جارج گیلوے اور کیمرون منٹر

زاہدہ حنا  ہفتہ 23 فروری 2013
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ہمارے یہاں آج سے نہیں، صدیوں سے بدیسی لوگوں کے آنے جانے کا تانتا بندھا رہا۔ کبھی مہاتما بدھ کے عشق میں گرفتار فاہیان آیا، ہیون سانگ ہزارہ، درہ خیبر اور پشاور سے گزرا، ابو ریحان البیرونی نے 17 برس ہندوستان میں صرف کیے اور ’’کتاب الہند‘‘ جیسی مستند کتاب لکھی۔ کبھی سیاحت کے شوق کی ریشمی ڈوری سے بندھا ہوا طنجہ کا ابن بطوطہ، ماسکو سے چلنے والا، افانا سے نکیتن، اٹلی کا برنیر، سب ہی ہمارے یہاں آئے اور کیسی دل پذیر یادیں چھوڑ گئے۔

ان کی کچھ باتیں سچی اور کچھ میں ان کے خواب و خیال کی آمیزش۔ یورپ کی ابھرتی ہوئی اور سمندروں پر اپنے پھریرے اڑاتی ہوئی طاقتوں کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان قدیم تہذیب و تمدن اور الغاروں دولت سے مالا مال ایک ایسا ملک ہے جسے ’جنت نشان‘ اور ’سونے کی چڑیا‘ کہا جاتا ہے تو وہاں سے ہمارے بادشادہوں کے دربار میں وینس کے مرصع آئینے، ہالینڈ کی گھڑیاں اور گھڑیال اور گٹن برگ کے چھاپہ خانے سے شایع ہونے والی کتابوں کے تحفے بھیجے جانے لگے جنھیں مغل بادشاہوں اور شہزادوں نے کچھ زیادہ درخور اعتنا نہ سمجھا۔

ہم سر تھامس رو کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں کہ یہ وہی تھا جس نے جہانگیر کے دربار میں حاضری دی اور ہندوستان میں ایسٹ انڈ یا کمپنی کے قدم رکھنے کی راہ ہموار کی۔ یہ کمپنی ہمارے یہاں تجارت کے لیے آئی تھی اور پھر اس نے ہم پر کس شان سے حکومت کی۔ یہ ایک نہایت اہم اور طولانی قصہ ہے۔ اسے پھر کبھی کے لیے اٹھا رکھتی ہوں۔ یہ باتیں مجھے اس وقت یاد آئیں جب میں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے چوتھے ادبی سیشن میں سابق امریکی سفیر کیمرو ن منٹر کو توجہ سے پاکستان کے انگریزی ادیبوں کی باتیں سنتے دیکھا۔ اس سے پہلے ان کا ایک سیشن اشرف جہانگیر قاضی کے ساتھ تھا۔ دیکھا جائے تو ادب کی گفتگو میں کسی سابق امریکی سفیر کا کیا کام؟ لیکن اب سیاست، صحافت اور ادب ایک دوسرے میں اس طرح شیر و شکر ہوئے ہیں کہ کبھی کبھی ان کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

کیمرون منٹر صاحب نے پاکستان میں اپنی سفارت کے دوران ایک مشتعل قوم کے درمیان بہت مشکل وقت گزارا۔ اس روز انھیں کراچی میں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہ ذاتی طور پر جو کچھ سوچتے اور محسوس کرتے ہیں اسے بیان کرنے سے نہیں گھبراتے۔ وہ سیدھے واشنگٹن سے آ رہے تھے جہاں انھوں نے اٹلانٹک کونسل میں باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسامہ بن لادن پر حملے کی پیشگی اطلاع نہ ہونے کی پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ کہنے سے بھی نہیں چوکے کہ اگر دوبارہ ایسی کوئی صورتحال ہو تو وہ پاکستان کو حقیقت حال سے آگاہ نہیں کریں گے اور اس بات کی پوری احتیاط کریں گے کہ ایسا حملہ پاکستان سے خفیہ رکھا جائے۔ وہ سلالہ حملے اور اس کے نتیجے میں پاکستانی سپاہیوں کے جانی نقصان پر بھی کھل کر بولے۔

انھوں نے کہا کہ یہ ہماری خوفناک غلطی تھی۔ ہم نے جولائی کے مہینے تک پاکستان سے معذرت نہیں کی جس کی قیمت ہم نے اربوں ڈالر کی صورت میں ادا کی۔ انھوں نے ریمنڈ ڈیوس اور اس کی رہائی کے سلسلے میں آئی ایس آئی کے مثبت کردار اور ڈرون حملوں کے بارے میں بھی کھل کر باتیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو یہ بتانا چاہیے کہ ڈرون حملے کیوں کیے جاتے ہیں، ان کی اہمیت اور افادیت کیا ہے۔ انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں یہ کہا کہ امریکا اس وقت تک تعاون اور مدد دینے والے پروگرام نہیں شروع کر سکتا جب تک پاکستان میں وہ لیڈر شپ موجود نہ ہو جو ان معاملات کو درست خطوط پر دیانت داری سے چلا سکے۔ اسی طرح توانائی کے بحران پر بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ بات واضح انداز میں کہی کہ مسئلہ گرڈ میں مزید میگاواٹ بجلی کے اضافے کا نہیں بلکہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا ہے جس کے بعد ہی اضافی بجلی لوگوں تک پہنچ سکتی ہے۔

منٹر صاحب 2012ء میں پاکستان میں سفارت کے عہدے سے دستبردار ہوئے تھے۔ اس وقت سے اب تک وہ کولمبیا اسکول آف لا میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔ باتیں انھوں نے خواہ واشنگٹن کی اٹلانٹک کونسل میں کی ہوں یا کراچی کے ادبی میلے میں، محسوس یہی ہو رہا تھا کہ سفارت کے عہدے سے دست کش ہونے کے بعد بھی وہ اپنی حکومت کی وکالت بہت مہارت اور سلیقے سے کر رہے ہیں۔ سرطاس تھامس رو نے جہانگیر کے دربار میں تاج برطانیہ اور برطانوی تاجروں کے لیے تجارتی سہولتوں کے حصول کے لیے ان تھک کوششیں کی تھیں جو برسوں بعد رنگ لائیں۔ منٹر صاحب پاکستان میں امریکا کے سفیر نہ ہوتے ہوئے بھی حکومت سے زیادہ عوام کا دل جیتنے کی کوششوں میں مصروف نظر آئے۔

ان کے برعکس کراچی کے اس ادبی میلے میں برطانوی ممبر پارلیمنٹ جارج گیلوے نے بے دھڑک وہ باتیں کہیں جنھیں سننے کی توقع ہم اپنے بہت سے سیاستدانوں سے رکھتے ہیں۔ فلسطین کے رہنما یاسر عرفات سے ان کے گہرے تعلقات تھے۔ آج بھی وہ فلسطینیوں کی آزادی کی تحریک کے ہم نوا ہیں۔ انھوں نے عراق پر امریکی حملے اور اس میں برطانوی شراکت کے خلاف پہلے دن سے آواز بلند کی اور جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ جنگ مخالف تقریریں اور بیانات سے کب کنارہ کریں گے؟ تو انھوں نے جواباً کہا تھا کہ ’’جب میں دی ہیگ کی عالمی عدالت انصاف میں ٹونی بلیئر کو ہتھکڑیوں میں دیکھوں گا۔‘‘

جارج گیلوے جب ہمارے مشہور ادیبوں اختر حسین رائے پوری اور بیگم حمیدہ اختر کے صحافی بیٹے عرفان حسین سے گفتگو کر رہے تھے تو ان کو سننے و الوں کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے اور جب ان کی تقریر پر اس ادبی میلے کا اختتام ہوا تو بحیرہ عرب سے آنے والی خنک ہوائیں جارج گیلوے کی شعلہ بیانی کو کم نہ کر سکیں۔ کراچی کے سیکڑوں ادیبوں اور ادب دوستوں کے سامنے وہ مغرب سے یہ سوال کر رہے تھے کہ آپ مسلمانوں سے یہ توقع کیسے رکھتے ہیں کہ آپ ان کی زمینوں کو فتح کریں، ان کے لوگوں کو قتل کریں اور پھر بھی وہ آپ سے تعلق خاطر رکھیں۔ ڈرون حملے دہشت گردی کو ختم نہیں کر سکتے۔ یہ نفرت کو جنم دیتے ہیں۔ اس نفرت کو جس کا نتیجہ نائن الیون کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔ گیلوے نے اسرائیل کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔

وہ کہہ رہے تھے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ انصافی کی جو انتہا کر رکھی ہے اسے بہر طور ختم ہونا چاہیے۔ مغرب نے دہرے معیار اپنائے ہیں جو ظلم کے سوا کچھ نہیں۔ فلسطینیوں کے پاس کوئی ملک نہیں، ان کے پاس شناخت اور سفری سہولتوں کے لیے کاغذات نہیں ہیں۔ وہ کچلے ہوئے لوگ ہیں جنھیں سماج کے حاشیوں پر دھکیل دیا گیا ہے۔ جب تک مغربی طاقتیں اسرائیل کو بھاری رقوم اور اسلحہ دیتی رہیں گی اور فلسطین کو ان عنایات سے محروم رکھیں گی، اس وقت تک یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان انھیں معاف کر دیں۔ مغرب کو چاہیے کہ دہشت گردوں کی نہیں، دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کی حمایت کرے۔

اسے جمہوریت کے نام پر مسلمانوں کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ ختم کرنا چاہیے۔ انھوں نے اس بات پر بھی شدید نکتہ چینی کی کہ مغرب مسلمان آمریتوں کی حمایت کرتا ہے۔ ان کو سرمایہ اور اسلحہ فراہم کرتا ہے تا کہ وہ اپنے ملک میں جمہوریت اور انصاف کے طلب گاروں کو کچل سکیں اور اس کے عوض مغرب کی بلا مشروط حمایت کر تے رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے مسلمان عوام احمق نہیں۔ وہ اپنے ظالم حکمرانوں اور ان کی حمایت کرنے والی مغربی طاقتوں کو اچھی طرح پہچانتے ہیں جو اپنے ملکوں میں جمہوریت اور انصاف کی بات کرتی ہیں لیکن تیسری دنیا اور بطور خاص مسلمان ملکوں میں جمہوری تحریکوں کو کچلنے کے لیے مسلمان آمروں کو ہر نوعیت کی مدد فراہم کرتی ہیں۔ عوام سب کچھ سمجھتے ہیں اور اسی لیے وہ مغرب سے نفرت کرتے ہیں۔

ان کو سننے والے تالیاں بجاتے نہیں تھک رہے تھے ، کچھ مرد ایسے بھی تھے جو اپنی آستین سے اور عورتیں اپنے آنچل سے آنسو خشک کر رہی تھیں۔ وہ ادبی میلے کا آخری مگر سب سے درخشاں ستارہ تھے۔

گیلوے بھٹو صاحب کے ذاتی دوست تھے۔ بے نظیر بھٹو سے بھی ان کے گہرے مراسم تھے ۔ وہ 25 برس بعد کراچی آئے تھے۔ ادبی میلہ لوٹنے کے بعد وہ سکھر گئے۔ موہن جو دڑو ائیر پورٹ پر اترے اور گڑھی خدا بخش گئے۔ انھوں نے بھٹو خاندان کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں۔ اپنے دوست زلفی اور اس کی بیٹی کو یاد کیا اور سندھ کو فتح کر کے رخصت ہوئے۔ انیسویں صدی میں سندھ کو برطانوی جرنیل سر چارلس نیپیر نے فتح کیا تھا اور اکیسویں صدی میں برطانوی ادیب، صحافی اور قانون داں نے بھی سندھ کا دل جیت لیا۔ دونوں کی فتوحات میں فرق یہ ہے کہ ایک نے گولیوں سے سندھ کو جیتا اور اس پر یونین جیک لہرایا، دوسرے نے محبت بھرے لفظوں سے سندھ اور پورے پاکستان کو فتح کیا۔

کیمرون اور جارج گیلوے دونوں کا تعلق مغرب سے ہے اور ان میں یہ بات مشترک ہے کہ وہ جو سوچتے ہیں اسے کھل کر بیان کرتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی خوبی ہے جس نے مغربی سماج کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔