محفوظ راستہ عہد شکنی کی نذر

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  بدھ 23 جولائی 2014
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

بالخصوص ایسے حالات میں کہ جب پہلے ہی ملک میں آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ جاری ہے تو دوسری جانب عمران خان ’’سونامی‘‘ اور ڈاکٹر قادری ’’انقلاب‘‘ لانے پر بضد ہیں، ایسے موقعے پر سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے تازہ انکشاف نے کہ ’’ان کے دور میں سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جنرل پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کا معاہدہ ہوا تھا اور اسی کے نتیجے میں جنرل مشرف صدارت کے منصب سے مستعفی ہو کر ملک سے باہر گئے تھے اور محفوظ راستہ دینے کے معاہدے پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا‘‘ اس انکشاف نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی جب کہ مسلم لیگ (ن) ایسے کسی بھی معاہدے میں شمولیت سے انکاری ہے۔ جب کہ گیلانی کے مطابق حکومت کو اس کی پابندی کرنی چاہیے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرف کے خلاف مقدمہ خود حکومت کے لیے بھی کوئی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ وہ پرخار راستہ ہے جس سے حکومت کو خود اپنا دامن بچانا بھی آسان نہیں اور حکومت کے لیے اس مشکل صورت حال سے باہر نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ مشرف کے خلاف سخت رویہ اختیار نہ کرے اور انھیں بیرون ملک جانے کا محفوظ راستہ جتنا جلدی ممکن ہو مہیا کرے، حکومتی مشکلات کا اندازہ اس کی اس دلچسپی سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ جس کے تحت وہ صرف اور صرف مشرف ہی کی حد تک ٹرائل کرانے میں دلچسپی رکھتی ہے وجہ صاف ظاہر ہے اگر حکومت نے اس ٹرائل کا دائرہ مزید وسیع کیا تو پھر اس کی زد میں خود حکومت کے سویلین، سیاسی اور عسکری ساتھی بھی آ جائیں گے اور ’’اصغر خان کیس‘‘ کی طرح یہ مقدمہ بھی عوامی حلقوں اور میڈیا کی نظر میں کئی چہرے بے نقاب کرنے اور بہت سے رازوں سے پردہ اٹھانے کا باعث بن جائے گا جو کہ حکومت کو قطعی قبول نہیں۔

لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے اس کیس میں پیش رفت ہو گی ویسے ویسے نہایت مشکل مقامات سامنے آئیں گے بالخصوص جب یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا بغاوت کے الزام کی زد میں صرف مشرف ہی آتے ہیں یا ان کے معاونین بھی؟ اس مقدمے کی آیندہ پیش رفت مزید پیچیدہ نظر آتی ہے۔ اس میں سماعت کے دوران 12 اکتوبر 1999 کا حوالہ بھی قابل غور ہے اس کیس کی زد میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز سمیت 872 ملزم ٹھہرتے ہیں اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی ایک مقدمے میں اتنے افراد شامل ہوں بصورت دیگر بھی یہ کیس حکومت کے گلے کی وہ ہڈی ہے جو کہ نگلی جائے ہے نا اگلی!

جیسا کہ ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ حکومت نے مشرف کے خلاف غداری کیس کا آغاز 12 اکتوبر 1999کی بجائے 3 نومبر 2007 سے کیا ہے اور سپریم کورٹ بھی مشرف کی جانب سے 3 نومبر 2007 کی ’’ایمرجنسی پلس‘‘ کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے لیکن 3 نومبر سے شروع کیے جانے والے اس کیس کے آغاز ہی سے ایسے اہم سوالات نے جنم لیا ہے جس کے تسلی بخش جوابات خود حکومت کے پاس بھی نہیں ہیں نیز 3 نومبر کے اس غیر آئینی اقدام پر جن بااثر سویلین، سیاسی و فوجی شخصیات نے کل مشرف کا ساتھ دیا تھا ان میں سے اکثر کی آج حکومت وقت کو بھی حمایت حاصل ہے اور مشرف کے کئی ساتھی اب مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکے ہیں اور کابینہ و حکومت کا حصہ بھی ہیں۔

ان لوگوں میں وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ، وفاقی وزیر فوڈ سیکیورٹی سکندر حیات خان بوسن، وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف، وفاقی وزیر اسٹیٹس و فرنٹیئر ریجن لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، مشیر وزیر اعظم انجینئر امیر مقام، پارلیمانی سیکریٹری کیبنٹ سیکریٹریٹ راجہ جاوید اخلاص، سمیرا ملک، رضا حیات، طاہر بشیر چیمہ، دانیال عزیز، ماروی میمن، ایاز علی شاہ شیرازی، اویس خان لغاری اور ظفر اللہ جمالی کے علاوہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد شامل ہیں جو 3 نومبر 2007 کو مشرف کا ایمرجنسی آرڈر لکھنے والوں میں پیش پیش تھے اور انھوں نے ہی ایمرجنسی کا ڈرافٹ بنایا تھا آج نواز کابینہ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو وردی پوش مشرف کو ووٹ دینے اور ’’ایل ایف او‘‘ کی تائید کرنے میں پیش پیش تھے۔

اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب کے مطابق بغاوت کے ضمن میں جنرل (ر) کیانی کا کردار بھی اہم رہا ہے۔ کیا یہ سب ’’غداری کیس‘‘ سے صرف اس لیے مستثنیٰ ہیں کیونکہ یہ سب مشرف کا ساتھ دینے پر مجبور تھے؟

جہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ مشرف کے خلاف 3 نومبر سے ہی مقدمہ کیوں؟ 12 اکتوبر سے کیوں نہیں؟ وہیں یہ سوالات بھی جنم لیتے ہیں کہ آئین توڑنے کا مقدمہ ضیا الحق، یحییٰ خان اور ایوب خان کے خلاف کیوں نہیں؟ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنانے والوں نے اسی کی حکومت میں انتخابات لڑے اور ان سے حلف بھی لیا، قائد حزب اختلاف خورشید احمد شاہ پہلے ہی نشاندہی کرچکے ہیں کہ 3 نومبر کے اقدام کے تحت مشرف کے خلاف کارروائی کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مشرف اور موجودہ حکومت میں ڈیل مکمل ہو چکی ہے۔

اگر 12 اکتوبر کا ریفرنس آتا تو اس میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت 5 ججوں کے نام بھی شامل کیے جاتے جنھوں نے مشرف کو آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی اجازت دی، صرف 3 نومبر کے اقدامات کے خلاف مقدمے میں کئی جج اور اعلیٰ فوجی افسران سمیت 40 سے 50 افراد بچ جائیں گے، ایک شخص کا ٹرائل مشکوک لگتا ہے، 3 نومبر سے پہلے 12 اکتوبر کا جرم ہوا تھا، صرف مشرف کے خلاف ٹرائل جان چھڑانے کی کوشش ہے جو بدنیتی پر مبنی ہے۔

مشرف کے دیے گئے بیان پر فوج کی خاموشی کا مطلب بھی قابل غور اور معنی خیز رہا نیز اسی ضمن میں سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین کا بیان بھی اہمیت کا حامل رہا ہے، قادری انقلاب کے پشت پناہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ مقدمہ چلانا ہے تو 12 اکتوبر 1999 سے آغاز کیا جائے بصورت دیگر 3 نومبر کے فیصلے میں شریک تمام لوگوں کو بھی مقدمے میں شامل کریں، سب ذمے دار ہیں، 3 نومبر سے بھی کیس شروع ہونے پر سیکڑوں افراد زد میں آئیں گے، لفظ ہائی ٹریزن کا اردو ترجمہ غداری نہیں بنتا اور آرمی چیف غدار نہیں ہو سکتا، اس سے دنیا میں غلط پیغام گیا اور یہ سب صرف ایک شخص کو سزا دینے کے لیے کیا گیا۔

بہرحال میاں صاحب بھی زمینی و تاریخی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے یقینا اس امر سے بخوبی واقف ہوں گے کہ اگر انھوں نے مشرف کے ساتھ عدل کا برتاؤ کیا تو سب خیر ہے اور اگر ظلم و زیادتی کی روشن اختیار کرنے کی کوشش کی تو یقینا پھر امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کی یہ قابل غور رپورٹ درست ثابت ہو سکتی ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ ’’جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فیصلے سے ملک میں نیا سیاسی طوفان آ سکتا ہے۔

میاں صاحب کا دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے وسیع النظری اور وسعت قلب و ظرف کا عملی مظاہرہ اور امن پسندی پر مبنی مثالی طرز عمل یقینا ان کے سیاسی قد کو مزید اونچا کرنے کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ یہ خیال اب عام ہے کہ مشرف کے حوالے سے حقیقی فیصلہ خود حکومت وقت اور میاں صاحب کے ہاتھوں میں ہے اور وقت ایک نئی تاریخ رقم ہونے کا منتظر ہے۔ بالخصوص ایسے وقت میں کہ جب سونامی اور انقلاب حقیقی آزادی کے نام پر ملک کی چوکھٹ پر دستک بھی دے رہے ہیں اور جو سیاسی قد آور شخصیات اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں ان کی ماضی میں مشرف سے وابستگی بھی معنی خیز اور قابل غور ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔