امریکا پاکستان سے چاہتا کیا ہے؟

رشید جمال  جمعـء 3 نومبر 2017

پاک امریکا تعلقات کس ڈگر پرچلیں گے اس کا اندازہ تو مستقبل میں ہوگا، لیکن اس وقت پاکستان امریکا کی ’’ نئی افغان پالیسی‘‘ سے متفق نظر نہیں آرہا اور نہ ہی پاکستان اپنی سرزمین پر افغان جنگ لڑنے کی اجازت دے گا، اگرپاکستان اور امریکا کے اختلافات ختم بھی ہوجائیں تب بھی ایشیاء میں ابھرتے ہوئے نئے اسٹریٹجک الحاق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بات اب بالکل واضح ہو چکی ہے کہ امریکا چین کی علاقائی برتری کا مقابلہ کرنے اور اسے سپر پاور بننے سے روکنے کے لیے بھارت کو اپنا اتحادی بنا چکا ہے، جب کہ خطے میں بھارت کی طاقت میں اضافہ پاکستان کے لیے خطرے کا باعث بنے گا۔امریکا اور یورپ ہمیشہ سے پاکستان کو ایک اسلامی ایٹمی طاقت کا حامل ملک سمجھ کر اپنے لیے خطرہ سمجھتے رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے امریکا پاکستان کا اتحادی ہونے کے باوجود بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خاتمے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ بھارت کا اتحادی بننے کے بعدامریکا کی ان کوششوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان سے یک طرفہ طور پر ایٹمی پیداوار روکنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے، اس کے برعکس امریکا بھارت کو اس کے ایٹمی پروگرام، میزائل ٹیکنالوجی ،اینٹی بلیسٹک میزائل ٹیکنالوجی اور خلائی ٹیکنالوجی کے حصول میں کھل کر معاونت کر رہا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے جنوبی ایشیا میں بھارت کو بطور لیڈر دیکھنے کی خواہش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ بھارت امریکا کا قدرتی دوست ہے اور اس کی خطے میں بطور لیڈر حمایت کرتا ہے ، امریکی وزیر خارجہ نے یقین دہانی کرائی کہ بھارتی فوج کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے گا۔ ٹرمپ ایک جانب بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان سے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کررہا ہے۔

مزید برآں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔امریکی امداد کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے مشروط کیا جارہا ہے۔ دیکھا جائے تو ہم امداد سے زیادہ اپنے وسائل کی تباہی اور جانوں کا ضیاع کر رہے ہیں۔امریکی مفادات کی جنگ نے افغانستان اورپاکستان کو اپنی آگ میں لپیٹ رکھا ہے ، اس جنگ کا سب زیادہ نقصان پاکستان نے اْٹھایا ہے۔ہزاروں فوجی جوان اور پولیس اہلکار شہید ہوئے، بے تحاشہ خون بہا اور معصوم بچے تک مارے گئے۔مالی اور تجارتی نقصانات کی توکوئی حد نہیں۔ لیکن پھر بھی امریکا کے خیال میں پاکستان نے وہ نہیں کیا جو اْس کا مطالبہ تھا۔

پاکستان اِن مصائب سے گزرتا رہا، دہشتگردی کا نشانہ بنتا رہا،اس کے باوجو امریکا ہماری تمام قربانیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتا رہا۔ اس جنگ میں ہم نے نہ صرف اپنا امن کھویا، ہزاروں پاکستانیوں کی جانیں کھوئیں بلکہ اپنے وسائل اور اپنی معیشت کی بربادی سے اپنی آنیوالی نسلوں کو سالہا سال پیچھے کردیا ہے۔ ترقی معکوس کے اس عمل میں ہماری تجارت ہماری معیشت سب بہہ گئی اس کے باوجود امریکا بہادر پاکستان سے اب بھی ڈو مور کا مطالبہ کررہا ہے۔

پاکستان امریکا کی جنگ کا حصہ بن کر اب تک ستر ہزار جانوں اور اربوں ڈالر کا کا نقصان اٹھا چکا ہے، ہمارا کلچر اور برداشت پر مبنی معاشرہ اس جنگ میں برباد ہو چکا ہے۔اس جنگ کے منفی اثرات اور نتائج پاکستان آج بھی بھگت رہا ہے۔ روس کے افغانستان سے انخلا کے بعد امریکا کی جانب سے پاکستان کو تنہا چھوڑنا اور پھر سقوط ڈھاکہ سانحے میں بھی امریکا کی ناکام دوستی کی ایک مثال ہے۔

ہم امریکی بیڑے کا انتظارہی کرتے رہے اور ملک دو لخت ہوگیا مگر اب پاکستان کے حکمرانوں نے امریکا کی مفاد پرستانہ دوستی اور دوغلی پالیسیوں سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔امریکا کے ڈو مور کے مطالبے پر ریاست پاکستان اب ایک ٹیلی فون کال پر Yes نہیں کہہ رہی بلکہ امریکی وزیر خارجہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر No more کا پیغام دیا گیا ہے اور اس سے قبل جب امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان تشریف لائے تو ان کا پاکستان کے وزارتِ خارجہ کے ایک درمیانی سطح کے اہلکاروں نے چکلالہ کے ہوائی اڈے پر استقبال کیا۔ اس بات کو امریکا اور دنیا نے بھی محسوس کیا کہ امریکی وزیر خارجہ کا استقبال روایتی گرم جوشی سے عاری تھا جب کہ ماضی میں حکمران طبقہ امریکی شخصیات پر دل و جاں نچھاور اور پلکیں بچھائے رکھتا تھا مگر اس بار وہ جوش و جذبہ نظر نہیں آیا۔ یہ واشنگٹن کو خاموش پیغام تھا کہ اب تعلقات برابری کی بنیاد پر ہی قائم کیے جائیں گے۔

پاک امریکا تعلقات ایک ایسے فیصلہ کن موڑ پر آگئے ہیں جہاں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی نوعیت کانچ سے بھی نازک ہوگئی ہے۔ ماضی کے برعکس پاکستان امریکا کے ساتھ معاملات میں مصلحت پسندی کی بجائے پہلی مرتبہ برابری کی بنیاد پر ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے طے کرناچاہتا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف نے واضح انداز میں امریکا کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان کسی صورت بھی اب امریکا سے معذرت خواہانہ قسم کے لب ولہجے میں بات نہیں کرے گا۔دونو ں ممالک کے درمیان نئی راہیں اور درمیانی راستہ ضرور نکالنا چاہیے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستانی حکام امریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں، بلکہ باوقار انداز میں امریکا بہادرکو جواب دیا جا رہا ہے جو بجا طور پر ملک و قوم کی حقیقی ترجمانی ہے اور اس پر پوری قوم ان کے ساتھ ہے۔

پاک امریکا تعلقات میں بڑھتی ہوئی خلیج اور دوریوں کی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خطے کے بارے میں نئی پالیسی ہے جس میں وہ پاکستان کے دیرینہ دشمن انڈیا کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دے رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ’’بھارت امریکا کا قدرتی دوست ہے جس کی خطے میں اہمیت ہے ‘‘امریکا پاکستان پر دہشتگردی کے خلاف مزید کارروائیاں کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔

امریکا کا الزام ہے کہ’’پاکستان میں بہت سی دہشتگرد تنظیموں نے پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں پھر واشنگٹن کی طرف سے پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے اجتناب کا الزام بھی تعلقات میں تناؤ پیدا کررہا ہے۔ امریکا کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں حکومت کے استحکام اور سلامتی سے متعلق خدشات ہیں تاہم حکومت پاکستان کو غیر مستحکم کیا جانا کسی کے مفاد میں نہیں۔‘‘

پاکستان امریکا اور چین سے بہتر تعلقات رکھنا چاہتا ہیں ، لیکن بین الاقوامی سیاسی ماحول میں پاکستان کے لیے یہ بہت مشکل ہوگیا ہے کہ وہ بیجنگ اور واشنگٹن دونوں سے بہت قریبی تعلقات رکھے اور ان تعلقات میں بہترین توازن حاصل کر سکے۔ اگر خطے میں ایران کے خلاف امریکا کچھ کرتا ہے تو اس کی بیجنگ اور ماسکو کی طرف سے بھر پور مخالفت کی جائے گی۔ لہٰذا پاکستان کو یہ بات امریکا پر واضح کرنی پڑے گی کہ وہ ایران کے خلاف کسی صورت کوئی ایسا اقدام برداشت نہیں کرے گا، جس سے خطے میں عدم استحکام ہو۔

امریکا اور سعودی عرب اب ایران کی بڑی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں اور اوباما کے دور میں سفارت کاری کے ذریعے ایران سے جو معاہدہ ہوا تھا اب یہ بہانے ڈھونڈ رہے ہیں کہ اس معاہدے کو توڑا جائے اور ایران کے خلاف کوئی اشتعال انگیزی کی جائے۔ چین خطے میں کوئی کشیدگی نہیں چاہتا۔ اگر ایران کے خلاف کوئی اشتعال انگیزی یا جارحیت ہوتی ہے، توچین و روس اس کی مخالفت کریں گے۔

ایسی صورت میں پاکستان کے لیے ایک طرف سعودی عرب اور امریکا ہوں گے جب کہ دوسری طرف چین و روس۔ پاکستان کے ایران اور افغانستان سے تعلقات بہتر نہیں ہیں ہمارے پاس چین کے علاوہ خطے میں کوئی ایسا دوست نہیں ہے جو ہمارا ساتھ دے۔ لہٰذا پاکستان کو بہت متوازن رہتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوگا۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے دورۂ پاکستان کے بعد وزیرخارجہ خواجہ آصف نے قومی جذبات کی ترجماتی کرتے ہوئے کہا کہ’’ دونوں ممالک کے تعلقات میں گزشتہ کئی برسوں میں برف اتنی جم گئی ہے، اس کو پگھلنے میں وقت لگے گا امریکا اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا فقدان راتوں رات ختم نہیں ہو گا ہم امریکا کے ساتھ دوستی رکھنا چاہتے ہیں لیکن اعتماد اور عزت و وقار کے ساتھ۔ ہمیں ان سے کوئی معاشی امداد اور اسلحہ نہیں چاہیے، بس صرف اور صرف احترام چاہیے جس میں وہ عزت سے بات کریں اور ہم بھی ان کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں گے، ہمارے ستر سال کے تعلقات ہیں اور انھیں ہم جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘ ہمیں اپنی عزت کو خود بحال کرنا ہے اگر امریکا اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف اور سرگرم ہے تو پھر ہمیں بھی عزت سے جینے اور اپنے مفادات کے تحفظ کا مکمل حق حاصل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔