پیارے بلوچستان کے حسین رنگ

ببرک کارمل جمالی  بدھ 27 ستمبر 2017
کہیں بلند و بالا اور فلک بوس پہاڑ تو کہیں میلوں پر پھیلے ہوئے میدانی علاقے۔ کہیں فصلوں کی ہریالی، کہیں آبشار تو کہیں قدیم ترین تہذیب مہر گڑھ کے کھنڈرات: فوٹو: فائل

کہیں بلند و بالا اور فلک بوس پہاڑ تو کہیں میلوں پر پھیلے ہوئے میدانی علاقے۔ کہیں فصلوں کی ہریالی، کہیں آبشار تو کہیں قدیم ترین تہذیب مہر گڑھ کے کھنڈرات: فوٹو: فائل

پیارے بلوچستان کے رنگ بہت حسین ہیں۔ کہیں بلند و بالا اور فلک بوس پہاڑ تو کہیں میلوں پر پھیلے ہوئے میدانی علاقے۔ کہیں فصلوں کی ہریالی، کہیں آبشار تو کہیں قدیم ترین تہذیب مہر گڑھ کے کھنڈرات؛ اور کہیں پہاڑوں کی اترائی اور چڑھائی کے خوبصورت مناظر جو دل میں اتر جاتے ہیں۔ بلوچستان میں مختلف قومیں آباد ہیں اور اِن سب کے رسوم و رواج اپنے اپنے حلقے میں الگ الگ حیثیت رکھتے ہیں۔ مثلاً سندھیوں کی ثقافت لسبیلہ کی جانب سے بلوچستان میں داخل ہوئی تو کوئٹہ کی طرف پشتونوں کی ثقافت نے جنم لیا۔ سندھ اور پنجاب کی سرحدوں سے بھی ثقافت کا کچھ حصہ بھی اس خطے میں داخل ہوا، گویا بلوچستان اپنی ثقافت میں بھی متنوع ہے۔

آج سے دو ہزار سال قبل تجارتی قافلے برف پوش پہاڑوں کے سائے تلے پگڈنڈیوں اور گدھوں کے اوپر سفر کیا کرتے تھے۔ راستے انتہائی پُر پیچ گھاٹیوں پر مشتمل ہوتے تھے۔ انہی پتھروں پر چل کر لوگ تجارت کرتے تھے۔ ریشم کی تجارت کی غرض سے دور دور تک سفر کرتے تھے۔ اگر میں اپنے ماضی پر نظر ڈالوں تو یہ نہیں معلوم کہ میں کب ان پہاڑوں کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔ میں نے جب پہلی مرتبہ پہاڑ دیکھے تو حیران رہ گیا کہ اللہ تعالی نے کیسے انہیں میخوں کی طرح زمین میں ٹھونک رکھا ہے۔ اِس وقت میں دسویں جماعت میں تھا۔ میری ہمیشہ خواہش رہی کہ ان پہاڑوں کو پار کرکے ان کے پیچھے جو دنیا آباد ہے، وہ دیکھوں، ان کے رسوم و رواج، ان کی ثقافت دیکھوں، پہاڑوں کے اُس پار کیسے لوگ بستے ہیں؟ اور ان کے ہاں کیسے کیسے کھانے پکائے جاتے ہیں؟ اور وہ کیا کچھ کھاتے پیتے ہیں؟

جب میں نے پہلی مرتبہ کوئٹہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ پہاڑوں کے اس پار بھی ہم جیسے ہی لوگ رہتے ہیں۔  پہلی مرتبہ جب میں نے ان پہاڑوں کو پار کرکے الگ ثقافت کو دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ اصل بات یہ تھی کہ ہر موسم بلوچستان میں رنگیلا ہوتا ہے۔ کہیں گرمی تو کہیں سردی، کہیں بارش تو کہیں بادل، اور کہیں بادل کا نام و نشان تک نہیں۔ ہر موسم میں بلوچستان کی سرزمین پر گائے، بھیڑ، بکریاں، اور اونٹ اور گدھے پر چارہ لدا ہوا دکھائی دے گا۔ ان بلند چوٹیوں پر ان جانور کو چراتے ہوئے چرواہے ملیں گے۔ نہ انہیں گرمی کی فکر نہ سردی کی۔ ہاں، اگر ان لوگوں کو کچھ فکر ہے تو اپنے جانوروں کے پیٹ کی آگ بجھانے کی۔

میرا بلوچستان ایسا ہے جیسے مسکراہٹ، محبت اور حسین نظارے سب ایک ساتھ جمع کیے ہوں۔ بلوچستان کی ثقافت دیکھنے والا ہر شخص داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ صوبہ بلوچستان دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔ زیادہ پسماندہ ضرور ہے مگر دل کا سب سے بڑا صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ بلوچستان میں انگریزی دورِ حکومت میں لگائے گئے ہزاروں میٹھے شہتوت کے درخت یہاں پر ٹھنڈے ٹھنڈے موسم میں اپنے جوبن پر فصل دیتے ہے۔ ان کی فصل مقامی لوگ کم اور باہر کے لوگ زیادہ کھاتے ہیں۔ اسی طرح خشک میوہ جات اور سیب کے باغات جگہ جگہ بلوچستان کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ بلوچستان کے سیب تو پوری دنیا میں بہت مشہور ہیں۔ بلوچستان کا شہر سبی دنیا کے گرم ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے، اسی طرح بلوچستان کے علاقے زیارت کی سردی بھی اپنی جگہ ایک الگ مقام رکھتی ہے۔

بلوچ ثقافت میں سب سے زیادہ شلوار اور قمیص کے لباس کو اہمیت دی جاتی ہے جبکہ پگڑی (تراب) بھی بلوچستان کے باسی شوق سے پہنتے ہیں۔ بلوچ صدیوں سے تراب پہنتے ہوئے آرہے ہیں۔ اِس کی ابتداء بلوچوں نے کب کی؟ یہ گوگل بھی نہیں بتاسکتا۔ ہاں! کچھ سینہ بہ سینہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان میں جب بلوچ ہجرت کرکے آئے تو تراب ساتھ ہی لائے تھے۔ بلوچستان میں آج بھی سیکڑوں سال پرانے کنویں موجود ہیں جن سے پانی بھی ایک ربڑ کے کین سے نکالا جاتا ہے۔

بلوچستان کی چپل بھی بہت مشہور ہے۔ بلوچی چپل اور نوروزی (چھبھٹ) چپل بہت پسند کی جاتی ہے جسے چھ سے سات سال تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کا چمڑا ایران سے منگوایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں ہزارہ قوم کے بنائے ہوئے بوٹ ایسے ہیں جیسے لوہا؛ زندگی گزر جائے گی مگر بوٹ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔

بلوچستان کی سر زمین کھانے کے حوالے سے بھی بہت مشہور ہے۔ سردیوں کے موسم میں بلوچستان کی سجی ایسے ہے جیسے من و سلویٰ۔ اس سجی کو پکانے کیلئے ایک بڑے دائرے میں الاؤ جلائے جاتے ہیں جن کے گرد لوگ بیٹھ کر حرارت لیتے اور سجی تیار کرتے ہیں۔ بڑی سی سلاخیں گاڑ کر اُن میں مصالحوں سے بھرے بکرے کے گوشت کو آگ کی حدت پر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ ثقافت قدیم دور سے لے کر آج کے جدید دور تک میں معروف ہے۔ سجی کو بنانے میں چار سے پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔

بلوچستان میں خشک گوشت کا رواج بھی صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ یہ خشک گوشت رمضان المبارک میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس ثقافت میں گوشت کو ایک کپڑے کے ساتھ باندھ کر لٹکادیا جاتا ہے جس سے یہ بتدریج خشک ہوتا جاتا ہے۔ پھر تین چار ماہ بعد اس گوشت کو مختلف کھانوں کے ساتھ ہم آمیز (مکس) کرکے پکایا جاتا ہے۔

بلوچستان میں ایک اور رواج بھی آج تک قائم ہے؛ اور وہ ہے خشک لسی۔

اُس میں لسی کو ایک کپڑے کے ساتھ باندھ کر لٹکادیا جاتا ہے اور جب سارا پانی نکل جاتا ہے تو  لسی کو ’’سیکو خرود‘‘ کا نام دیا جاتا ہے جبکہ اُس کی شکل لڈو جیسی بنائی جاتی ہے اور پھر اُس کو برسوں تک استعمال کیا جاتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ببرک کارمل جمالی

ببرک کارمل جمالی

بلاگر بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں جبکہ بلوچستان کے مسائل پر دس سال سے باقاعدہ لکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف اخبارات میں آپ کے کالم اور بلاگ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔