صنعتی ترقی اور بیروزگاری

ایم آئی خلیل  جمعـء 18 اپريل 2014
   ikhalil2012@hotmail.com

[email protected]

سرمایہ داری نظام میں صنعتی ترقی کے لیے سرمایہ کاروں، صنعت کاروں وغیرہ کی اہمیت ہوتی ہے۔ چونکہ نجی ملکیت کے تحت دولت کو جس حد تک بڑھانا چاہیں قانونی دائرے میں رہتے ہوئے جائیداد، ملکیت، دولت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ سرمایہ کار ہو یا صنعت کار زمین خریدتا ہے یا کرایہ پر لے لیتا ہے۔ مزدور، ہنرمند وغیرہ کو ملازم رکھتا ہے اور کارخانہ یا مل چلانے کے سلسلے میں دیگر خطرات کو مول لے کر صنعت کاری کے عمل کا آغاز کرتا ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق چونکہ کاروبار کرنے کے سلسلے میں وہ تمام خطرات مول لے رہا ہے۔ لہٰذا اسے منافع کمانے کا حقدار سمجھا جاتا ہے۔

اب یہ بات بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ کارخانہ دار ، صنعت کار زیادہ منافع اسی صورت میں کما سکتا ہے جب وہ مزدوروں سے کام زیادہ لے رہا ہو اور ان کو معاوضہ کم ادا کر رہا ہو۔ اس کے علاوہ صنعت کار اپنی اجارہ داری بھی قائم کرلیتے ہیں۔ نیز کسی بھی شے کی قیمت کے تعین کے سلسلے میں باہمی تعاون کی راہ پر چلتے ہوئے من مانی قیمت اور منافع کما رہے ہوتے ہیں۔ زیادہ منافع کمانے کے لیے صنعت کار نت نئی جہت اختراعات اختیار کرتے ہوئے اشیا کو پیدا کرنے کے نئے نئے طریقے دریافت کرتے ہیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ 1970 کی دہائی سے قبل ملک میں صنعت کاری کا عمل تیز ہوچکا تھا۔

صنعت کار نئے نئے کارخانے ملیں لگاتے چلے جا رہے تھے ایک وقت ملک کی صنعتی ترقی ڈبل ڈیجٹ تک پہنچی ہوئی تھی۔ لیکن 1972 میں قومیانے کی پالیسی نے صنعتی ترقی کے اس عمل کو روک دیا۔ ملیں اور کارخانے جب قومی تحویل میں چلے گئے تو صنعت کار بھی حکومتی پالیسی سے نالاں نظر آنے لگے۔ ملک میں پیداواری عمل میں رکاوٹ پیدا ہونے لگی اور پھر ملک میں درآمدات میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ اگرچہ درآمدات میں اضافے کے دیگر محرکات بھی تھے۔ یعنی ملک میں بیروزگاری کے باعث زیادہ تر لوگوں کا رجحان بیرون ملک ملازمت اختیار کرنے کی طرف تھا۔ اسی دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں ترقیاتی عمل کا آغاز ہوا۔ وہاں پر جدید تعمیرات میں تیزی آنے لگی۔ جس کے باعث لاکھوں پاکستانیوں کو ان ملکوں میں روزگار کے مواقعے حاصل ہوتے چلے گئے۔

لہٰذا جلد ہی ان افراد کے اہل خانہ جوکہ پاکستان میں تھے انھیں ماہانہ ایک معقول رقم حاصل ہونے لگی جس کا اولین اثر یہ ہوا کہ غیر ملکی درآمدات کی طلب میں اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی الیکٹرانکس اور دیگر ضروریات یا سہولیات زندگی کی اشیا کی طلب میں اضافہ ہوا جس سے غیر ملکی مصنوعات کی طلب بہت زیادہ بڑھ گئی اور اس طرح غیرملکی درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ ملک میں درآمدات کے بدل کی تیاری پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ صنعتی ترقی کی طرف بھی توجہ نہ دی جاسکی۔ نئی صنعتوں کے قیام کے لیے حکومت نے بہت سی کارروائیاں طے کر رکھی تھیں مثلاً کسی صنعت کے قیام کے لیے این او سی لینا، مشینری کی درآمد کے لائسنس حاصل کرنا۔ بجلی کے کنکشن لینے کے لیے پاپڑ بیلنا۔ گیس کے کنکشن کے حصول کے لیے انتظار کی زحمت اٹھانا۔

لہٰذا دیگر رکاوٹوں کے باعث ملک میں صنعتوں کے پھیلاؤ کی رفتار انتہائی مدھم ہونا شروع ہوگئی جب کہ گزشتہ 15 سالوں سے لوڈشیڈنگ میں اضافے کے باعث کارخانوں میں کام کا دورانیہ بھی کم ہونا شروع ہوگیا۔ مزدور کارخانے آتے لیکن بجلی گیس نہ ہونے کی صورت میں صنعتوں کو اپنی پیداواری گنجائش سے بہت کم پیداوار حاصل ہوتی۔ نیز اس دوران چونکہ مزدوروں سے بھی کام کم لیا جاتا ہے لہٰذا ان کی آمدنی میں بھی کمی واقع ہوجاتی۔ اس طرح بیروزگاری بھی بڑھتی چلی گئی۔

ملک میں صنعتی ترقی اور بیروزگاری میں اضافے کے باعث لوگوں کی آمدنیاں، بچتیں کم سے کم ہوتی چلی گئی ہیں۔ لوڈشیڈنگ اور دیگر اسباب کی بنا پر سرمایہ کاری کی سطح بھی کم ہوکر رہ گئی ہے۔ کارخانوں اور ملوں میں کم کام ہونے کے باعث صنعتی شعبے کی پیداوار کم رہتی ہے۔ جب سے صنعت کاری کے عمل کو فروغ حاصل ہونے کی بجائے پسماندگی کا شکار ہوا ہے۔ ملکی دولت کا بڑا حصہ صنعتی عمل میں استعمال ہونے کے بجائے سونے کی صورت میں ڈالر کی صورت میں لوگ اپنے پاس جمع کرنے لگے ہیں۔ پلاٹوں، جائیدادوں کی خرید میں بڑی بڑی رقوم لگائی جا رہی ہیں۔ مختلف اشیائے صرف اور اشیائے ضرورت کی ذخیرہ اندوزی میں رقوم لگائی جا رہی ہیں۔

وہ صنعت کار جو پہلے صنعتی عمل میں حصہ لیتے تھے اب دیگر تجارت پر توجہ دینے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں بیروزگاروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ملک میں غیر پیداواری اخراجات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت اپنے غیر پیداواری اخراجات میں اضافے کی خاطر مسلسل نوٹ چھاپتی چلی جاتی ہے۔ جس کے باعث ملک میں افراط زر میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے دوسری طرف پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے اس کے ساتھ ہی مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

موجودہ حکومت کا خیال ہے کہ اس نے معیشت کو صحیح راستے پر ڈال دیا ہے۔ ملک میں صنعتی ترقی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لیکن حکومت کو اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ تمام تر بہتری کے دعوؤں کے باوجود بیروزگاروں کی تعداد مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے جسے قابو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ گھریلو صنعتوں کے لیے اور بڑی صنعتوں کے لیے ایسی پالیسی لائی جائے جس سے ان شعبوں میں زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقعے پیدا ہوں۔ حکومت اگرچہ ون ونڈو پالیسی کا برملا اعلان بھی کرتی رہتی ہے۔ نئے کارخانوں کے قیام کے سلسلے میں ہونے والی کرپشن کا قلع قمع کرنے کے دعوے بھی کرتی ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود کوئی تسلی بخش نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں۔

لہٰذا ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اور لوگوں کی آمدن میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ بیروزگار افراد کو برسر روزگار کرنے کے لیے ہر ممکن ذرایع اور وسائل اختیار کیے جائیں۔ ملک کی ترقی صحیح معنوں میں اسی صورت میں سمجھی جائے گی جب لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ لہٰذا حکومت کو ایسے منصوبے وضع کرنے کی ضرورت ہے جس سے کارخانے قائم ہوسکیں اور ان میں بھرپور پیداواری عمل کا آغاز ہوسکے اور ایسے کارخانے قائم کیے جائیں جن میں مزدوروں کی زیادہ سے زیادہ کھپت کی جاسکے۔ کیونکہ زیادہ مزدوروں کو کھپائے جانے کی صورت میں بھی ملک سے بیروزگاری کا خاتمہ ہوگا لہٰذا صنعتی ترقی کے لیے ایسے منصوبے شروع کیے جائیں جن سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار حاصل ہوں۔ ایسی صورت میں ہی لوگوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا اور غربت میں بھی کمی واقع ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔