- ٹی 10 لیگ کیلیے پاکستانی کھلاڑیوں اور آفیشلز کو یواے ای کے ویزے جاری نہ ہوسکے
- اکانومسٹ ہویا فارن پالیسی میگزین، بھارت کا مکروہ چہرہ ہرجگہ بے نقاب
- اوگرا نے نئے سی این جی لائسنس دینے کا اعلان کر دیا
- نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر کے بولنگ کوچ انگلینڈ میں پھنس گئے
- چین نے مائیک پومپیو سمیت ٹرمپ انتظامیہ کے 28 عہدیداروں پر پابندیاں عائد کردیں
- فارن فنڈنگ کیس پانامہ 2 بنے گا، شیخ رشید
- جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریزکیلئے پاکستان کے اسکواڈ میں تبدیلیوں کا امکان
- پی سی بی کے چیئرمین اورگورننگ بورڈ ممبران کے اخراجات کی تفصیل سامنے آگٗئی
- شہباز شریف کو آشیانہ ریفرنس میں حاضری سے استثنیٰ کالعدم قرار
- بچوں سے زیادتی کے قانون کا ترمیمی بل خیبر پختونخوا اسمبلی میں پیش کرنے کی تیاریاں
- جوبائیڈن نے پہلے ہی روز امریکی سرجن جنرل ایڈمز سے استعفیٰ طلب کرلیا
- بختاور بھٹو زرداری کی شادی کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئیں
- فیصل آباد میں پیٹرولنگ پولیس کی فائرنگ سے شہری جاں بحق، اہلکارقصوروارقرار
- سعودی فلم کمیشن نے 28 فلمی منصوبوں کی منظوری دیدی
- گوجرانوالہ میں ماں 4 بچوں سمیت قتل
- بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022 کی تیاریاں بھرپور انداز میں جاری
- میرے دوست! اب وقت تمہارا ہے، براک اوباما کی نئے امریکی صدرکونیک تمنائیں
- فاف ڈوپلیسی پاکستان کی سرزمین پر پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے کیلیے بیتاب
- نیویارک میں فوجی ہیلی کاپٹر گر کرتباہ، تین اہلکار ہلاک
- جوبائیڈن کا پہلادن؛مسلمانوں پرسفری پابندی کےخاتمےسمیت 15 صدارتی حکم نامے جاری
امریکا خوفناک سمندری طوفان کی زد میں، ہزاروں لوگوں کی نقل مکانی

اس بھیانک طوفان کے دیوقامت بازؤوں میں ہوا کی گردشی رفتار 210 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ (تصویر: نیشنل ویدر سروس)
ویب ڈیسک: خوفناک سمندری طوفان ’’ہاروے‘‘ گزشتہ رات اپنی شدت میں مزید اضافہ کرتے ہوئے امریکی ریاست ٹیکساس کے ساحلوں سے ٹکرا گیا ہے جسے ماہرین انتہائی خطرناک اور جان لیوا قرار دے رہے ہیں۔
کل شام تک یہ طوفان کٹیگری 3 میں شامل تھا یعنی اس میں ہوائی جھکڑوں کی رفتار 200 کلومیٹر فی گھنٹہ سے کم تھی لیکن چند گھنٹوں بعد ہی جمعے کی رات تک اس کی شدت میں اضافہ ہوگیا اور جھکڑوں کی رفتار 210 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگئی؛ یعنی یہ کٹیگری 4 کا طوفانِ باد و باراں (ہریکین) بن گیا۔
گورنر ٹیکساس گریگ ایبٹ نے خبردار کیا ہے کہ یہ طوفان بڑی تباہی کی وجہ بنے گا اور وہاں کے شہری سیلابی صورتحال کےلیے تیار رہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی گورنر ٹیکساس کی درخواست پر رات گئے ریاست ٹیکساس کو آفت زدہ قرار دے دیا تھا اور متعلقہ وفاقی اداروں کو ہنگامی امدادی کارروائیوں کا فوری حکم جاری کردیا تھا۔
اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ ہریکین ’’ہاروے‘‘ ٹیکساس کے ساحلی علاقوں میں داخل ہوچکا ہے جبکہ متاثرہ مقامات سے افراد کا بڑے پیمانے پر انخلا بھی شروع کردیا گیا ہے۔ وہ لوگ جو کسی بنا پر متاثرہ علاقوں کو چھوڑ کر نہیں جاسکتے ان کےلیے وہیں پر محفوظ مقامات بنادیئے گئے ہیں۔
خلیج میکسیکو کی جانب سے ٹیکساس کی طرف بڑھنے والا یہ طوفان اب تک اس امریکی ریاست کے ساحلی مقامات لیمار اور راک پورٹ سے ٹکرا چکا ہے جبکہ 6 تا 10 میل فی گھنٹہ کی شرح سے اس کی پیش رفت مسلسل جاری ہے۔ اس کے دیوقامت بازؤوں میں ہوا کی گردشی رفتار 210 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہوچکی ہے۔
ٹیکساس کے ساحلی شہر کورپس کرسٹی میں نیشنل ویدر سروس نے خبردار کیا ہے کہ یہ طوفان شمال مغرب کی سمت حرکت کرتے ہوئے 600 کلومیٹر تک آگے بڑھے گا جبکہ اس سے اراناساس کاؤنٹی، نارتھ ایسٹرن سان پیٹریشیو کاؤنٹی اور سینٹرل ریفیوجیو کاؤنٹی کے علاقوں کو شدید ترین خطرات لاحق ہیں۔
امریکا کے نیشنل ہریکین سینٹر کے مطابق کورپس کرسٹی کے ساحلوں سے ٹکرانے والی لہروں کی شدت اور اونچائی ظاہر کرتی ہیں کہ آنے والے 12 سے 24 گھنٹوں میں اس طوفان کی وجہ سے موسمی صورتحال مزید خراب ہوگی۔
ماہرینِ موسمیات کے نزدیک ’’ہاروے‘‘ طوفانِ باد و باراں (ہریکین) کا انداز بھی معمول کے طوفانوں سے خاصا مختلف ہے کیونکہ ساحل سے ٹکرانے کے بعد یہ مزید آگے بڑھنے کے بجائے سمندر کی طرف واپس پلٹ سکتا ہے اور یوں اس کی کم پڑتی ہوئی شدت میں ایک بار پھر اضافہ ہوسکتا ہے جبکہ اس سے ہونے والی تباہی بھی ہمارے سابقہ اندازوں سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی رواج کے مطابق زیادہ شدید، خطرناک اور تباہ کن طوفانوں کو خواتین کے نام دیئے جاتے ہیں جبکہ کم خطرناک طوفانوں کے مردانہ نام رکھے جاتے ہیں۔ مذکورہ طوفان کےلیے مردانہ نام ’’ہاروے‘‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب یہ وجود میں آیا تھا تو خود ماہرین کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنا خطرناک ہوجائے گا اسی لیے انہوں نے اسے مردوں والا نام دیا۔ البتہ ماہرین کے اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے یہ طوفان شدید کی انتہائی حدوں کو پہنچ چکا ہے لیکن اب اس کا نام بدلنے کا وقت گزر چکا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔