جرم جمہوریت کی سزا (آخری حصہ)

نادر شاہ عادل  بدھ 16 اگست 2017

ہاں ملک میں گرم ترین ہوا چل پڑی ہے، گھبرانے کی بات نہیں، ثبات ایک تغیرکو ہے زمانے میں۔ کئی احتجاجی آوازوں نے مل کر سیاست کے تجارتی اور عبادتی روپ بہروپ کو بے نقاب کردیا ہے۔ اسلام آباد تا لاہور ریلی سے ہٹ کر Vote اور ووٹر کے اصل مقام کے نکتہ پر کھل کر بات ہونی چاہیے، اس میں معانی کا ایک الیکٹورل جہاں آباد ہے اور جسے نواز شریف نے اپنے احتجاج کی بنیاد بنایا ہے۔

حقیقت میں ووٹ کی اہمیت پورے ریاستی ڈھانچہ اور جمہوری و انتخابی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے، ووٹر کو بیچ سے نکال دیں پوری جمہوری عمارت دھڑام سے نیچے آجائے گی، ووٹ نہیں تو جمہوری عمل کہاں؟ مگر کیا ووٹ کی تقدیس جمہوری عمل میں تقدیس مشرق جیسی توقیرکی کبھی حامل رہی ہے، جی نہیں ، ووٹر موجودہ جمہوری پراسیس میں ایک زینہ ہے، ٹشو پیپر ہے، ووٹ دے دیا ، بابا جی ، بس ہوچکی نماز مصلّا اٹھائے۔ ووٹ کا تقدس، اس کی حرمت ، توقیر اور ووٹرکا تفاخر ، بیکار باتیں ہیں۔

ارے ووٹرو، تمہارا کیا ، میں جانوں میرا انتخاب جانے۔ مغربی ممالک میں ووٹرکو جمہوریت کے ماتھے کا جھومر کہتے ہیں۔ وہ جمہوری عمل کی روح ہے، پاکستان کی بے روح جمہوریت جواب مانگتی ہے۔ امریکا کے سابق صدر روزویلٹ کا کہنا تھا کہ ’’ ہم اس بات کو فراموش نہ کریں کہ حکومت ہم سے ہے، اورکوئی اجنبی مخلوق ہم پر حکمرانی نہیں کررہی، جمہوریت میں آخر الامر حکمرانی کرنے والے صدر، سنیٹرز، کانگریس اور سرکاری حکا م نہیں بلکہ اس ملک کے ووٹر ہیں۔‘‘

یہی ووٹر سوال آج کرتے ہیں کہ کیوں اسٹیبلشمنٹ کے اصطلاحی عفریت سے قوم کی جان نہیں چھوٹتی۔ غربت ، استحصال، طبقاتی کشمکش، پیوند لگی زندگی متوسط طبقہ اور بدحال لوگوں کا مقدر کیوں بنی ہوئی ہے۔ صوبوں میں دہشتگردی ، اضطراب، پسماندگی اور بیروزگاری کا عذاب کیوں مسلط ہے۔ ہاری اور کسان کیوں جاگیرداروں کے غلام ہیں۔

جمہوریت کی مکمل بحالی ، اس کی شفاف حکمرانی کے خواب دیکھنے والے اس بات کا کب نوٹس لیں گے کہ ایک ریاست جو نظریاتی ہونے کی دعویدار ہے اس کے عوام میں تخلیقی صلاحیت اور اختراعی قوت و استعداد کی دنیا بے سمت ہے۔ فضا ظلمت افروز کیوں ہے ؟ تخلیق پر تقلید کا تسلط اور اجارہ داری کیوں؟، اوریجنل پاکستانی ذہن فنون لطیفہ میں ابھرنے کو بے چین مگر اس کی آزادی کا کیا ہوا؟ بقول جوش لب ناقصان ہنر طعنہ زن۔۔۔ پوری فضا جعل سازان ِ سیاست سے بھری جارہی ہے۔

نئے پاکستان کا نیا خون ، نئی فکر جو کچھ کرنا چاہتی ہے اسے تخلیقی روڈ میپ کون دے گا، دھرتی سے جڑا ذہن دیکھتا ہے کہ ساری تحقیق، ذرایع ابلاغ ، فنون لطیفہ ، ادب اور سیاسی نظریات کی درآمد ہورہی ہے، فکشن ، شاعری ، اداکاری، ڈرامہ ، رقص،کیمرے ، بحری و ہوائی جہاز، آبدوز ، سیل فونز، ریل گاڑیاں ، ڈبل ڈیکر بسیں، ریلویز، ادویات، فلم ، موویز ، ٹی وی، نیٹ، ڈیجیٹالائزیشن،اینی میشن، آٹومیشن، میڈیا انفراسٹکچر، پرنٹگ مشین، سیاسی ، معاشی نظام، عدالتی قوانین ، پارلیمانی نظام حتیٰ کہ جمہوریت، مقامی حکومتیں، فیشن، ماڈلنگ، سمندری ، موسمیاتی تحقیق، کان کنی، ٹرامیں، پجیرو، مرسڈیز، بلٹ پروف گاڑیاں امپورٹڈ ہیں، حیوانیات، خلائی تحقیق پر مغرب کی ایجاداتی اور فکری بالادستی قائم ہے، ہم تک ان کا رزق پہنچتا رہتا ہے، ڈاکٹر عطاالرحمان ملک کو سائنس اور ٹیکنالوجی سے جوڑنے کو بے تاب لیکن فنڈز ندارد۔ آخر کب ہمارے سائنس دانوں ، عالموں، دانشوروں، محققوں ، انجینیئروں فنکاروں اور ماہرین کو آگے لایا جائے گا، کب زرخیز ، اور نم مٹی سے نمو پانے والا پاکستان ذہن اپنی نشاہ ثانیہ کا عالمی دھماکہ کرے گا۔ کون سی گھڑی ہوگی جب ہم غلامانہ تفاخرکی نمود کا ہر منظر مٹا دیںگے۔

ہر چیز مغرب سے کیوں آکر ہمارے میڈیا، فیشن، ادب، صحافت، تہذیب ، تعلیم اور نصاب کے معیار کا تعین کراتی ہے، اگر ہمارے اسلاف علم دوست فلسفی ، مورخ، سائنس دان اور ادیب ،اسکالر، کیمیا گر تھے، اور ہم خلاق صفت قوم ہیں تو ہمارے بے بدل تخلیق کار کہاں ہیں، ہمارا سرکاری مورخ کیوں ڈاکٹر مبارک علی کی توہین پر تلا ہوا ہے؟ فلکیات ،طبیعات، سماجیات، تاریخ، عمرانیات، میڈیسن، کھیل، ٹیکنالوجی میں بریک تھرو کرنے والے جینیئس پاکستانی کس سیارے میں رہتے ہیں۔ کیوں ہم پینے کے پانی، بجلی، اچھی صحت ، تعلیم اور شاندار ماس ٹرانزٹ سسٹم سے محروم ہیں، ہمارا حوالہ ایٹم بم مگر ہماری شناخت دہشتگردوں کے سہولت کاروں جیسی کیوں؟ ہمیں حقانی نیٹ ورک کے خاتمہ کا بار بار کیوں حکم ملتا ہے؟

ملک سیاسی تقسیم کی طرف کس لیے بڑھ رہا ہے، کیا بات ہے کہ ہماری بے سمت و بے منزل جمہوریت بھی رسوا ، ہمارے جمہور بھی حقارت و ٹھوکروں میں ہیں، دوسرا جناح پیدا کرنا مشکل ہے تو دوسرا فیض، جوش، غالب تو قوم کو دیں۔ طالبان سر پر چڑھ دوڑے ، کوئی ابن خلدون یا ابن رشد تو آئے۔

مارلن برانڈو نہ سہی ایک چارلٹن ہیسٹن تو پردۂ اسکرین پر نمودار ہو جو ’’بن حر‘‘ نہیں تو پی ٹی وی کے کسی مشہور پرانے ڈرامے کا ری میک بنا کر دے۔ 20 کروڑ پاکستانیوں کی زندگی کی سچی تصویر اسکرین پر پیش کرے ۔ بتایا جائے یہ کون لوگ ہیں جو پاکستان کا فلم کلچر 70 سال میں بھی قوم کے سامنے پیش کرنے کے قابل نہیں ہوئے، جو آخری فلم میری ان گنہگار نظروں نے جزوی طور پر دیکھی وہ ’’چین آئے نہ‘‘ تھی اس دن سے مجھے چین آئے نہ کی بیماری لاحق ہوگئی ہے، میری روح میں جیسے کسی نے تیر پیوست کردیا ہے۔

کیا فلمی زندگی اس قدر مفلس اور ذہنی دیوالیہ پن کا شکار ہوچکی ہے کہ ہمارے پاس لچر سا اسکرپٹ اور واہیات جیسی مووی پیش کرنے کے سوا کوئی تخلیقی نمونہ نہیں رہا۔ ایک غریب ملک جمیکا یوسین بولٹ جیسا حیران کن ایتھلیٹ پیدا کرتا ہے، ایک ارجنٹائن میرا ڈونا کا تحفہ دنیا کی طرف اچھالتا ہے، برازیل ایک ’’پیلے‘‘ نام کا جادوگر فٹ بالرگلوبل ولیج میں بھیجتا ہے، ایک پرتگال کرسٹیانو رونالڈو اور ایک عالمگیر میسی ہمارے نوجوان فٹبالروں کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے اور یہاں فٹ بال فیڈریشن 20 کروڑ پاکستانیوں میں ایک رونالڈینہو پیدا نہیں کر سکی ۔

خدا جھوٹ نہ بلوائے گزشتہ دنوں میں نے نیدرلینڈ اور ڈنمارک کی ویمنز آئی سی سی کپ کا فائنل دیکھا تو حیران رہ گیا، میں نے اسے اپنی مردوں کی نام نہاد پاکستانی قومی ٹیم سے کہیں زیادہ فاسٹ ، متحرک، زبردست اور دلفریب فٹبال کھیلتے دیکھا۔ ارے بوم تری تو فصل گل نے یہ چمن اجاڑ کے رکھدیا۔ ساری قوم کرکٹ کی دیوانی ہے، دیسی کھیلوں کا کوئی والی وارث نہیں۔رویئے زار زار کیاکیجئے ہائے ہائے کیوں۔

پھر سے میرا سوال ہے کہ ایک تخلیقی پاکستانی ہنر مند ، چونکا دینے والا سائنس دان اور روتھ فاؤ جیسی مہربان فرشتہ صفت مسیحا ہمارے اندر سے کب پیدا ہوگی، دوسرا ایدھی کب آئیگا ، مصیبت کے مارو! کب ہمارے سپیشلسٹس فیسوں کا گراف گرا کر غریبوں کے لیے اپنی مسیحائی کا در کھولیں گے۔ ماہرین دیار غیر میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ وطن میں ان کی عزت دوکوڑی کی نہیں۔

ملک میں سیاست گلالئی برانڈ گالی، تجارت اور پورا معاشرہ کمرشلائزڈ ہوچکا ، علمی ، تخلیقی، تمدنی، تفریحی ، فنی ، ایجاداتی تنوع کی شمعیں گل ہو رہی ہیں ، غلامانہ اور کورانہ تقلید کی آتش بازیوں کا دور دورہ ہے۔ گلیمر کی بادشاہی ہے، معصومیت قصۂ پارینہ ۔ بظاہر انڈیا سیاسی دشمن نمبر ایک مگر پورے ملک میں بھارتی فلموں کے ثقافتی یلغار کے سامنے ڈھیر۔ ہم ثقافتی مرعوبیت کا شکار ہیں مگر دل ہے کہ مانتا بھی نہیں۔

بندہ نوازو ! ایک وزیراعظم کی نااہلی عدالتی معاملہ ہے ، سیاست میں گنجائش نکالیں، رواداری کا تقاضہ ہے کہ سیاست فہمیدگی اور کشادہ نظری سے ہم آہنگ ہو، نااہلی جانے اور عدلیہ، مگر تصادم سے جمہوریت کا جگر پاش پاش نہ ہو۔ اس پودے کی آبیاری کے دن ہیں ۔ ریلی میں جن ووٹرز کا ذکر ہوا ہے وہ بے نام اور خاموش اکثریت کا زریں حوالہ ہیں۔ پہلی بار چار روزہ ریلی میں آیندہ آئین میں تبدیلی اور وائرس زدہ نظام کو قوم کے لیے ایک چیلنج کہا گیا ہے اور ملکی صورتحال کو 70 برس سے بے بس وزرائے اعظم کے آئینے میں دیکھنے کی تمنا اب دم توڑ رہی ہے۔

اس میں ڈرنے کی بات نہیں۔ ووٹرز کو عزت ملی تو جمہوریت کبھی ڈی ریل نہیں ہوگی۔ ووٹرز کو ’’جرم جمہوریت‘‘ کی سزا نہیں ملنی چاہیے۔ مائنس ووٹر نظام چلا کر سارے سیاسی بزرجمہروں نے دیکھ لیا کہ سسٹم نہیں چلا۔اب اس بات کو بھی مان لیں کہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانے اور ایک دوسرے کو دست وگریباں کرنے والے میڈیا بقراط اس حقیقت کا اعتراف اور ادراک کریں کہ ووٹرکبھی کسی کے جھانسے میں نہیں آتا۔ ملک کی پوری سیاسی تاریخ اور انتخابی ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ ووٹ ضمیر کے قیدیوں کا اثاثہ ہوتا ہے جسے بنارسی ٹھگوں اور ڈکیتوں سے کوئی خطرہ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔