اعلیٰ تعلیم کے لیے چین ایک اچھا انتخاب کیوں؟ (دوسرا حصہ)

کامران امین  ہفتہ 21 اکتوبر 2017
چین میں بیلٹ اینڈ روڈ اسکالرشپس کے نام سے ایک نئی اسکالرشپ کا اجراء ہوا ہے جو بالخصوص پاکستان اور ان ممالک کےلیے ہے جہاں چین ترقیاتی کاموں میں بہت دلچسپی لے رہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

چین میں بیلٹ اینڈ روڈ اسکالرشپس کے نام سے ایک نئی اسکالرشپ کا اجراء ہوا ہے جو بالخصوص پاکستان اور ان ممالک کےلیے ہے جہاں چین ترقیاتی کاموں میں بہت دلچسپی لے رہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

اسکالرشپ کے ضمن میں پہلی قسط میں کچھ باتیں رہ گئیں تھیں۔ حال ہی میں بیلٹ اینڈ روڈ اسکالرشپس کے نام سے ایک نئی اسکالرشپ کا اجراء ہوا جو بالخصوص پاکستان اور ان ممالک کےلیے ہے جہاں چین ترقیاتی کاموں میں بہت دلچسپی لے رہا ہے۔ مجموعی طور پر پاکستانی طلبا کو اسکالرشپس دینے میں چینی حکام بہت فراخ دل واقع ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوئی خاص میرٹ یا ضابطہ بھی ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ مثلاً روڈ اینڈ بیلٹ اسکالرشپس میں میری یونیورسٹی (یونیورسٹی آف چائنیز اکیڈمی آف سائنسز) میں اس سال مجموعی طور پر 17 ممالک کے 120 طلبہ منتخب ہوئے ہیں جن میں سے 28 کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اسی طرح باقی یونیورسٹیاں بھی پاکستانی طلبا کو کشادہ دلی سے داخلہ دیتی ہیں۔

یہ بلاگ ضرور پڑھیے: اعلیٰ تعلیم کےلیے چین ایک اچھا انتخاب کیوں؟

چین میں داخلہ لینے کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی طرح کا زبان کا کوئی ٹیسٹ یا مہنگا قسم کا کوئی امتحان نہیں دینا پڑتا۔ یورپ یا امریکا جانے والوں کو انگلش زبان کے انتہائی مہنگے ٹیسٹ پاس کرنے ضروری ہوتے ہیں۔ پھر بعض ممالک میں مخصوص قسم کے سبجیکٹ ٹیسٹ الگ سے ہوتے ہیں اور اس سارے پروسیس کی فیس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ایک غریب طالب علم اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لیکن چین میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ نہ زبان کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی امتحان اور نہ کوئی فیس جمع کروانے کی ضرورت۔ بین الاقوامی طلبا کےلیے پڑھائی کا نصاب انگلش میں ہوتا ہے اور جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں پر یونیورسٹی خود پہلے ایک سال کا زبان کا کورس کرواتی ہے اور پھر باقاعدہ پڑھائی شروع ہوتی ہے۔ داخلے کی پروسیسنگ فیس کچھ ادارے وصول کرتے ہیں جو تقریباً 10 ہزار پاکستانی روپوں کے برابر ہوتی ہے اور یہ فیس بھی اکثر پروفیسر اپنی جیب سے ادا کر دیتے ہیں، یعنی طالب علم کو کچھ نہیں دینا پڑتا۔

ایک اور فائدے والی بات یہ ہے کہ چین میں کسی قسم کی نسلی منافرت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو اب یورپ اور امریکہ میں جڑیں پکڑ رہی ہے۔ وہاں ایشیائی طالب علموں سے نسل پرستانہ سلوک عام سی بات ہے۔ کچھ دن پہلے ہی امریکہ میں ایک مسلمان لڑکی کو روڈ پر ہلاک کردیا گیا۔ لیکن یہاں چین میں اس طرح کا کوئی خطرہ نہیں۔ بلکہ کسی چینی کو اگر پتا چلتا ہے کہ آپ پاکستان سے ہیں تو جذبات دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ بعض مرتبہ تو فوراً گلے لگ جاتے ہیں اور یہ تو عام سا فقرہ ہے کہ پاکستان چین کا بہترین دوست ہے۔

عموماً پاکستان میں مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں سہولیات کی بہت کمی ہوتی ہے۔ پھر جو کچھ موجود ہوتا ہے اس میں بھی کوئی اونچ نیچ ہوجائے تو ٹھیک کروانے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔ جیسا کہ میں پچھلے بلاگ میں بھی بتاچکا ہوں، گزشتہ چند سال سے چین تعلیم میں پیسہ پانی کی طرح بہا رہا ہے جس کی وجہ سے ان کی لیبارٹریز میں اس طرح کے مسئلے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ ہمارے انسٹیٹیوٹ میں کیمیکلز وغیرہ کی خریداری کےلیے ہر طالب علم کا ایک اکاؤنٹ بنایا گیا ہے جو پروفیسر کے اکاؤنٹ سے منسلک ہوتا ہے۔ طالب علم خود اپنی مرضی کی چیز آرڈر کرتا ہے اور اس کے پیسے پروفیسر کے اکاؤنٹ سے کٹ جاتے ہیں۔ ایک دن پہلے آرڈر کیجیے، اگلے دن کیمیکلز موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح ان چیزوں میں وقت کا ضیاع نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

میں بیجنگ میں ہوں اور اس کے قرب و جوار میں بہت سارے تاریخی مقامات ہیں۔ گرد و نواح میں بہت ساری خوبصورت جگہیں بھی ہیں۔ اسی طرح پورے چین میں خوبصورت صحت افزا مقامات کے ساتھ تاریخی جگہوں کی بھی بھرمار ہے۔ اکثر طالب علم چھٹیوں میں لمبی سیر و سیاحت پر نکلے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی طالب علم پورے چین میں بلا کسی روک رکاوٹ کہیں بھی گھوم سکتا ہے۔ بعض سیاحتی ادارے غیرملکی طلبا کو ان کا گروپ جوائن کرنے پر خصوصی ڈسکاؤنٹ بھی دیتے ہیں، اس طرح تعلیم اور سیاحت کا مزہ ساتھ ساتھ لیا جاسکتا ہے۔

چین نے تھوڑا عرصہ پہلے ہی اپنی یونیورسٹیوں کے دروازے بین الاقوامی طالب علموں کےلیے کھولے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی بین الاقوامی رینکنگ بہتر کرنے کےلیے غیر ملکی طلبا کی مخصوص تعداد کو داخلہ دینا ضروری ہوتا ہے۔ یورپ اور امریکہ سے فی الحال زیادہ طالب علم چین کا رخ نہیں کررہے لہٰذا یونیورسٹیوں کو مجبوراً ایشیائی ممالک سے ہی طالب علم منتخب کرنے ہوتے ہیں۔ اس سارے عمل میں فی الحال زیادہ زور صرف تعداد پوری کرنے پر دیا جاتا ہے، معیار کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا۔

آنے والے چند برسوں میں یہ صورتحال مکمل تبدیل ہوجائے گی کیوں کہ ہر سال یورپی طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ سال کے بعد یہاں کی یونیورسٹی میں داخلہ لینا بھی اتنا ہی مشکل ہوجائے گا جتنا کہ آج کل امریکی یونیورسٹیوں میں ہے۔ لہٰذا اس موقع سے فائدہ اٹھائیے اور چین میں اپلائی کردیجیے۔ اسکالرشپ لینے کا کیا طریقہ کار ہے اور کب اپلائی کریں؟ اس کی تفصیل، ان شاء اللہ، اپنی اگلی تحریر میں بیان کروں گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

کامران امین

کامران امین

بلاگر کا تعلق باغ آزاد کشمیر سے ہے اور چین سے میٹیریلز سائنسز میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بیجنگ میں نیشنل سینٹر فار نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، چائنیز اکیڈمی آ ف سائنسز سے بطور اسپیشل ریسرچ ایسوسی ایٹ وابستہ ہیں۔ چین میں تعلیمی زندگی اور تعلیم سے متعلقہ موضوعات پر لکھنے سے دلچسپی ہے۔ ان سے فیس بک آئی ڈی kamin.93اور ٹوئٹر ہینڈل @kamraniat پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔