شام کے بعد عراق، بغاوت کا اگلا نشانہ (حصہ اول)

صابر کربلائی  اتوار 3 مارچ 2013

عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کو ایک سال مکمل ہونے کے باوجود متعدد سیکیورٹی خدشات آج بھی موجود ہیں۔ مغربی اور شمالی صوبوں کے مسائل،عراقی حکومت کو شدید بحران میں دھکیلنا ،لسانیت اور فرقہ واریت کو ہوا دے کر تقسیم کرنا، یہ سب سازشیں بھی کی جارہی ہیں۔کل رقبے 438317مربع کلومیٹر پر محیط جمہوریہ عراق مغربی ایشیا اور خلیج کا اہم ملک ہے۔اس کی سرحدیں جنوب میں کویت اور سعودی عرب، شمال میں ترکی اور مغرب میں شام اور اردن اورمشرق میں ایران سے ملتی ہے ۔اس کی تزویراتی حیثیت بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ماضی میں بائیس ممالک کی افواج عراق سے ہوتی ہوئی سر زمین ہند پہنچیں ۔عراق منگولوں کے حملوں کا نشانہ بنا۔یہ’تجارتی چوراہا‘‘بھی ہے کیونکہ عراق وسطی ایشیاء، جزیرہ نمائے عرب اور ہندوستان کے مابین تجارتی سرگرمیوں کا بہترین راستہ ہے۔یہ مشرق ومغرب کی ثقافت اور تہذیب کے تبادلے کا باعث بنا۔ سمندری اور فضائی اعتبار سے یہ یورپ اور ایشیاء کے درمیان ایک ربط بھی ہے۔

عراق کے زمینی راستے مشرقی یورپ،بحیرہ روم کے مشرقی حصے اور گلف کے علاقوں کو ایران،پاکستان اور ہندوستان تک ملاتے ہیں۔ یعنی تین تہذیبوں فارس،عرب اور ترک کو ملاتا ہے ۔کسی بھی ملک کی جغرافیائی حیثیت اس ملک کے طاقتور اور کمزور ہونے پر اثر انداز ہوتی ہے۔اور اسی وجہ سے اردگرد موجود ممالک کے ساتھ لالچ یا دوستی ودشمنی کا رشتہ برقرار رہتا ہے۔بہت سے ماہرین نے زور دیا ہے کہ عراق خلیج میں ہونے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے مرکزی دروازے اور خزانوں کے دروازوں کی اہمیت رکھتا ہے۔تیل کے قدرتی ذخائر کی دولت سے مالا مال ہونے کی وجہ سے عراق مغربی حکمت عملی اور تعلقات کا اہم ہدف بھی ہے۔عرب اسرائیل جنگ،ایران عراق جنگ،دوسری خلیجی جنگ اور امریکی مظالم عراق کو غیر مستحکم کرنے کا باعث بنے ہیں۔

امریکا اور مغرب اس بات پر آمادہ ہیں کہ عراق کو کسی طرح تقسیم کر دیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عراق کے کرد علاقوں پر ترکی کی حکومت کنٹرول سنبھال لے جب کہ ایران کو محدود کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ شام میں بھی مسائل پیدا کیے گئے تا کہ عراق کو غیر مستحکم کرنے اور تقسیم کے عمل میں جغرافیائی دشواریاں کم سے کم پیش آئیں۔ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ سوائے تباہی اور بربادی کے عراق میں موجود 143.10 بیرل تیل کے ذخائر سے عراقیوں کو کیا ملا؟ یہ سعودی عرب کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا تیل کا ذخیرہ ہے۔ عراق سے تیل کی برآمد 3 ملین بیرل یومیہ ہے۔ عراق 2012 میں اوپیک میں دوسرے نمبر پر تھا۔اس بات سے اندازاہ لگایا جا سکتا ہے کہ 2014 میں عراق کی تیل برآمد کرنے کی صلاحیت5ملین بیرل یومیہ ہو سکتی ہے۔یہاں گیس کے ذخائر بھی موجودہیں جو 3158 بلین مربع میٹر ہیںیعنی گیس کے بڑے ذخائر کے اعتبار سے یہ دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے۔

یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ عراق نے کبھی بھی جدید آلات اور تکنیک کی مدد سے تیل نہیں نکالا کیونکہ عراق کے پاس جدید ٹیکنالوجی نہیں۔ اگر جدید ٹیکنالوجی اور آلات موجودہوں تو عراق تیل کے نئے ذخائر سے تقریباً 360 بلین بیرل تیل کی سپلائی کر سکتا ہے جو کہ دنیا کے لیے مستقبل میں دو یا تین صدیوں تک کافی ہو گی۔ماہرین تیل وگیس کے مطابق عراق میں موجود 74فیلڈز میں سے صرف 15فیلڈز ایسی ہیں جو تیل کی سپلائی کر رہی ہیں۔عراق کی معیشت کا اولین ستون تیل کو سمجھا جاتا ہے۔عراق اوپیک نامی تنظیم کو قائم کرنے والے بانی ممالک میں سے ایک ہے ۔یہ تنظیم 1925ء میں قائم ہوئی۔امریکی سیکیورٹی کونسل کے ایک ماہر کے مطابق عراق عرب اور ایشیائی دنیا کا قلب ہے۔عراق پرکنٹرول کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف تیل کے ذخائر بلکہ ایشیاء اور عرب دنیا کے راستے پر بھی کنٹرول حاصل کرنا۔

موجودہ آئین کے مطابق عراق ایک وفاقی ،آزاد اور خود مختار ریاست ہے۔ یہاں پارلیمانی نظام جمہوریت رائج ہے۔وفاقی حکومت میں ایگزیکٹو انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ ہیں۔ جب کہ متعدد کمیٹیاں بھی موجود ہیں۔ آئین کے مطابق یہاں 18صوبے ہیں جو کہ گورنر کے زیر انتظام ہیں جب کہ ایک علاقہ کردستان دھوک اور سلیمانیہ کے صوبوں کی حکومتوں کے زیر اثر ہے۔کردستان عراق کے اندر اپنی نوعیت کی ایک ممتاز شناخت ہے۔2011ء میں عراق کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 32,665,000 تھی۔عراق میں متعدد قومیتوں اور مذاہب و مسالک کے لو گ آباد ہیں۔اکثریت عرب ہے جب کہ کرد اور اسی طرح بعد میں آنے والے ترک، آرمانیان، شاباک اوردیگر قومیتوں کے لوگ بھی موجود ہیں۔عراق میں غیر ملکی قومیتوں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد بھی دسیوں ہزار میں ہے۔

چھ صوبوں میں احتجاج ہورہا ہے جن میں الانبار، نینوا، صلاح الدین،کرکوک اور دیالہ شامل ہیں لیکن ان میں جو کچھ انبار میں ہو رہا ہے کافی دلچسپی کا باعث ہے۔مرکزی حکومت اورکردستان کے درمیان کشیدگی بھی ہو جاتی ہے۔ دہشت گرد عناصر متعدد عراقیوں کو قتل کر رہے ہیں ۔ الانبار میں احتجاجی مظاہروں کے شروع ہونے سے قبل جو مسئلہ پیش آیا ہے وہ عراقی نائب صدر طارق الہاشمی کو عدالت کی طرف سے دہشت گردی ایکٹ کے تحت دہشت گردوں کی مددکرنے کے جرم میں سزائے موت کا اعلان ہے جس کے بعد انبار میں عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے مخالف ایاد اعلاوی نے پر تشدد مظاہروں کا اعلان کیا۔دوسری طرف عراقی حکومت اور کردستان کے مسئلے میں ترک حکومت کی بے جا مداخلت بھی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔مغربی عراق میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا آغاز عراق کے وزیر مالیات کے ایک چیف سیکیورٹی آفیسر کو گرفتار کیے جانے کے بعد ہوا ہے۔عراقی وزیر مالیات کے سیکیورٹی آفیسر پر الزام عائد ہے کہ وہ دہشت گردوں کا مدد گار ہے۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ مسئلہ سیاسی طور پر نہیں بلکہ فرقہ واریت کی بنیاد پر شروع کیا گیا اور ان مظاہروں کی بنیاد فرقہ واریت پر رکھی گئی ہے۔

عراقی اعداد و شمار کے مطابق اور موصولہ معلومات کے تحت حالات سنگین ہو رہے ہیں۔ فرقہ واریت کی آگ کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا دی جا رہی ہے۔عراق میں بڑھتا ہوا فشار یقینا شام کے اندر ہونے والی سازش کے باعث بڑھ رہا ہے کیونکہ شام میں موجود حکومت مخالف دہشت گرد گروہوں کے ساتھ منسلک افراد عراق میں موجود ہیں اور چاہتے ہیں کہ عراق کو لسانی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیں۔لیکن ناعاقبت اندیش اس بات سے نابلد ہیں کہ عراق کو آگ میں جھونکنا خطے میں انتہائی خطرناک ثابت ہو گا۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔