ہیں اس لیے پارلیمنٹ کو بااختیار اور مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنا فعال کردار اداکریں ، تمام اکائیوں کو مساوی حقوق ملنے چاہئیں، اس بات پر زور دیا گیا کہ افراد کے بجائے قانون اور آئین کی حکمرانی قائم ہوگی تو پارلیمنٹ مضبوط ہوگی ، پارلیمنٹ اس بات پر غور کرے کہ ملک کو وفاقی آئینی عدالت کی ضرورت ہے ، پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے لیے بدعنوانی کے مکمل خاتمہ کے ساتھ ساتھ الزامات کی سیاست بھی ترک کرنا ہوگی، ماضی سے سبق سیکھ کرآگے کی طرف بڑھنا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ اداروں کے مابین یکجہتی اور خیر سگالی کو استحکام ملا تو ان ووٹرز کا انتخابی نظام پر اعتبار بھی بحال ہوگا جو سیاسی بحرانوں میں اکثر سوچتے ہیں کہ شاید ووٹنگ کے عمل میں حصہ لے کر وہ کہیں ’’جرم جمہوریت‘‘  میں تو ملوث نہیں جب کہ جمہوری نظام ووٹرزکا مرہون منت ہے۔بہر حال معاملہ عوام ، جمہوری اور ریاستی اداروں کے باہم شیروشکر ہونے کا ہے۔اور یہ کوئی کڑوی گولی نہیں ہے ۔ اداروں کے مابین فوری اور ناگزیر اتفاق رائے  قوم و ملک کے مفاد میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔