اقبال لبرلز اور سوشلسٹوں کے درمیان

رفیع اللہ میاں  بدھ 23 اگست 2017

برس ہا برس ہوگئے‘ سوشل ازم سرمایہ داری کی مضبوط دیوار کے ساتھ سر ٹکرا رہی ہے۔ سرمایہ داری کے ہتھیاروں میں سے ایک مذہب بھی ہے‘ سوشل ازم مذہب پر بھی تنقید کرتی رہی، لیکن مذہب کے خلاف بالخصوص پاکستان میں اس کی تنقید نہ صرف یہ کہ کوئی جگہ نہ پکڑ سکی، بلکہ اس کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوئی۔ اس تجربے سے سوشلسٹوں نے کم از کم یہ ضرور سیکھا کہ انھیں اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے ویسے ہی ہتھیار استعمال کرنے چاہئیں اوراس مقصد کے لیے وہ اپنے افکار سے مماثل افکار ڈھونڈ سکتے ہیں۔

یہ ایک ایسا نکتہ ہے جو سوشلسٹوں کی صوابدید پر منحصر ہے اس لیے ان کے درمیان عموماً اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مذہب ہی کی طرح سیکولر ازم بھی سرمایہ داریت کا ایک ہتھیار ہے لیکن مذہب کے مقابلے میں یہ زیادہ عملی ہے اس لیے موجودہ وقت میں سوشلسٹس‘ مذہب کے مقابلے میں سیکولر ازم کو زیادہ شدت کے ساتھ رد کرتے ہیں۔ مقامی سطح پر پاکستان میں مذہب کو زیادہ خوفناک ہتھیار بنایا گیا ہے۔

لیکن اگر ہم آخری آمر کے دور حکومت پر نظر ڈالیں تو سیکولر ازم پر کاربند اس کے دور میں مذہبی شدت پسندی کو جس طرح ہوا دی گئی‘ وہ طرز عمل اسے عالمی تناظر کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ عام سطح پر سیکولرازم کو پسند کرنے والے ویسا ہی کردار ادا کرتے ہیں جیسا کہ عام سطح پر مذہب کو پسند کرنے والے ادا کرتے ہیں۔ یہ اپنی اپنی تشریحات کے ساتھ اسے پیش کرتے ہیں اور اپنے اپنے مزاج کے ساتھ اس سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔اس لیے یہ جھگڑا طے نہیں ہوسکتا کہ سیکولرازم کیا ہے‘ ویسے ہی جیسے مذہب پر تنقید کرنے والوں کو جواب ملتا ہے کہ جس چیز پر تنقید کی جارہی ہے وہ مذہب ہی نہیں ہے۔ سوشلسٹوں کا ان دونوں کے حوالے سے اپنا نکتہ نظر ہے۔

پاکستان کے بزرگ سوشلسٹ اور مارکسسٹ یوسف حسن کہتے ہیں کہ سوشلسٹ کی حیثیت سے ہم عوام دوست مذہبی مواد کو عوام دشمن سیکولر مواد پر ترجیح دیتے ہی ں۔ یہ اسٹیٹمنٹ بہت واضح طور پر تخصیص کرتا ہے کہ سیکولر ازم میں پایا جانے والا عوام دشمن مواد زیادہ خطرناک ہے‘ جس کی مزاحمت کے لیے مذہب سے عوام دوست مواد لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے اور یہ کہ مذہب میں موجود عوام دوست مواد پر نگاہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس تناظر میں سوشلسٹوں کا اس نکتے پر تو اجماع ہے کہ سیکولر ازم کا مکمل راستہ روکا جائے لیکن مذہب کے معاملے میں یہ منقسم ہیں۔ ایک گروہ ان میں سے مذہب کو بھی مکمل طور پر رد کرنے کا قائل ہے۔

مذہبی متن ہو یا ثقافتی ان میں سے اپنی منشا کے مطابق معانی کا حصول ناممکن نہیں ہوتا۔ سماج پر نظریات کے ساتھ ساتھ شخصیات کے اثرات بھی گہرائی میں مرتب ہوتے ہیں۔ متن اور شخصیت سماجی تناظر کے حامل اور سماجی تبدیلیوں میں حصے دار ہوتے ہیں۔ سماج میں ان کے رشتوں کوکسی سوشلسٹ سے زیادہ بہتر طور پرکون سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ اگر یوسف حسن جیسے سوشلسٹ عوام دوست مذہبی مواد کے ساتھ ساتھ قومی سطح کی تاریخی شخصیات کے لکھے ہوئے کام میں بھی عوام دوست عناصر کی پہچان کراتے ہیں تو اسے سماجی تناظر ہی میں بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔

ایسی تاریخی شخصیات جن کے افکار کا پرتو ہمارا سماج ہے یا جن کے افکار ہمارے سماجی رویوں پر گہرا اثر رکھتے ہیں‘ ان کے متعلق بھی دو قسم کے رویے سامنے آرہے ہیں۔ ایک یہ کہ ان پر حملہ آور ہوکر انھیں سماجی یاد داشت سے منہا کردیا جائے‘ دوم یہ کہ ان کے افکار میں عوام دوست مواد تلاش کرکے اس کے ذریعے عوام کو شعور یافتہ کیا جائے۔

اس سلسلے کی سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے سر علامہ محمد اقبال کی ہے جنھیں سوشلسٹ اور سیکولر دونوں کسی نہ سطح پر رد کرتے آرہے ہیں۔ تازہ مثال کے طورپر ڈاکٹر صلاح الدین درویش اور عمران شاہد بھنڈر کے نام قابل ذکر ہیں جن کا تعلق موجودہ دور سے ہے۔ اول الذکر انھیں کلاسیکی مادیت کے تناظر میں رد کرتے ہیں اور مؤخرالذکر انھیں فلسفیانہ افکار کے تناظر میں۔ مجموعی طور پر ان دونوں صاحبان علم کا کام اقبال کو سماجی یادداشت سے منہا کرنے کی جدوجہد پر مبنی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی کتاب آچکی ہے اور بھنڈر صاحب کی کتاب جلد آنے والی ہے، لیکن ان کے برعکس یوسف حسن صاحب جیسے مارکسی اور سوشلسٹ کہتے ہیں کہ انھیں اقبال کے اسلامی عقیدوں کی تعبیروں کے غلط یا درست ہونے سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ وہ اقبال کے ان افکار کی حمایت کرتے ہیں جن میں قومی آزادی اور عوام کی طبقاتی نجات کی حمایت ملتی ہے۔

وہ اقبال کے حوالے سے دو طرفہ اپروچ پر مبنی جدوجہد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یعنی ایک طرف اقبال کے انقلابی افکار کی حمایت اور دوسری طرف ان افکار کے دشمنوں کے خلاف جدوجہد۔ درویش صاحب نے اپنی تصنیف ’فکر اقبال کا المیہ‘ میں جس فکر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے‘اس کا تعلق مغربی علوم کے ساتھ ہے۔جب کہ یوسف حسن صاحب کا اشارہ پاکستان کے اندرجاگیرداری‘سرمایہ داری اور ملاشاہی کے خلاف افکار کی طرف ہے‘جن کی حمایت کرنے والے پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ ملک میں نجی و عسکری جاگیردارانہ‘ سرمایہ دارانہ اور ملاشاہی عناصر کے خلاف بھی جدوجہد کی جرأت اپنے اندر پیدا کرے۔

سوشلسٹ اور لبرلز ان عناصر کی نشان دہی کرتے آرہے ہیں جو تاریخی شخصیات کی فکر میں موجود ہیں اور جو سماجی رویوں پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔ اقبال کی شاعری پر یہ اعتراضات وارد ہوتے رہے ہیں کہ یہ مذہبی شدت پسندی پر ابھارتی ہے۔

اقبال کے شاہین اور مرد مومن کوعوام میں ڈھونڈناکارعبث ہے‘یہ خاص الخاص لوگوں کے استعارے ہیں‘ مقتدر لوگوں کے لیے کی گئی شاعری ہے۔اس بنیاد پر اقبال کی شاعری سوشلسٹ اور لبرل طبقوں میں رد کی گئی ہے لیکن یہ رویہ کہ کسی بھی فکر کو آپ مکمل طور پر رد نہیں کرسکتے‘ بنیادی طور پر مابعد جدید رویہ ہے۔ چنانچہ ‘ ایسا صاف طور پر محسوس ہوتا ہے کہ یوسف حسن صاحب جیسے سوشلسٹس مابعد جدید رویوں سے کہیں نہ کہیں متاثر ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ سوشل ازم کو تبھی تقویت مل سکتی ہے جب اسے مذہب سے ہم آہنگ کیا جائے۔اس لیے وہ اقبال کو رد کرنے کی بجائے عوام دوست اقبال کی تلاش اور تشہیر کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔

یوسف حسن نے اقبال کے بارے میں مندرجہ ذیل چار مطالعاتی نکات پیش کیے ہیں:

اقبال جاگیرداری استحصالی سماجی‘ معاشی نظام کے سخت خلاف تھے۔

اقبال سرمایہ دارانہ سماجی‘ معاشی استحصالی نظام کے بھی سخت مخالف تھے۔

اقبال تھیو کریسی یا ملا شاہی کے شدید مخالف تھے۔

اقبال ایک سامراج دشمن مفکر اور شاعر تھے۔

دیکھا جائے تو یہ نکات بنیادی نوعیت کے معلوم ہوتے ہیں اور ہر اس شخص کے اندر جوش پیدا کر دیتے ہیں جو طبقاتی نظام سے تنگ اور عوام دوستی کا دم بھرتا ہے، لیکن اس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ نکات اقبال کے موضوعی مطالعے سے اخذ کیے گئے ہیں اس لیے کوئی بھی دوسرا تجزیہ نگار اقبال کے مطالعے سے اس کے برعکس نکات اخذ کرسکتا ہے۔ میرے اس کالم کا مقصد علامہ اقبال کو رد کرنا نہیں ہے بلکہ اگر اقبال کے مطالعے سے ہم عوام دوستی کی کوئی صورت برآمد کرسکتے ہیں تو اسے ٹھوس بنیادوں پر ضرور عمل میں آنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔